ماہرین کے مطابق پاکستان میں ہر 90 منٹ بعد ایک بچہ تھیلیسیمیا میجر کے ساتھ پیدا ہوتا ہے۔ یہ بیماری مکمل طور پر روکی جا سکتی ہے۔ اس کا واحد حل شادی سے پہلے سکریننگ کو لازمی بنانا ہے۔ ان خیالات کا اظہار ورلڈ تھیلیسیمیا ڈے 2025 کی تیاریوں کے سلسلے میں کراچی میں منعقدہ ایک پریس کانفرنس میں کیا گیا۔
پریس کانفرنس سے خطاب میں پیڈیاٹرک ہیماٹالوجسٹ ڈاکٹر ثاقب انصاری نے بتایا کہ پاکستان میں 10 ملین سے زائد افراد تھیلیسیمیا کے کیریئر ہیں۔ ہر سال 5,000 سے 6,000 بچے تھیلیسیمیا میجر کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں۔ اس وقت 90,000 سے زائد بچے اس بیماری کا شکار ہیں اور خون کی منتقلی پر انحصار کرتے ہیں۔
اگر پاکستان میں ہر 90 منٹ میں ایک بچہ اس مرض کے ساتھ پیدا ہوتا ہے تو یہ تشویش ناک صورت حال ہے۔ تمام صوبائی اسمبلیوں، قومی اسمبلی اور سینیٹ نے تھیلیسیمیا کی روک تھام کے لیے قوانین منظور کیے ہیں۔ تاہم، ڈاکٹر انصاری کے بقول ان کا مؤثر نفاذ نہیں ہو رہا۔ اس کی وجہ سے نئے کیسز میں اضافہ ہو رہا ہے۔
ڈاکٹر انصاری نے مطالبہ کیا کہ نکاح کے اندراج سے پہلے تھیلیسیمیا سکریننگ رپورٹ کو لازمی قرار دیا جائے۔ نکاح رجسٹرارز کو اس پر عملدرآمد کی تربیت دی جائے۔ دولہا، دلہن اور حاملہ خواتین کے لیے سرکاری ہسپتالوں میں تھیلیسیمیا ٹیسٹ کی مفت سہولت فراہم کی جائے۔
