Vinkmag ad

ایک کاری زخم جو بہت کچھ سکھا گیا

قدیم زمانے میں نقل وحمل سمندر میں کشتیوں اور بحری جہازوں جبکہ سڑکوں پر باربرداری کے جانوروں اور گدھا گاڑیوں وغیرہ کے ذریعے ہوتی تھی۔ 18ویں صدی میں سائنسی ایجادات نے صنعتی انقلاب کی راہ ہموار کی لہٰذا اب تک جو مصنوعات ہاتھ سے تیارہوتی تھیں‘ اب مشینوں کی مدد سے کثیر تعداد میں بننے لگیں۔ نئی صورت حال میں اس بات کی بھی ضرورت محسوس کی گئی کہ انہیں فروخت کے لئے دور دراز کے علاقوں میں پہنچایا جائے۔اسی دور میں بھاپ سے چلنے والا انجن بھی ایجاد ہوا جس کی وجہ سے نقل و حمل اور انسانی سفر کے لئے ریل گاڑی کا استعمال بہت مقبول ہوگیا۔ یوں 1820ءکے بعد امریکہ کے مختلف علاقوں میں ریل کی پٹڑیوں کے جال بہت تیزی سے بچھائے جانے لگے۔ بعض اوقات پٹڑیوں کے راستے میں پہاڑ اور چٹانیں حائل ہو جاتی تھیں جنہیں ہٹانے کے لئے دھماکہ خیز مواد کا استعمال ضروری ہوتا تھا۔ایسے میں کچھ ایسے لوگوں کی ضرورت بھی پیدا ہوئی جو اس خطرناک پیشے کو اپناذریعہ معاش بنا سکیں۔
فنیاس گیج( Phineas Gage)ایسا ہی ایک ماہر فن تھا جس نے ایک ریلوے کمپنی میں بطور ”فورمین“ ملازمت اختیار کرلی ۔ ناہموار ٹیلوں اور چٹانوں کو دھماکہ خیز مواد کے ذریعے اُڑانے کے لئے وہ لوہے کی ایک سلاخ کی مدد سے چٹان میں ایک چھوٹا سا گڑھا بناتا اور اس میں بارود بھر کر اسے ریت کی تہہ سے ڈھانپ دیتا۔سلاخ اندر سے کھوکھلی ہونے کے باوجود وزن میں تقریباً چھ کلوگرام اور لمبائی میں دومیٹر کے لگ بھگ ہوتی جس کا ایک سرا نوکیلا ہوتا۔ وہ ذرا فاصلے سے ایک فیوز کی مدد سے دھماکہ کرتاجس سے راستہ صاف ہوجاتا۔اس دوران وہ کسی محفوظ جگہ میں پناہ لے لیتا تاکہ اسے کوئی گزند نہ پہنچے ۔
13ستمبر1848ءکو 25 سالہ گیج نے ایسا ہی ایک گڑھا بنایا اور اس میں بارود ڈال کر سلاخ کی مدد سے اس کی سطح ہموار کرنے لگا۔ اسی دوران سلاخ کا لوہا گڑھے میں چٹان کے کناروں سے ٹکرایاتوایک چنگاری پیدا ہوئی جس سے بہت بڑا دھماکہ ہوگیا۔ ایسے میں لوہے کی سلاخ توپ کے گولے کی طرح گیج کے بائیں گال میں داخل ہوئی اور اس کی ہڈیوں میں سے گزرتی ہوئی اوپر کی جانب کھوپڑی سے پار ہو کر تقریباً30میٹر کے فاصلے پر جاگری۔ جب لوگوں نے اُس سلاخ کو دیکھا تو اس پر خون جما ہواتھا اوراس کے ساتھ دماغ کے چند ٹکڑے بھی چپکے ہوئے تھے۔اس حادثے میں گیج کے بائیں گال کی ہڈیوں کو نقصان پہنچا‘ بائیں آنکھ کی بینائی جاتی رہی‘دماغ کا بایاں اگلا حصہ یعنی فرنٹل لوب ) (frontal lobe متاثر ہوا اورکھوپڑی کی ہڈی میں ایک بڑاسوراخ بھی ہو گیا۔ کھوپڑی میں ہلکی دراڑیں بھی پڑ گئیں اوردماغ کا تقریباً آدھے کپ جتنا حصہ کھوپڑی سے باہرآن گرا۔دلچسپ بات یہ ہے کہ اتنے بڑے حادثے کے باوجود گیج نہ صرف ہوش حواس میں رہا بلکہ کچھ ہی دیر بعد وہ وہاں سے کچھ فاصلے پر بیٹھا لوگوں کوحادثے کی تفصیلات بھی بتارہاتھا۔
ڈاکٹر جان ہارلو(John Harlow)نے اس کی کھوپڑی میں انگلی ڈال کر زخم کاجائزہ لیا اورکنارے کی چھوٹی ہڈیوں کو واپس اپنی جگہ پر جمادیا۔اس سے قبل اس نے تسلی کر لی کہ دماغ کے اندر ہڈی کا کوئی ٹوٹا ہوا ٹکڑا تو نہیں۔اس کے بعد اس نے زخم کو صاف کرکے اسے مرمت کیا اور اس کی روزانہ مرہم پٹی کاانتظام کر دیا۔چند دن بعد زخم میں پیپ پڑ گئی تو ڈاکٹر نے اسے نکال کر علاج جاری رکھا۔ ڈاکٹر کی توقع کے برعکس مریض چند ماہ میں صحت یاب ہوگیا تاہم بینائی زائل ہونے کے علاوہ اس پر مرگی کے دورے پڑنے لگے۔ مزید براں اس حادثے کے بعد اس کی پوری شخصیت ہی بدل گئی ۔اس واقعے سے قبل وہ ایک مہذب اور بامروت انسان تھا جبکہ اب وہ ایک بدتمیز اور غیر مہذب شخص بن چکا تھا۔ بات بات پر گالی گلوچ‘چڑچڑاپن اور بدزبانی اس کا معمول بن گیا۔ اگر وہ کسی سے کوئی عہد کرتا تو اُس پر قائم رہنے کی بجائے اس سے پہلو تہی کرتا‘ حالانکہ پہلے وہ اس طرح کا آدمی نہ تھا۔ اب وہ اپنی ذاتی صفائی کا بھی خیال نہ رکھتا تھا۔ مرگی کے دوروں کی وجہ سے اس کی صحت بتدریج خراب ہوتی گئی اور 1860ءمیں اس کا انتقال ہوگیا۔ یہ چونکہ ایک منفرد کیس تھا‘اس لئے اس پر مزید تحقیق کے لئے 1867ءمیں اس کی قبر کھود کر اس کی کھوپڑی کو نکالا گیا اوراسے لوہے کی مذکورہ سلاخ کے ساتھ ڈاکٹر ہارلو تک پہنچادیاگیا۔ آج بھی یہ دونوں چیزیں ہارورڈ یونیورسٹی کے میڈیکل کالج میں موجود ہیں۔چند برس قبل کیلیفورنیا یونیورسٹی کی ایک ٹیم نے ایک بار پھر اس کھوپڑی کی جانچ پڑتال کی اور اس نتیجے پر پہنچی کی گیج کے دماغ کاچار فی صدحصہ جسے سیری برل کارٹیکس (cerebral cortex) کہتے ہیں اور 11 فی صد سفید مواد) (white matter‘ اس حادثے میں ضائع ہوا تھا۔ اگرچہ اس حادثے میں مریض کی آنکھ ضائع نہیں ہوئی تھی لیکن پھر بھی اس کی بینائی جاتی رہی جس کا سبب آنکھ کے اعصاب کو پہنچنے والا نقصان تھا جبکہ مرگی کے دوروں کا سبب اس کے دماغ میں زخم مندمل ہونے کے بعد بننے والا کھرنڈ(scar) تھا۔
اس حادثے سے طبی محققین کو بہت کچھ سیکھنے کو ملا اورانہیں پہلی بارمعلوم ہوا کہ انسان کی شخصیت ‘ عادات اور کردار کا تعلق دماغ کے ” فرنٹل لوب“ سے ہے اور یہ کہ اس کے دوحصے(دایاں اور بایاں لوب) ہوتے ہیں۔20ویں صدی کی ابتداءمیں ایسی دوائیں ایجاد نہیں ہوئی تھیں جن کی مدد سے تند خو نفسیاتی مریضوں کو قابو کیاجاسکتا لہٰذا ایک آپریشن کے ذریعے یا تو فرنٹل لوبز کو ہٹادیا جاتا یا انہیں باقی دماغ سے الگ کردیا جاتا ۔اس طرح اُن کا مزاج تو نرم ہوجاتالیکن اکثر صورتوں میں وہ اپنی شخصیت کھو بیٹھتے۔ ایسے آپریشنز کی زد میں امریکہ کے مشہور صدر جان کینیڈی کی بہن بھی آئیں ۔ اب اس آپریشن کو غیر قانونی قرار دے دیا گیا ہے۔
اگست 2012ءمیں بی بی سی نے یہ خبر شائع کی کہ برازیل میں ”ایڈورڈلِیٹ“ نامی24سالہ مزدور پر زیر تعمیر عمارت کی پانچویں منزل سے لوہے کی دو میٹر سلاخ گری اور اس کے آہنی ہیلمٹ کو چیرتی ہوئی اس کے سر میں داخل ہوئی اور ماتھے کے نچلے حصے سے باہر نکل آئی۔ پانچ گھنٹوں پر مشتمل طویل آپریشن کے ذریعے سلاخ کو نکال دیاگیا اور مریض بچ گیا۔یہ واقعہ گیج کے حادثے سے بہت ملتا جلتا ہے لیکن آج کی طبی سائنس اور19ویں صدی کی سائنس میں بہت فرق ہے۔

Vinkmag ad

Read Previous

آپ کے صفحات

Read Next

مسائل بھیجئے‘ماہرنفسیات سے جوابات پائیے

Most Popular