اُف! یہ ٹھنڈ

ثناءظفر
” ارے واہ رضیہ آنٹی !آپ کا گھر تو بہت گرم ہے حالانکہ آپ نے تو ہیٹر بھی نہیں لگایا۔“رضیہ کی پڑوسن صالحہ نے گھر میں داخل ہوتے ہوئے کہا۔ اس کے ساتھ ہی وہ ہیٹر آن کرکے ہاتھ گرم کرنے لگیں ۔
”وہ اس لیے گرم ہے کہ گھر کے سارے دروازے اور کھڑکیاں بند ہیں۔اس لئے ٹھنڈی ہوا گھر میں داخل نہیں ہوتی۔ ویسے میں کھڑکیاںآدھی کھلی رکھتی ہوں تاکہ حبس نہ ہو۔“رضیہ بیگم نے ہمسائی کی بات کا جواب دیا ۔
”باہر تو بہت ٹھنڈ ہو رہی ہے اور میرے ہاتھ بھی یخ ہو رہے ہیں۔“صالحہ نے ہیٹر کے مزید قریب ہوتے ہوئے کہا ۔
”دادو ،میں صالحہ خالہ کے گھرچلی جاﺅںطیبہ کے ساتھ کھیلنے ۔“سجل نے اپنے سوئٹر کے بازو اوپر کرتے ہوئے ر ضیہ سے پوچھا ۔
”ہاں، ضرور جاﺅ لیکن پہلے اپنی جرسی بدل لو۔ اس کے بازو گیلے ہو رہے ہیں ۔“ انہوں نے سجل کو الماری سے نیا سوئٹرنکال کر دیتے ہوئے کہا۔
”جی ہاں! یہ منہ دھوتے ہوئے گیلے ہوگئے تھے ۔کوئی بات نہیں ہے نا ں۔میں واپس آ کر دوسراپہن لوں گی ۔“سجل کو کھیلنے کی جلدی تھی ۔
”ارے نہیں بیٹا! باہر بہت ٹھنڈ ہے ۔اگر خود کو اچھی طرح سے ڈھانپ کر باہر نہیں جاﺅ گی تو بیمار پڑ جاﺅ گی ۔“انہوں نے سمجھاتے ہوئے جرسی سجل کو تھما دی اوراسے پہنا کر ہی باہرجانے دیا۔

winter-03
”آج کل کے بچے کہاں سنتے ہیں ۔انہیں ہر کام کی جلدی ہوتی ہے ۔“صالحہ نے سجل کو بھاگتے دیکھا تو ماتھے پر ہاتھ مارتے ہوئے کہنے لگیں۔
”السلام علیکم، طیبہ! “سجل نے پھولے سانس کے ساتھ ہی سلام کیا ۔
”وعلیکم السلام !میں کب سے تمہارا انتظار کر رہی ہوں اور تم اب آ رہی ہو‘ اتنی دیر سے؟ “طیبہ نے ناراضگی سے کہا ۔
”میں پہلے منہ ہاتھ دھونے چلی گئی تھی اور پھر دادو نے جرسی چینج کرنے بھیج دیا ۔اچھا ناں! اب اتنی بھی دیر نہیں ہوئی…“سجل نے اپنی دوست کا موڈ ٹھیک کرنا چاہا۔
”ٹیرس پر چل کر کھیلیں ؟تب تک شیزاءبھی آجائے گی ۔“سجل کی طرف سے ہاں پر دونوں باہر ٹیرس پر آ گیں۔
”اُف ! یہاں تو بہت سردی ہے ۔“سجل نے ہاتھ بغلوں میں دبا لیے ۔
”اب اتنی بھی سردی نہیں ۔“طیبہ نے اپنی چیزیں ایک طرف رکھتے ہوئے کہا:”ہم آرام سے کھیل سکتے ہیں ۔“
”تمہارے منہ سے تو سردی کی وجہ سے دھواں بھی نکل رہا ہے جیسے ٹرین کے انجن سے نکلتا ہے ۔“اس نے ہنستے ہوئے کہا اور خود بھی گہرے گہرے سانس لینے لگی ۔
”ارے یہ دھواں نہیں ، بھاپ ہے۔ اورتمہاری مما ڈانٹیں گی ہمیں اتنی ٹھنڈ میں باہر کھیلنے پر۔ تم نے تو صرف جرسی ہی پہنی ہے۔“اس نے طیبہ کو سمجھانا چاہا۔
”اچھا چلو! اندر چل کر کھیلتے ہیں۔ لیکن کل ہم باہر ہی کھیلیں گے ۔“اس نے اندر جاتے ہوئے کہا ۔
”ہاں ٹھیک ہے ۔اگر دھوپ ہوئی تب! “سجل نے اسے ٹالا۔
” میری دادو کہتی ہیں کہ سردی میں باہر جانے سے پہلے خود کو اچھی طرح ڈھانپ کر جانا چاہیے ۔“اس نے اپنی دادو کی بات دہراتے ہوئے کہا۔
”تم نے فاریہ کو دیکھا، اسے کتنی سخت کھانسی ہے اور گلا بھی خراب ہے جو ابھی تک ٹھیک نہیں ہوا ۔اس نے کل شدید ٹھنڈ میںآئس کریم کھا لی تھی ناں، اس لیے ۔“سجل نے طیبہ کی معلومات میں اضافہ کرتے ہوئے کہا ۔
”اچھا …کیا تم سچ کہہ رہی ہو ؟وہ آئس کریم کھانے سے بیماری ہو گئی ہے ؟“طیبہ کو تجسس ہوا ۔
”ہاں ایسا ہی ہے ۔تمہیں بھی تو بہت پسند ہے ناں سردیوں میں آئس کریم کھانا۔ لیکن اب ایسا مت کرنا ورنہ بیمار پڑ جاﺅ گی ۔“سجل نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا ۔
”طیبہ !یہ کیا؟آپ نے پھر جرابیں اتار دیں ۔“مدیحہ نے اندر داخل ہوتے ہوئے طیبہ سے کہا جو ننگے پاﺅں فرش پر کھیل رہی تھی ۔
”مما! ٹھنڈے فرش پر مزہ آتا ہے ۔“اس نے منمناتے ہوئے کہا ۔
”بالکل نہیں۔ آپ انہیں فوراً پہنیں ۔باہراتنی ٹھنڈ ہے ۔“انہوں نے ساتھ ہی جرابیں اس کے ہاتھ میں تھما دیں ۔
” مما چاہتی ہیں کہ میں ہر وقت ٹوپی ‘جرابیں اور جرسی پہن کر رکھوں جبکہ میرا دل چاہتاہے کہ فرش پر ننگے پاﺅں چلوں ۔“طیبہ نے سجل سے کہا اور ساتھ ہی جرابیں پہننے لگی ۔
”وہ اس لیے کہتی ہیں کہ تم بیمار نہ ہو ۔تمہیں پتہ ہے کہ کچھ دن پہلے مریم نے اپنے کپڑے گیلے کر لیے تھے اور پھر اسے بخار ہو گیا۔ڈاکٹر انکل نے اسے کھانے کے لیے اتنی ڈھیر ساری دوائیں دی تھیں۔اف ! میں تو وہ کبھی نہ کھاﺅں۔“سجل نے دوا کے خیال سے ہی برا سا منہ بنایا ۔
”ہاں مجھے یاد ہے۔مریم کو تو انجکشن بھی لگا تھا ۔“طیبہ نے یاد کرتے ہوئے کہا ۔
”میں آ گئی…“شزاءنے اندر داخل ہوتے ہوئے کہا ۔
”ہم تمہارا ہی انتظار کر رہے تھے ۔آﺅ مل کر کھیلتے ہیں۔“
”سعدیہ !جاﺅ ذرا بچوں کو دیکھ کر آﺅ، کہیں وہ ٹوپی اور جرابیں ہی نہ اتار دیں ۔“رضیہ بیگم کا دھیان بچوں کی طرف ہی تھا ۔
”کوئی بات نہیں امی جان ،کچھ دیر میں وہ آ جائیں گی ۔“سعدیہ نے چائے کا کپ میز پر رکھتے ہوئے کہا ۔
”تمہیں پتا ہے نا کہ بچوں کا سر اور پیر ننگے ہوں تو انہیں ٹھنڈ جلد لگتی ہے ۔اور پھر بچے اپنا خیال بھی تو نہیں رکھتے ،فوراً ٹوپی اور جرابیں اتار دیتے ہیں ۔“ساس کے کہنے پر سعدیہ بچوں کو دیکھنے صالحہ کے گھر کی طرف چل دی۔
”ارے صالحہ! تمہارا چھوٹا بیٹا کیوں کھانس رہا ہے ،کہیں اسے ٹھنڈ تو نہیں لگ گئی؟“سعدیہ نے اسے گود میں اٹھاتے ہوئے پوچھا ۔
”جی ہاں! کل میں بازارگئی تھی تو اسے بھی ساتھ لے گئی تھی ۔اس وقت سے اسے کھانسی ہورہی ہے۔گھرمیں ایک سیرپ رکھا تھا ۔وہ اسے دیا ہے لیکن آرام نہیں آرہا۔تم ہی بتاﺅکہ کیا کروں۔“صالحہ نے تفصیل بتاتے ہوئے پوچھا۔
”گھر میں اگر شہد ہے تو اسے کھلاﺅ اور اس کا سر ڈھانپ کر رکھو۔ اگرپھر بھی کھانسی نہ رکے تو اسے ڈاکٹر کے پاس لے جاﺅ اور خود سے کوئی دوا نہ دیا کرو۔دو کوئی ٹافی سپاری نہیں کہ جب ، جسے چاہے دے دی ۔ ڈاکٹر ہی بہتر جانتا ہے کہ کب، کسے کون سی دوا دینی ہے ۔میرے گھر میں شہد رکھا ہے ۔ وہ میں سجل کے ہاتھ بھجوا دیتی ہوں ۔“سعدیہ نے اٹھتے ہوئے کہا اور بچوں سے گھر چلنے کو کہنے لگی ۔
”مما! کیا بے بی کو ٹھنڈ لگ گئی ہے ؟“شزاءنے گھر میں داخل ہوتے ہی پوچھا ۔
”ہاں بیٹا لیکن آپ فکر نہ کریں‘ وہ جلد ٹھیک ہو جائے گا ۔“سعدیہ نے اسے تسلی دی۔
”اگر میں بھی ٹوپی نہیں پہنوں گی تو کیا میں بھی بیمار ہو جاﺅں گی ؟“شزاءکو اپنی فکر ستانے لگی ۔
”جی ہاں!اگر آپ ٹوپی نہیں پہنیں گی توآپ بھی بیمار ہو سکتی ہیں ۔اس لیے اب بغیر کسی نخرے کے ٹوپی پہنیںاور خاص طور پر باہر جاتے ہوئے ۔“سعدیہ نے اسے سمجھایا اور ساتھ ہی شہد کی بوتل آنٹی کے گھر لے جانے کو کہا۔
”صالحہ بھی بچوں کا خیال نہیں رکھتی ۔اس کی لاپروائی کی وجہ سے بچہ بیمار ہو گیا۔“رضیہ بیگم کچن میں جاتے ہوئے زیر لب بڑبڑائیں ۔
”شزاء،مریم !آﺅ ہم سب مونگ پھلی کھاتے ہیں ۔“سجل نے دونوں کو آواز دی ۔
”سجل اپیا ہیٹر کے پاس میں بیٹھوں گی ۔“ مریم نے کہا۔
”بالکل نہیں! آپ دونوں وہاں نہیں بیٹھیں گی ۔اس سے تھوڑا فاصلہ رکھ کر بیٹھیں۔“سعدیہ نے انہیں ہیٹر کے پاس سے ہٹاتے ہوئے کہا ۔
”اف۔۔۔مما دیکھیں مجھے کتنی ٹھنڈ لگ رہی ہے ۔“شزاءنے شرارتاًکپکپاتے ہوئے کہا۔
”غلط بات ہے شزائ۔آپ کو بالکل ٹھنڈ نہیں لگ رہی ۔اس لیے آرام سے بیٹھ جائیں ۔“سجل نے مونگ پھلی چھیلتے ہوئے کہا ۔
”مما! کیا میں ہیٹر کے سامنے بیٹھ کر آئس کریم کھا سکتی ہوں ۔“آئس کریم کی دیوانی مریم نے اجازت چاہی ۔
”ارے مریم! ہیٹر کے سامنے توساری آئس کریم پگھل جائے گی ۔میں ٹھیک کہہ رہی ہوں نا مما؟“
”جس دن دھاپ نکلے گی‘ اس دن ہم سب آئس کریم کھانے چلیں گے۔ اور اب آپ تینوں اپنا ہوم ورک ختم کرو ۔اس کے بعد کھانے کا ٹائم ہو جائے گا ۔“سعدیہ نے چھلکے اٹھاتے ہوئے کہا اور کچن میں اپنی ساس کی مدد کرنے چلی گئیں۔

Vinkmag ad

Read Previous

اظہار کی حوصلہ افزائی

Read Next

ہماری صحت کس کا مسئلہ ہونا چاہیئے

Leave a Reply

Most Popular