Vinkmag ad

جب دل ہی بجھ گیا ہو

دل جب دھڑکتا ہے تو سانسوں کی ڈور چلتی ہے اور زندگی رواں دواں رہتی ہے۔جب یہ بیمار ہو جاتا ہے تو کچھ صورتوں میں دواو¿ں سے کام چل جاتا ہے تاہم بعض اوقات آپریشن کے سوا چارہ نہیں ہوتا۔نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیو ویسکولر ڈیزیز کراچی میں اس شعبہ کے سربراہ اور ایگزیکٹو ڈائریکٹر پروفیسر ڈاکٹرعارف الرحمٰن خان اس موضوع پرآسان لفظوں میں دلچسپ معلومات فراہم کر رہے ہیں ۔ (انٹرویو: محمد زاہد ایوبی )


دل کی سرجری کی ضرورت کب پڑتی ہے ؟
دل کی کچھ بیماریاں ایسی ہیں جن کا ابتدائی مرحلے میں دواﺅں سے علاج ہوجاتا ہے اور اگر وہ بگڑ جائیں تو سرجری کی ضرورت پڑتی ہے ۔ تاہم کچھ بیماریاں یا کیفیات ایسی بھی ہیں جن کا پہلے ہی مرحلے میں علاج آپریشن ہے۔ ہم امراض قلب کی وجوہات کو ابتدائی طور پر دو گروہوں میں تقسیم کرسکتے ہیں۔ ان میں سے پہلا گروہ یا پہلی وجہ پیدائشی یا موروثی ہے۔ دل سے متعلق پیدائشی نقائص میں دل میں سوراخ اوراس کے کنکشنز یاوالوز کا خراب ہونا شامل ہیں۔کچھ بیماریاں ایسی ہیں جو وقت کے ساتھ ساتھ ٹھیک ہوجاتی ہیں جبکہ زیادہ تر ایسی ہیں جن کیلئے سرجری کے بغیر چارہ نہیں ہوتا۔ دوسرے گروہ میں دل کی وہ بیماریاں ہیں جو پیدائش کے بعد لاحق ہوتی ہیں۔ ان کے مزید دو ذیلی گروہ ہیں۔ پہلے میں والوز کی خرابیاں جبکہ دوسرے میں خون کی نالیوں کی بیماریاں شامل ہیں۔ بعض اوقات کسی انفکشن کی وجہ سے دل کے والوز متاثر ہوتے ہیں یااس کا پمپ کمزور پڑجاتا ہے۔ ان میں بھی سرجری کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔

٭دل میں سوراخ کا سبب کیا ہوتا ہے؟
٭٭دل میں سوراخ لوگوں میں زیادہ معروف ہے حالانکہ اس میں اور بھی کئی نقائص ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر کبھی اس کا والو تنگ ہوتاہے اور کبھی دل کے کنکشنز ٹیڑھے بنے ہوتے ہیں۔ کبھی بایاں خانہ غلط طور پر دائیں سے جڑا ہوتا ہے اور کبھی اس میں غلط پائپ لگے ہوتے ہیں۔ سوراخ چونکہ زیادہ نمایاں ہوتا ہے‘ اس لئے لوگ اس سے زیادہ آگاہ ہیں۔ سرجنز کے نزدیک اس کے اور بھی کئی پہلو اہم ہوتے ہیں۔ دل کے دوخانوں کے درمیان پردے میں سوراخ ہوتا ہے۔ انہیں یہ دیکھنا ہوتا ہے کہ سوراخ کس قسم کا ہے‘ کون سے خانے میں ہے‘ اورکن والوز کے درمیان ہے؟زیادہ پریشروالے اور کم پریشر والے خانوں کے درمیان سوراخ الگ الگ بیماریاں ہے۔ علامات کے تناظر میںبھی ہم پیدائشی امراض کودو گروہوں میں تقسیم کر سکتے ہیں۔ ایک وہ جن میں جسم نیلے پن کا شکار ہوجاتا ہے اور دوسرا وہ جن میں ایسا نہیںہوتا۔ بچہ جب پیدا ہوتا ہے تو اس کی رنگت گلابی ہوتی ہے جو بلوغت تک ایسی ہی رہتی ہے۔ اگر جسم نیلا پڑجائے تو بیماری جلد پکڑی جاتی ہے لیکن اگر ایسا نہ ہو تو پھربیماری کا اس وقت تک پکڑے جانا مشکل ہوتا ہے جب تک مریض کسی پیچیدگی کے ساتھ ڈاکٹر تک نہ پہنچے یا کوئی ماہر امراض قلب یا بچوں کا ڈاکٹر اسے پیدائش کے بعد دیکھ نہ لے۔ بڑے ہسپتالوں میں اس بات کا اہتمام ہوتا ہے کہ پیدائش کے بعد بچوں کا کوئی ڈاکٹر اس کا لازماً معائنہ کرلے لیکن بچہ اگر گھر میںیا کسی چھوٹے سیٹ اَپ میں پیدا ہو تو پھر وہ معائنے سے رہ جاتا ہے ۔انہیں بعد میں کسی وقت بچوںکے ڈاکٹر کو ضروردکھا لینا چاہئے۔

٭دل میں سوراخ ہو تو آپریشن کتنی عمر میں ہوجانا چاہئے؟
٭٭اس کا انحصار سوراخ کی نوعیت پر ہے۔ کچھ سوراخ ایسے ہیں جن میں آپریشن پیدائش کے بعد ایک گھنٹے کے اندرہوجانا چاہئے۔کچھ میں ایک دن‘ کچھ میں ایک ماہ میں اور کچھ میں یہ سکول جانے کی عمرتک ہوجانا چاہئے۔ ڈاکٹر ہی فیصلہ کرسکتا ہے کہ یہ کب ہونا چاہئے۔

٭دل کے پیدائشی نقائص یابیماریوں کا بڑا سبب کیا ہے؟
٭٭ان کی کئی وجوہات ہیں۔مثلاً کچھ دوائیں ایسی ہیں جن کازیادہ استعمال ان امراض کا امکان بڑھا دیتا ہے لیکن اس عامل کی شرح کم ہے۔ اس کا ایک سبب خاندان میں شادیوں کا تسلسل بھی ہے۔ اگرشادی اس خاندان میں کی جائے جس میں یہ مرض نہیں تو اگلی نسل میں اس کا امکان کم رہ جائے گا۔ اگلی نسل پھر باہر شادی کرے گی تو اس کا امکان مزید کم ہوجائے گا۔ اس طرح اس سے اگلی نسل میں یہ مرض نہ ہونے کے برابر رہ جائے گا۔تمباکو اور شراب نوشی سمیت دیگر نشہ کرنے والے ماں باپ کے بچوں میں بھی امراض قلب کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ حمل کے دوران کچھ دواﺅں کا استعمال بھی اس کے امکانات بڑھا دیتا ہے۔

٭ہم امراض قلب کے امکانات کو کیسے کم کرسکتے ہیں؟
٭٭ اگر خواتین کو دوران حمل جرمن خسرہ (Rubella) ہوجائے تو ان کے ہاں جنم لینے والے بچوں میں پیدائشی امراض قلب کے امکانات بہت زیادہ ہوتے ہیں۔ اگر10 یا 11 سال کی عمر میں اور پھر شادی سے پہلے بچیوں میں اس کی ویکسی نیشن کر دی جائے تو اس کے امکانات نہ ہونے کے برابر رہ جاتے ہیں۔ اس ویکسین کا اثر تقریباً پانچ سے آٹھ سال تک رہتا ہے۔ گٹھئے کابخار (rheumatic fever) بھی آگے چل کر امراض قلب کا سبب بن سکتا ہے۔

٭ہمیں کیسے پتہ چلے گا کہ کون سا بخار گٹھئے کا ہے ؟
٭٭یہ بخار عمر کے کسی بھی حصے میں ہو سکتا ہے لیکن عموماً 5 سے 15 سال کی عمر میں زیادہ ہوتا ہے۔ یہ بہت شدید نہیں ہوتا اورعموماً99سے 101ڈگری تک رہتا ہے۔ اس کی خاص علامت یہ ہے کہ اس میں جسم کے بڑے جوڑ سوج جاتے ہیں اور ان کے سوجنے کا اندازبھی ایسا ہوتا ہے جسے ڈاکٹر حضرات باآسانی شناخت کر سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر ایک دن بچہ گھر آ کر بتاتا ہے کہ اس کا گھٹنا سوجا ہوا ہے۔ گھٹنا لال ہے اور بچہ اس پر بوجھ نہیں ڈال سکتا۔ اس وجہ سے اسے چلنے میں بھی دقت ہو رہی ہوتی ہے۔ آپ علاج کریں یا نہ کریں‘ وہ 24یا 48گھنٹوں میں ٹھیک ہوجاتا ہے لیکن اس کے بعد دوسرا گھٹنا سوج جاتا ہے۔ اگلے دن وہ بھی ٹھیک ہوجاتا ہے لیکن ٹخنا سوج جاتا ہے۔ اس سے اگلے دن کہنی سوج جاتی ہے۔ یہ جوڑوں کا بھاگتا ہوادرد ہے جو کبھی ایک جوڑ کو پکڑتا ہے تو کبھی دوسرے کے پیچھے پڑجاتا ہے۔ بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ کوئی جن ہے جسے باہر نکلنے کا راستہ نہیں مل رہا لہٰذا وہ علاج چھوڑ کر پیروں فقیروں کے چکر میں پڑ جاتے ہیں۔ اس بخار میں بعض اوقات بچہ سیدھا نہیں چل پاتا۔ وہ لڑکھڑا کر چلتا ہے اور کوئی چیز پکڑ نہیںپاتا۔تاہم یہ چھوٹی علامات ہیں اور بڑی علامت جوڑوں کی سوجن ہی ہے۔

٭یہ بخارہوتا کیسے ہے؟
٭٭ہم دیکھتے ہیں کہ کچھ بچوں کا گلا اکثر خراب رہتا ہے جس کا سبب کچھ جراثیم ہیں۔ ان میں سے کچھ خاص جراثیم اس بخار کا سبب بنتے ہےں۔ غریب گھرانوں میں اس کی شرح زیادہ ہے۔ متوازن غذا کی کمی اور صفائی ستھرائی کا خیال نہ رکھنا اس کا سبب بنتا ہے۔ یہ بخار زیادہ کھانے سے نہیں ہوتا۔یہ زیادہ تر غریبوں کی بیماری ہے۔

٭گٹھئے کے بخار کا امراض قلب سے کیا تعلق ہے؟
٭٭بچپن میں ہونے والا گٹھئے کا بخار ٹھیک ہوجاتا ہے اورزندگی بظاہر معمول پر آجاتی ہے لیکن اس دوران دل کے والوز کو نقصان پہنچ چکا ہوتا ہے۔ یہ بچے جب 25 یا26 سال کی عمر کو پہنچتے ہیں تو ان کا والو جواب دے چکا ہوتا ہے۔ وہ یا ان کے والدین بھول چکے ہوتے ہیںکہ انہیں کبھی یہ بخار ہوابھی تھا۔

٭یہ بتائیے کہ خون کی نالیوں کی بیماری کا سبب کیا ہے؟
٭٭اس کا سبب مرغن غذائیں‘ زیادہ کھانااورورزش کی کمی ہے۔ پہلے یہ امیروں کی بیماری کہلاتی تھی‘ اس لئے کہ وہ خوب کھاتے تھے اورجسمانی مشقت سے دور رہتے تھے۔ اب یہ امیروں غریبوں، سب کی بیماری بن گئی ہے۔ لوگوں کا معیار زندگی بہتر ہونے سے گاڑیوں کی تعداد بڑھی ہے۔ اب تو گاﺅں میں بھی موٹرسائیکل اور سوزوکیاں آ گئی ہیں جن کی وجہ سے پیدل چلنا کم ہو گیا ہے۔ دوسری طرف خوراک میںنہاریاں‘ پراٹھے اور قورمے پہلے کی طرح شامل ہیں۔ اس کا نتیجہ جسم میں اضافی چکنائی کی صورت میں نکلتا ہے ۔ اگر آپ نے اس توانائی کو استعمال کر لیا تو ٹھیک، ورنہ یہ نالیوں میں جمنے لگتی ہے۔آج سے تقریباً35سال قبل جب میں نے کیرئیر شروع کیا تو ہمارے پاس 60سال کی عمر میں لوگ بائی پاس کیلئے آتے تھے۔اس وقت ہم حیران ہوتے تھے کہ اس عمر میں اس کی کیا ضرورت ہے۔ اب تو25سے 30سال کی عمر میں بھی لوگ آنے لگے ہیں۔ ہم طرز زندگی میں منفی تبدیلیوں کا خمیازہ بھگت رہے ہیں۔ گوشت اللہ تعالیٰ کی نعمت ہے اور اسے ضرور استعمال کریں لیکن پیٹ بھرنے کیلئے آپ سبزیاں اور دالیں وغیرہ کھائیں۔ مغربی ممالک میں ہم دیکھتے ہیں کہ کھانے کی میز پر ہر شخص کے سامنے سلاد کی شکل میں کچی سبزیوں کا ایک پیالہ پڑا ہوتاہے اور سب لوگ اسے کھا رہے ہوتے ہیں۔ اس کے برعکس ہمارے ہاں 12افراد کے سامنے ایک پلیٹ میں پیاز، مولی اور ٹماٹر کے چند ٹکڑے پڑے ہوتے ہیں۔ ایک خوبصورت حدیث ہے کہ اپنے دسترخوان کو سبزیوں سے سجاﺅ۔ جب مہمان آتے ہیں تو ہمارے دسترخوان پر ہرنعمت ہوتی ہے لیکن سبزی کا نام و نشان نہیں ہوتا۔ہماری حالت یہ ہے کہ 150روپے کا برگر بڑے شوق سے کھا لیتے ہیں لیکن 50روپے کا پھل کھاتے ہوئے گلہ ہوتا ہے کہ مہنگائی بہت زیادہ ہو گئی ہے ۔ اعتدال سے ہٹا ہوا راستہ ہی فساد کی اصل جڑ ہے۔

٭ورزش کی کمی کا اس میں کتنا حصہ ہے؟
٭٭ ہم واک کی عادت اس وقت ڈالتے ہیں جب ہمیں ہارٹ اٹیک ‘ ہائی بلڈپریشریا شوگر ہو چکی ہو۔ اس کی عادت دو یا پانچ سال کی عمر سے ڈال لینی چاہئے۔ جب کھیل کا وقت ہوتا ہے توہم بچوں کو ویڈیو گیمز یا ٹیبلٹ دے کر بٹھا دیتے ہیں۔ ہم نہ تو خود گھر سے نکلنا چاہتے ہیں اور نہ ہی بچوں کونکالتے ہیں۔ دیہات کی عورتوں میں جسمانی سرگرمیوں کی شرح بہترتھی لیکن اب وہاں بھی آہستہ آہستہ یہی صورت حال پیدا ہو رہی ہے ۔
٭ یہ بتائیے کہ ’بائی پاس‘ کیاہوتا ہے اور یہ کیوںکیا جاتا ہے ؟
٭٭دل کو خون پہنچانے والی نالی جب بند ہوجاتی ہے تو اس کے علاج کیلئے آپریشن کیا جاتا ہے۔ اس میں جسم کے کسی اور حصے سے خون کی نالی لے کر اس بندش سے پہلے اور بعد میں پیوندکاری کر دی جاتی ہے۔ اس طرح اس رکاوٹ کو ’بائی پاس‘ کر دیاجاتا ہے۔ اس کی مثال ایسے ہے کہ جیسے آپ کے گھر آنے والا پانی کا پائپ کسی جگہ سے ٹوٹ گیا۔ اب دو صورتیں ہیں۔ ایک تو یہ کہ آپ نیا پائپ ڈلوائیں۔ دوسرا یہ کہ آپ پہلے والے پائپ کو زمین کے اندر ہی رہنے دیں اور اس کے ٹوٹے ہوئے حصے کو بائی پاس کر کے اس کے اوپر ایک نیا پائپ جوڑ کراسے گھر کے اندر لے آئیں۔

٭یہ بتائیے کہ انجیو گرافی کیا ہوتی ہے ؟
٭٭اگرآپ نے بائی پاس کرنا ہے تو آپ کو معلوم ہونا چاہئے کہ خون کی کون سی نالی میں کس جگہ پر کتنی رکاوٹ ہے۔ یہ جاننے کیلئے جو ٹیسٹ کیا جاتا ہے، اسے انجیو گرافی کہاجاتا ہے۔ یہ ایک سادہ سا ٹیسٹ ہے جس میںسوئی کے ذریعے بال جیسا باریک پائپ خون کی نالی میں داخل کر کے دل کے اوپری حصے تک پہنچایا جاتا ہے۔ اس میں انجکشن کے ذریعے محلول داخل کیا جاتا ہے جو نالیوںکو واضح کر دیتا ہے۔ اس کی ریکارڈنگ کر لی جاتی ہے جس سے معلوم ہوجاتا ہے کہ رکاوٹ کہاں پر ہے اور وہ کتنی زیادہ یا کم ہے۔
٭انجیو پلاسٹی کیا ہے؟
٭٭بعض اوقات نالی میں رکاوٹ زیادہ بڑی نہیں ہوتی اور اس میں زیادہ چونابھی جمع نہیں ہوا ہوتا۔اس کے علاوہ کچھ اور شرائط بھی ہیں۔ ایسی رکاوٹ کو آپریشن کے بغیر دور کیا جاسکتا ہے۔ انجیوگرافی میں جو پائپ استعمال ہوتا ہے، اس کے سرے پر ایک چھوٹا سا غبارہ لگا ہوتا ہے۔ اسے رکاوٹ والی جگہ پرلے جا کرپھُلایا جاتا ہے جس سے رکاوٹ دور ہو جاتی ہے۔ اسے انجیو پلاسٹی کہتے ہیں۔

٭اورسٹنٹ کیا ہوتا ہے؟
٭٭ہمیں خدشہ ہوتا ہے کہ غبارے کے ذریعے جو رکاوٹ دور کی گئی، وہ کہیںدوبارہ پیدا نہ ہوجائے۔ اس کیلئے ایک چھوٹاسا سپرنگ استعمال ہوتا ہے۔ یہ ایسا ہی ہوتا ہے جیسابال پوائنٹ کے پیچھے لگا ہوتا ہے۔ جب ہم نالی کو کھولتے ہیں تو اس سپرنگ کو وہاں بٹھا دیتے ہیں تاکہ نالی دوبارہ بند نہ ہو۔یہ سٹنٹ کہلاتا ہے اور یہ انجیوپلاسٹی کا حصہ ہے۔

٭سٹنٹ کب ڈالاجاتا ہے اور بائی پاس کب کیا جاتا ہے ؟
٭٭امریکن کالج آف کارڈیالوجی کی طرف سے کچھ گائیڈلائینز ہیں جنہیں ساری دنیا میں تسلیم کیا جاتا ہے۔ ان کی روشنی میں فیصلہ کیا جاتا ہے کس مریض کو سٹنٹ ڈالنا چاہئے اور کس کیلئے بائی پاس بہتر رہے گا۔ یہ فیصلہ ڈاکٹر کرتا ہے اور اسے ہی کرنا چاہئے۔ اس کے برعکس ہمارے ہاں ڈاکٹر حضرات یہ فیصلہ مریض پر چھوڑ دیتے ہیں جو غلط پریکٹس ہے۔ دنیا بھر میں رائج سکورنگ سسٹم کی بنیاد پر ڈاکٹرکو خود یہ فیصلہ کرنا چاہئے۔

٭کوئی ایسا طریقہ بتائیے کہ ہمیں ڈاکٹروںکے پاس نہ جانا پڑے؟
٭٭امراض قلب کے علاوہ خطرناک بیماریوں میں ہائی بلڈپریشر‘ شوگر‘ ہارٹ اٹیک اور فالج شامل ہیں۔ ان سب کی وجہ مشترک خوراک ضرورت سے زیادہ‘ مرغن اور فاسٹ فوڈ کی صورت میں کھانا اور ورزش کم کرنا ہے۔ پراٹھا‘ فاسٹ فوڈ اور پزا ضرور کھائیے لیکن اعتدال کے ساتھ اور پھرواک کی عادت بھی ڈالئے۔ جہاں آپ پیدل جا سکیں، وہاں گاڑی مت استعمال کریں۔ گائیڈلائینز یہ ہیں کہ آپ روزانہ 50منٹ تک پیدل چلیں اور یہ وہ چلنا نہیں جو آپ اور میں دفتروں میں چلتے ہیں۔ آپ مسلسل چلیں جس میں کچھ پسینہ آئے اور دل بھی تیز دھڑکے۔ اس کے لئے آپ سائیکل چلاسکتے ہیں اور تیراکی بھی کرسکتے ہیں۔ ا گر آپ کارڈیالوجسٹ یا کارڈئیک سرجن سے بچنا چاہتے ہیں تو اس کا طریقہ یہ ہے کہ آپ غذا میں سادگی اختیار کریں، ورزش کی عادت اپنائیں اور طبیعت میں تھوڑی سی فقیری پیدا کریں۔

٭فقیری والی بات کی تھوڑی سی وضاحت کر دیں؟
٭٭میں نے آپ کو ایک حدیث سنائی کہ ’اپنے دسترخوان کو سبزیوں سے سجائیں۔‘اس پر عمل کریں۔ ایک اور حدیث ہے کہ اپنے معدے کو تین حصوں میں تقسیم کر لیں۔ ایک حصہ خوراک کیلئے اوردوسرا پانی کیلئے رکھیں جبکہ تیسرا خالی چھوڑ دیں۔ تیسری سنت یہ ہے کہ کھانے کے درمیان میں پانی پی لیں اور آخر میں پانی مت پئیں۔جب ہم کھانا کھاتے ہیں تو روٹی، سالن اور پانی سمیت تقریباً سوا لٹر کے قریب چیزیں معدے میںجاتی ہیں۔ اگر آپ نے شروع اور درمیان میں پانی پی لیا تو آدھا معدہ تو اس سے بھر گیا۔ اب آخر میں آپ نے کچھ بھوک بھی چھوڑنی ہے۔ یوں آپ بمشکل ایک روٹی کھائیں گے اور اس میں بھی آپ نے سبزی بھی کھانی ہے۔ میری نظر میں خواہشات نفس پر قابو اور اپنے اندر ٹھہراﺅ پیدا کرنے کا نام فقر ہے۔ ٹریفک جام میں ہم دیکھتے ہیںکہ ایک شخص ہارن دبائے جا رہا ہے۔ اس پرمختلف لوگوں کا ردعمل مختلف ہوتا ہے۔ایک شخص پیچھے مڑ کر موٹی سی گالی دےتا ہے۔ دوسرا بولتاکچھ نہیں لیکن دانت پیستا رہتا ہے جبکہ تیسرا پرسکون رہتا ہے اورمنہ دوسری طرف کر کے گنگنانے لگتا ہے۔ فقر اس شخص میں ہے جو بات بات پر مشتعل نہیں ہو رہا اورکچھ چیزیں اللہ پر بھی چھوڑ رہاہے۔ جب معاملات آپ کے خلاف چل رہے ہوں تو خود کو ٹھنڈا اور پرسکون رکھناایک آرٹ ہے اور ہم یہ سنت رسول صلی للہ علیہ و آلہ وسلم سے باآسانی سیکھ سکتے ہیں۔ ہمارے پاس ہزاروں مثالیں ہیں جو ہم سنت سے لے سکتے ہیں۔ اس میں دنیا اور آخرت کی بھلائی ہے۔

Vinkmag ad

Read Previous

مضر صحت اور حرام گوشت کس سے منصفی چاہیں۔۔۔

Read Next

جہاں چاہ وہاں راہ… ایگل سینڈروم

Leave a Reply

Most Popular