ماں کا دودھ بچے کا پیدائشی حق ہے۔ ڈبے کا دودھ اس کا متبادل نہیں ہو سکتا۔ اسے صرف کسی طبی مجبوری میں ہی استعمال ہونا چاہیے۔ اس کے باوجود اس کا بڑے پیمانے پر اور غیر ضروری استعمال جاری ہے۔ ہیلتھ سروسز اکیڈمی کے وائس چانسلر پروفیسر شہزاد کے بقول اس کے ذمہ دار شعبہ طب سے وابستہ لوگ ہیں۔ ان کے مطابق ایک سروے میں 80 فیصد پاکستانی ماؤں نے بتایا کہ انہیں ڈبے کا دودھ ڈاکٹروں، نرسوں اور طبی عملے نے تجویز کیا۔
پروفیسر شہزاد کے مطابق اس کا سبب فارمولا ملک کمپنیوں اور ڈاکٹروں کی ملی بھگت ہے۔ طبی عملہ یہ کام کمپنیوں سے کمیشن لے کر کرتا ہے۔ ان کے مطابق ماں کا دودھ بہترین قدرتی غذا ہے۔ اس کے برعکس فارمولاملک بچوں کی صحت تباہ کر رہا ہے۔
بعض والدین فارمولا ملک کو ماں کے دودھ سے زیادہ فائدہ مند سمجھتے ہیں۔ یہ تاثر درست نہیں۔ نیویارک یونیورسٹی اور کنیکٹیکٹ یونیورسٹی کی ایک تحقیق کے مطابق فارمولا ملک میں موجود مٹھاس بچے کی صحت کے لیے نقصان دہ ہے۔ محققین نے تجویز دی کہ ڈبوں پر یہ لکھنا چاہیے کہ یہ ایف ڈی اے کا تجویز کردہ نہیں۔ اس بات کا بھی تذکرہ ہونا چاہیے کہ اس میں مضر صحت اجزاء ہو سکتے ہیں۔