Vinkmag ad

موٹاپے سے نجات‘ مگر کیسے؟

 کھانے کی بات ہو اور لوگ ہلکی پھلکی غذا کو مناسب مقدار میں ترجیح دیں، ایسا بہت کم ہی دیکھنے میں آتا ہے ۔ جب وہ حد سے تجاوز کرتے ہیں تو وزن بھی اسی حساب سے تجاوز کرتا ہے ۔جب ”ویٹ مشین“ دہائیاں دینے لگتی ہے تو لوگ وزن کم کرنے کی سوچتے ہیں اور اس کے لئے ایسے طریقے اپناتے ہیں جو وزن تو کم کر دیتے ہیں لیکن صحت کوبھی تباہ کر دیتے ہیں ۔وزن کو صحت مندانہ طریقوں سے کیسے کم کیا جا سکتاہے‘ پڑھئے ماہرین کی آراءکی روشنی میں لکھی گئی صباحت نسیم کی اس تحریر میں

_______________________________________________________________________________________________________

    خوبصورت لگنا انسانی جبلت ہے لہٰذا ہر فرد اس مقصدکے حصول کے لئے مختلف جتن کرتا ہے ۔خوبصورتی کے مختلف معیارات ہیں جن میں جلد کی رنگت‘ قد اورجسمانی خصوصاً چہرے کے اعضاءکے خاص تناسب کے علاوہ افراد کا ڈیل ڈول بھی شامل ہے ۔ اگر ہم ڈیل ڈول یعنی جسامت کی بات کریں تو دبلا پتلا ہونا آج کے دور میں خوبصورتی کا معیار ٹھہرا ہے جسے میڈیا نے فلموں ‘ ڈراموں اور جارحانہ اشتہاربازی کے ذریعے خوب ابھارا ہے۔اس کی وجہ سے لوگوں‘ خصوصاً نوجوانوں میں وزن کم کرنے کا شوق جنون کی حد تک بڑھا ہے۔
فربہی ہونا بنیادی طور پر صحت سے متعلق ایک معاملہ ہے لیکن بظاہر لوگوں کی اکثریت اسے خوبصورتی یا بدصورتی کے تناظر میں ہی دیکھتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ اکثر لوگ اپناوزن کم کرنے کے لئے ایسے طریقے اپناتے ہیںجن سے یہ مقصد توحاصل ہوجاتا ہے لیکن ان کی صحت تباہ ہو کر رہ جاتی ہے ۔ اس سے بھی پہلے کی بات یہ ہے کہ بعض لوگ جسے ”موٹاپا “ سمجھ رہے ہوتے ہیں‘ وہ موٹاپا نہیں ہوتا۔ اسی طرح ایسے لوگ بھی ہیں جو موٹاپے کی حدود میں داخل ہو چکے ہوتے ہیں لیکن انہیں اس کاعلم ہی نہیں ہوتا۔ اس لئے ضروری ہے کہ اس معاملے کا ذرا تفصیل سے جائزہ لیا جائے ۔

موٹاپا کیا ہے؟
آگے بڑھنے سے قبل یہ جاننا ضروری ہے کہ موٹاپا اصل میں ہے کیا، اس لئے کہ یہ اصطلاح بالعموم ہراس شخص کےلئے بے دھڑک استعمال کر لی جاتی ہے جس کا وزن عام لوگوں کی نسبت ذرازےادہ معلوم ہوتا ہو ۔ ےہ رویہ درست نہےں‘ اس لئے کہ ہر شخص کا موزوں وزن اس کے قد کے لحاظ سے مختلف ہوتا ہے ۔اس کی پیمائش کا بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ پیمانہ بی اےم آئی(باڈی ماس انڈےکس) کہلاتا ہے جو قد اور وزن میں تناسب کے مطابق معلوم کیا جاتا ہے۔اس کے لئے فرد کے وزن (پاﺅنڈز ےا کلوگرام) کو اس کے قد (مےٹریا فٹ) پر تقسےم کےا جاتا ہے۔انٹرنیٹ پر ایسی بہت سی ویب سائیڈز موجود ہیں جن کی مدد سے بی ایم آئی باآسانی معلوم کیا جا سکتا ہے ۔

ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق اگر کسی شخص کا بی ایم آئی 18.5سے کم ہو تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کا وزن ضرورت سے کم ہے جس میں اضافے کی ضرورت ہے۔18.6 سے23.9تک بی ایم آئی نارمل تصور ہوتا ہے تاہم جس شخص کا 25 سے 29 کے درمیان ہو تو اسے ہم موٹا (over weight) کہہ سکتے ہےں۔ اگربی ایم آئی 30یا اس سے آگے بڑھ جائے تو پھر موٹاپا عام درجے میں نہےں رہتا بلکہ بےمارےوں کا باعث بن سکتا ہے۔ایسے افراد کو فربہ (obese) کہا جاتا ہے۔
وزن بڑھنے کی دو بڑی وجوہات ہیں جن میں سے ایک کا تعلق کھانے کی عادات اور دوسرے کا جسمانی طور پر غیر متحرک ہونے سے ہے۔اس مسئلے کا حل بھی انہی کے مطابق ہی نکالا جا سکتا ہے ۔ اس کی تفصیل درج ذیل ہے :

غذا اورموٹاپا
ہم جو غذا بھی کھاتے ہیں‘ وہ بالآخرگلوکوز میں تبدیل ہوجاتی ہے جس سے جسم میں توانائی پیدا ہوتی ہے۔ توانائی کی اکائی ”کیلوری‘ ‘ہے ۔ ہم توانائی کو مختلف کاموں کے لئے استعمال کرتے ہیں جسے تکنیکی زبان میں ”کیلوریز کو جلانا“ کہا جاتا ہے ۔
بعض لوگوں کی خوراک میں کیلوریز‘ ان کی توانائی کی ضرورت سے زیادہ پائی جاتی ہیں ۔ مرغن کھانے اور بیکری کی اشیاء‘ پیزا ،ڈونٹس اور برگر وغیرہ زیادہ کیلوریز والے کھانوں کی چند مثالیں ہیں۔ان سے حاصل شدہ اضافی کیلوریزجسم میں چربی کی شکل میں جمع ہو جاتی ہیں۔ جب جسم میں چربی کی مقدار ایک حد سے بڑھ جائے تو موٹاپے کا سبب بنتی ہے ۔وزن کو کنٹرول میں رکھنے کے لئے ضروری ہے کہ ہم اپنی غذا میں اتنی ہی کیلوریز لیں جتنی ہمارے جسم کو ضرورت ہیں۔

یہ بات ذہن میں رکھنی چاہئے کہ وزن میں اضافہ کرلینا آسان جبکہ اس سے نجات پانا خاصا مشکل کام ہے ۔دوسری بات یہ کہ اسے صحت مندانہ انداز میں ہی کم کرنا چاہئے ورنہ سنگین نتائج سامنے آ سکتے ہیں۔ میڈیا پر ایسی ادویات اور طریقوں کے اشتہارات کی بھرمار ہے جن میں دعویٰ کیا جاتا ہے کہ وہ آپ کا وزن دنوں میں کم کر دیں گے ۔ہمیں خود کو اس بات پر تیار کرنا ہوگا کہ صحت مندانہ انداز میں وزن گھٹانا ایک سست رو اور تدریجی عمل ہے لہٰذااس ضمن میں ہتھیلی پر سرسوںجمانے کی سوچ غلط ہے ۔کوئٹہ سے تعلق رکھنے والی یونیورسٹی کی ایک طالبہ شکیلہ ایسے ہی ایک تجربے سے گزریں:
” فاسٹ فوڈ زیادہ کھانے کی وجہ سے میرا وزن بڑھ گیاجس پر سہیلیوں اوراہل خانہ نے مجھے موٹاپے کے طعنے دینا شروع کر دیئے۔ان سے مجھے بہت شرمندگی ہوتی ۔ اُن دنوں سوشل میڈیا اورانٹرنیٹ پر” پروٹین ڈائٹ“ کابڑاچرچا تھا جس کے مطابق صرف پروٹین پر مشتمل غذا کھا کر وزن بڑی تیزی سے کم کیا جا سکتاہے ۔ میں نے بھی بغیر سوچے سمجھے اس پر عمل کرنا شروع کردیا۔اس کے نتیجے میں میراوزن تو بہت جلد کم ہوگیا لیکن بائیں گردے میں درد رہنے لگا۔ڈاکٹر کے پاس جانے پر معلوم ہوا کہ میرے گردے میں پتھری ہے‘ حالانکہ اس سے پہلے مجھے اس کی شکایت نہ تھی ۔ یہ خبر سن کرمیرے پاو¿ں تلے سے زمین نکل گئی۔ ڈاکٹر نے بتایا کہ بظاہر اس کا سبب پروٹین ڈائٹ ہے جس نے وزن میں کمی کے ساتھ آپ کویہ’ تحفہ‘ بھی دیا ہے ۔“

ان کاکہنا ہے کہ میں اب اپنی فرینڈز کویہی مشورہ دیتی ہوں کہ وزن کم کرنے کے لئے اشتہاربازوں پر ہرگز اعتماد نہ کریں اور اس سلسلے میں کسی ڈائی ٹیشن سے مشورہ کریں ۔
بعض لوگ وزن کم کرنے کے لئے ”ڈائٹنگ “کے نام پر کھانا پینا بہت ہی کم کردیتے ہیں یااپنی خوراک میں ایسی تبدیلیاں لاتے ہیں جو ان کی صحت کوشدید نقصان پہنچاتی ہیں۔ کچھ لوگ پورا پورادن کچھ نہیں کھاتے اور رات کو جب بھوک ستاتی ہے تو پیٹ بھر کر کھانے کے بعد فوراً سو جاتے ہیں۔ ایسے میں ان کا وزن کم ہونے کی بجائے مزید بڑھ جاتا ہے۔ شفا انٹر نیشنل ہسپتال کی ماہر غذائیات زینب بی بی کے مطابق درج ذیل ڈائٹ پلان اپنے وزن کو کم کرنے یا اسے اپنی حد میں رکھنے میں معاون ثابت ہوتا ہے

ان کا کہنا ہے کہ اس ضمن میں درج ذیل ہدایات پر عمل کریں:
٭ہمیشہ وقفے وفقے سے اور تھوڑی سی بھوک رکھ کر کھائیں۔
٭غذا میں فائبر سے بھرپور اشیاءمثلاً ہرے پتوں والی سبزیوں ، دالوںاور تازہ پھلوں کا استعمال زیادہ کریں۔
٭گھروں میں بنے کھانوں کو بازاری کھانوں پرترجیح دیں ۔ چھانے ہوئے آٹے اور مصنوعی عمل(پروسیسڈ) سے بنی غذا سے پرہیز کریں۔
٭ فاسٹ فوڈ سے حتی الامکان پرہیز کریں کیونکہ یہ کاربوہائیڈریٹس اور کیلوریز سے بھرپور ہوتاہے لہٰذا جسم میں چربی جمع کرنے کا باعث بنتاہے۔
٭سادہ غذا باقاعدہ ترتیب دیئے گئے ڈائٹ پلان کے مطابق کھانے کی عادت ڈالیں۔ مثلاًہفتے میں دو دن دال،ایک دن چاول ، دو دن سبزی اوردو دن گوشت کھائیں تو تمام فوڈ گروپس غذا میں شامل ہوجائیں گے اور وہ متوازن ہو جائے گی۔
٭خوراک میں چینی کا استعمال کم سے کم رکھیں۔موزوں وزن کے حامل افراد ہفتے میں ایک آدھ بار ہلکی چینی والی سویٹ ڈِش کا آدھا پیالہ کھالیں تو کوئی حرج نہیں‘مگر موٹاپے کے شکار افراد یا ذیابیطس کے مریض اس سلسلے میں احتیاط کریں ۔
٭سردیوں میں قدرتی چکنائی اور توانائی کے لئے خشک میوہ جات کا استعمال کریں۔

جسمانی سرگرمیاں
وزن کو مناسب حد میں رکھنے کا دوسرا صحت مندانہ طریقہ متحرک طرز زندگی ہے۔ہمیں چاہئے کہ اپنے معمولات کچھ اس طرح سے ترتیب دیںکہ جسمانی سرگرمیاں خودبخود اس کا حصہ بن جائیں۔مثلاً اگر دفتر جانے کے لئے آپ پبلک ٹرانسپورٹ استعمال کرتے ہوں تو اپنے سٹاپ سے ذرا پہلے گاڑی سے اتر جائیں اور وہاں سے پیدل گھر آئیں۔ اگر سیڑھیاں اور لفٹ‘ دونوں میسر ہوں تو سیڑھیوں کو ترجیح دیں۔ نماز گھر میں پڑھنے کی بجائے مسجدمیں ادا کریں۔ گھر کے سودا سلف کے لئے قریبی مارکیٹ تک جانا ہو تو موٹرسائیکل یا گاڑی کے استعمال کی بجائے وہاں تک پیدل جائیں۔ اس کے ساتھ ساتھ باقاعدہ ورزش کو بھی اپنا معمول بنائیں۔

ورزش یا واک سے وزن کیونکر کم ہوتا ہے؟‘ اس کی وضاحت کرتے ہوئے شفا انٹرنیشنل اسلام آباد کے ماہر امراض غدود ڈاکٹر اسامہ اشتےاق کہتے ہےں کہ کام کاج کرنے کے لئے توانائی کی ضرورت ہوتی ہے جو گلوکوز کی صورت میں ملتی ہے۔ہم جسمانی طور پر جتنی زےادہ سرگرمی دکھائےں گے‘ ہمیں اتنی ہی زےادہ توانائی کی ضرورت ہو گی ۔ جب زےادہ توانائی چاہئے ہوتی ہے تو جسم میں جمع شدہ چربی گلوکوز میں تبدیل ہوکر استعمال ہوجاتی ہے ۔ورزش کرنے سے وزن اسی وجہ سے کم ہوتا ہے۔

ورزش کے حوالے سے خاص طور پر خواتین میں یہ سوچ عام پائی جاتی ہے کہ وہ گھر کے کام کاج کے دوران اتنی تھک جاتی ہیں کہ انہیں مزید کسی قسم کی ورزش کی ضرورت نہیں رہتی ۔ گھر یلو کام انجام دینے میں یقیناًتوانائی صرف ہوتی ہے لیکن عموماً یہ کام ذہنی دباو¿ کے زیراثر ہی کئے جاتے ہیں۔اس لئے ان کی انجام دہی کے دوران ذہن پر سکون نہیں رہتا جبکہ ورزش انسان کو ذہنی پریشانیوں سے نجات دلاتی ہے‘ اس لئے کہ یہ محض جسم کی حرکات و سکنات کا نام نہیں بلکہ جذبات اور احساسات کی تطہیر کا بھی ذریعہ ہے۔ جب ہم ورزش کا ارادہ کرتے ہیں تو ہمارے دماغ سے ایسے ہارمونز کا اخراج ہوتا ہے جو ہمیں تازہ دم اور باحوصلہ بنانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں ۔

گفتگو کو سمیٹتے ہوئے ہم کہہ سکتے ہیں:
٭ ہمیں سب سے پہلے یہ معلوم کرنا ہوگا کہ کیاہمارا وزن واقعتاً بڑھا ہوا ہے یا یہ محض ہمارا وہم ہے ۔
٭ اگروزن اپنی حد سے بڑھا ہوا ہو تو اسے صحت مندانہ انداز میں ہی کم کرنے کی منصوبہ بندی کریں۔
٭بڑھا ہوا وزن کم کرنا ایک تدریجی عمل ہے جو چٹکیوں میں نہیں ہوگا، لہٰذا اسے کم کرنے کے دوران صبر اور استقامت کا ثبوت دیں۔
٭ وزن کم کرنے کے لئے متوازن غذا، متوازن مقدار میں کھائیں اور ایسا طرز زندگی اپنائیں جس میں جسمانی سرگرمیاں قدرتی انداز میں شامل ہوں۔ اس کے ساتھ ساتھ باقاعدہ ورزش کو بھی اپنے اپنے روزانہ کے معمول میں شامل کریں۔

Vinkmag ad

Read Previous

”تحفظِ مریضاں “میں مریض کا کردار

Read Next

ملاوٹ اور خوراک کی آلودگی

Most Popular