جنگ ضرور کرنی چاہئے

14فروری کو مقبوضہ کشمیر کے علاقے پلوامہ میں ہندوستانی فوج کے ایک قافلے پر خود کش حملہ ہوا۔ حملے میں مبینہ طور پر40 فوجی مرے اور متعدد زخمی ہوئے۔ ہندوستانی حکومت نے حسب معمول پاکستان پر الزام دھرا۔ پاکستان نے حملے کی مذمت کی اور اس کے ساتھ کسی طرح کے تعلق سے انکار کیا۔14 فروری سے تاہم ہندوستان کے الزامات اور خطے کے ماحول میں تناؤ بڑھتا گیا۔ ان الزامات میں پاکستان کے اندر کارروائی کی دھمکیاں بھی شامل تھیں۔ ہندوستان نے پاکستان کو ٹماٹر اور پیاز کی برآمد پر بھی پابندی عائد کر دی۔ پاکستان کے وزیر اعظم نے شواہد کی فراہمی پر ہندوستان کو حملے کی چھان بین میں تعاون کی پیشکش کی اور ساتھ ہی واضح بھی کیا کہ کسی مہم جوئی کی صورت میں پاکستان جواب دے گا۔ شومئی قسمت، ہندوستانی قیادت اسلام آباد کی اس معقول پیشکش اور دانشمندانہ ردعمل کو درست تناظر میں سمجھنے میں ناکام رہی۔ نئی دلی میں فاختاؤں کے مقابلے میں عقا بوں کی سنی گئی اور 26 فروری کو ہندوستانی جنگی طیارے لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پاکستان کی فضائی حدود میں داخل ہوئے۔ افواج پاکستان کے ترجمان کے مطابق پاک فضائیہ کے ہوابازوں نے ان طیاروں کا تعاقب کر کے انہیں بھگا دیا اور وہ جاتے ہوئے ’’پے لوڈ‘‘ یعنی بارودی مواد پھینک گئے۔ ہندوستان نے تاہم حملے میں سینکڑوں مبینہ دہشت گردوں کو مارنے اور ہدف حاصل کرنے کا دعوی کیا جس کی آزاد ذرائع سے تصدیق نہ ہو سکی۔ ہندوستانی ذرائع ابلاغ کے بعض حصوں کی طرف سے بھی اپنی افواج کے اس دعوے کی صداقت پر سنجیدہ سوالات اٹھائے گئے۔ تاہم ہندوستانی میڈیا کے سوالات اٹھانے کا انداز صداقت جاننے سے زیادہ اکسانے اور بھڑکانے والا تھا۔ اس غیر ذمہ دارانہ کوریج نے تناؤ میں مزید اضافہ کیا۔ اسلام آباد میں عسکری اور سیاسی قیادت نے ایک اجلاس کے بعد بتایا کہ پاکستان ہندوستانی مہم جوئی کا جواب دینے کے لئے جگہ اور وقت کا تعین خود کرے گا۔ صاف پتہ چل رہا تھا کہ ہندوستان کی اس مہم جوئی کا جواب دینے کے لئے واضح اور شدید عوامی دباؤ کے باوجود پاکستانی قیادت دانشمندی اور بردباری کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ بدقسمتی سے نئی دہلی نے اک بار پھر صورت حال کا تجزیہ کرنے میں غلطی کا ارتکاب کیا۔ پاکستانی قیادت کے تحمل کو شاید کمزوری پر محمول کیا گیا اور اگلے روز ہندوستان نے دوبارہ ایسی ہی مہم جوئی کی کوشش کی۔ ہندوستانی ایئرفورس کے دو طیاروں نے پاکستان کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کی، جوابی اقدام میں پاک فضائیہ نے دونوں طیارے تباہ کر دیئے اور ونگ کمانڈر رینک کے ایک ہندوستانی ہواباز کو گرفتار بھی کر لیا۔ میدان میں اس فوقیت کے باوجود پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت نے ایک بار پھر بحالی امن کے لئے فراخدلانہ پیشکش کی۔ روایتی سفارتی حربوں اور چالاکیوں سے پاک یہ دردمندانہ پیشکش سرحد کے دونوں جانب صاحب فہم لوگوں کو متاثر کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ کیونکہ اس میں زندگی اور امن کی امید ہے۔ صرف امن کے ماحول میں ہی انسانی صلاحیتیں جلا پاتی ہیں۔ خیر کے امکان کو جلا ملتی ہے۔ خوش رنگ انسانی امنگوں کے پورا ہونے کی صورت پیدا ہوتی ہے۔ روشن مستقبل کے خال و خد ابھرتے ہیں اور امید کی اس لو میں انسانی مصائب اورمحرومیوں کے معدوم ہونے کے امکانات پیدا ہوتے ہیں۔

امن خوش کن سہی لیکن جب طبل جنگ بچ چکا ہو تو امن پر اصرار کو بے وقت کی راگنی سمجھا جا سکتا ہے۔ لہٰذا ہمیں بھی اس جنگ کو روکنے کی کوئی اپیل کرنے کی ضرورت نہیں۔ بلکہ ہم اصرار کریں گے کہ جنگ ضرور کی جائے۔ جنگ کرنے کا جذبہ بھی زوروں پر ہے تو کیوں نہ پہلے سرحد کے دوسری جانب جانے کی بجائے اپنی سرحد کے اندر گھس بیٹھیوں پر جان لیوا حملہ کیا جائے۔ خوش قسمتی سے ہندوستانیوں اور پاکستانیوں کے ایک جیسے دشمن یہ گھس بیٹھیئے چھپے ہوئے بھی نہیں اور ان کو تلاش کرنا بھی کوئی مشکل نہیں۔ یہ گھس بیٹھئے بیماری، غربت، جہالت، عدم برداشت اور بے بنیاد نفرت ہیں۔ ہمسائے جب لڑتے ہیں تو بظاہر فتح اور شکست سے قطع نظر انجام کار دونوں ہی خسارے میں رہتے ہیں۔ اس تحریر کے شروع میں ٹماٹر اور پیاز کی پاکستان کو برآمد پر ہندوستانی حکومت کی پابندی کا ذکر کیا گیا۔

بین الاقوامی سرحد پر مسلح تنازعے کی بات میں اس بظاہر معمولی سی بات کا تذکرہ ایک مقصد سے کیا گیا۔ زرعی پیداوار عام طور پر کوئی ایسی چیز نہیں ہوتی جسے لمبے عرصے تک محفوظ کیاجا سکے یا سمندر پار بھیجا جا سکے۔ نقل و حمل کے جدید ذرائع کے باوجود زرعی پیداوار کی برآمد کے محدودات کو سمجھنا کوئی مشکل نہیں۔ یہاں بھی یہی کچھ ہوا۔ نئی دلی کے حکومتی ایوانوں سے جب جنگ کے نقارے سنائی دے رہے تھے اور ذرائع ابلاغ جنگ کی بھٹی گرم رکھنے کی تگ و دو میں لگے تھے تو پیاز کے ڈھیروں پر بیٹھا ہندوستانی کسان رو رہا تھا کہ سرحد بند ہونے کی وجہ سے اس کی پیداوار کی قیمت گر چکی ہے۔ محاورتاً نہیں حقیقتا ًیہ پیاز کوڑیوں کے بھاؤ منڈی میں بک رہا تھا، پانچ روپے میں دس کلو۔ پیاز کا کاشت کار اس خوف سے بہرا ہو چکا تھا کہ ملنے والی قیمت اس کی لاگت سے بھی بیس گنا کم تھی۔ اس کو سرحد پر ہونے والی گھن گرج سنائی نہیں دے رہی تھی۔ اسے اگر کچھ سنائی دے رہا تھا یا کچھ دکھائی دے رہا تھا تو ساہوکار کاقرضہ ادا کرنے میں ناکامی اور ذلت۔یہ قرضہ اس نے فصل کی تیاری کے لئے لیا ہو گا۔ اسے اگر کسی چیز کی فکر ہو گی تو سر پر منڈلاتی بھوک اور بیماری کی صورت میں دور دور تک نظر نہ آنے والی دوا کی ہو گی۔ ایسے کاشتکار کو وزیراعظم عمران خان کی بات تو سمجھ آئے گی کہ امن کو ایک موقع دو لیکن وزیراعظم مودی کی بات اس کے پلے نہیں پڑے گی کہ جنگ کی جائے۔ تجزیہ کار کہہ رہے ہیں کہ مودی سرکار آنے والے ہندوستانی چناؤ کے پیش نظر پاکستان دشمنی کا الاؤ بھڑکا کر سیاسی فائدہ اٹھانا چاہتی ہے۔ سیاسی مجبوریاں بھی اہم ہوتی ہیں اور سیاسی فوائد کے حصول کے لئے حکمران جنگ کی بھٹی بھڑکاتے رہتے ہیں۔ یہ محض آج کی بات نہیں، تاریخ بھی اس کی شاہد ہے۔ ہماری رائے اور خواہش یہی ہے کہ دونوں حکومتیں ضرور جنگ کریں۔ اور اگر سرحد کی بجائے سرحد کے اندر غربت، جہالت، عدم برداشت اور بیماری کے خلاف جنگ کا آغاز کر دیں تو سیاسی فائدہ بھی بے پناہ حاصل ہو گا۔ دعا کریں کہ یہ جنگ جلد شروع ہو۔

Vinkmag ad

Read Previous

زیتون کا تیل صحت بھی،ذائقہ بھی

Read Next

سمارٹ کیسے بنیں

Leave a Reply

Most Popular