پاکستان میں شوگر کے تقریباً 33 ملین مریض ہیں۔ امراض غدود کے ماہرین کا کہنا ہے کہ ہر سال ان کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ یہ بیماری دیگر جسمانی بیماریوں کے علاوہ ذہنی امراض کا بھی باعث بن سکتی ہے۔ ماہرین کے مطابق پاکستان میں ذیابیطس کے 50 فیصد مریض اینگزائٹی اور ڈپریشن کے بھی شکار ہیں۔ عالمی یومِ ذیابیطس کے موقع پر ان خیالات کا اظہار کراچی میں ایک پریس بریفنگ میں کیا گیا۔ اس سال کے لیے عالمی یوم ذیابیطس کا موضوع "رکاوٹیں توڑیں، خلا پُر کریں” ہے۔
اس موقع پر فارم ایو ریسرچ فورم کے ڈاکٹر مسعود جاوید نے ایک تحقیق کا حوالہ دیا۔ ان کے مطابق ذیابیطس کے 1,600 سے زیادہ مریضوں پر ایک سروے کیا گیا۔ نتائج کے مطابق تقریباً آدھے مریض اضطراب اور ڈپریشن میں بھی مبتلا تھے۔ اکثریت کے بقول ڈاکٹر ان کی جذباتی صحت کے بارے میں بہت ہی کم پوچھتے ہیں۔
پاکستان جرنل آف میڈیکل سائنسز اور پلس انٹرنیشنل کے چیف ایڈیٹر شوکت علی جاوید نے کہا کہ ذیابیطس سے نپٹنے کے لیے ہمیں طرز زندگی مٰں تبدیلیاں لانا ہوں گی۔ ہمیں چاہیے کہ خوشی کے مواقع پر میٹھے کے بجائے پھل کھائیں۔ بچوں کو سکرین ٹائم کم کرنے کی ترغیب دیں۔ جسمانی سرگرمی کو فروغ دیں اور جنک فوڈ سے بچیں۔
پاکستان اینڈوکرائن سوسائٹی کے صدر ڈاکٹر علی اصغر نے اپنے خطاب میں کہا کہ ذیابیطس دنیا بھر میں وبا کی صورت اختیار کر چکی ہے۔ گزشتہ چند دہائیوں میں اس کے کیسز میں ڈرامائی اضافہ ہوا ہے۔ اگر صورت حال یہی رہی تو 2045 میں اس کے مریضوں کی تعداد 783 ملین تک پہنچ سکتی ہے۔
ملک میں اگر ذیابیطس کے 50 فیصد مریض اینگزائٹی اور ڈپریشن کے شکار ہیں تو یہ تشویش ناک بات ہے۔ اسے ذہنی صحت کے مسئلے کے طور پر بھی دیکھے جانے کی ضرورت ہے۔