پاکستان میں ایچ آئی وی کی شرح پچھلے 15 برسوں میں خطرناک حد تک بڑھ گئی ہے۔ 2010 میں اس مرض کے نئے کیسز 16 ہزار تھے، جو 2024 میں بڑھ کر 48 ہزار ہو گئے ہیں۔ یوں کل تعداد تین گنا، جبکہ اضافہ دو گنا، یعنی 200 فیصد ہو گیا ہے۔ یہ اضافہ مشرقی بحیرۂ روم کے خطے میں تیز ترین ہے۔ یہ اعداد و شمار ڈبلیو ایچ او اور یو این ایڈز نے ورلڈ ایڈز ڈے کے موقع پر جاری کیے ہیں۔
ماضی میں ایچ آئی وی زیادہ تر خطرے والے گروہوں تک محدود تھا۔ اب یہ بچوں، شریک حیات اور عام افراد میں بھی پھیل رہا ہے۔ اس کی متعدد وجوہات میں غیر محفوظ انتقال خون، انجیکشن کے غلط طریقے، اور حفاظتی اقدامات کی کمی نمایاں ہیں۔ حمل کے دوران ٹیسٹ کا فقدان، غیر محفوظ جنسی تعلقات اور علاج کی محدود رسائی بھی اس کے اسباب ہیں۔
پاکستان میں تقریباً 3 لاکھ 50 ہزار افراد ایچ آئی وی کے ساتھ زندگی گزار رہے ہیں۔ ان میں سے تقریباً 80 فیصد اپنی کیفیت سے بے خبر ہیں۔ بچوں میں نئے کیسز 2010 میں 530 سے بڑھ کر 2023 میں 1,800 ہو گئے ہیں۔ گذشتہ دہائی میں علاج کرانے والے مریضوں کی تعداد آٹھ گنا بڑھ گئی ہے۔ علاج کے مراکز کی تعداد بھی 13 سے 95 ہو گئی ہے۔