دروازے کی گھنٹی بجتے ہی میں فوراً مین گیٹ کی طرف لپکی کیونکہ یہ بچوں کی سکول سے آمد کا وقت تھا۔دروازہ کھلنے کی دیر تھی کہ تینوں بچے ”Happy mothers day“کا نعرہ لگاتے ہوئے مجھ سے لپٹ گئے۔” ارے، ارے…!“میںنے ہنستے ہوئے انہیں الگ کیا اوران کا شکریہ ادا کیا۔ وہ میرے لئے ”یوم ماں“ کی مناسبت سے خصوصی کارڈ بنا کر لائے تھے جو یقیناًبہت خوبصورت تھے مگر ان کا جذبہ اور احساس محبت اس سے بھی زیادہ خوبصورت تھا۔تینوں اودھم مچاتے ہوئے کپڑے بدلنے چلے گئے اور میں ان کے لئے کھانا گرم کرنے کے لئے اٹھ گئی ۔ میں دل ہی دل میں خدا کا شکر ادا کررہی تھی جس نے مجھے اتنے پیارے پیارے بچوں سے نوازا۔بحیثیت والدین ہم ان کا خیال رکھتے اور انہیں زندگی گزارنے کا طریقہ سکھاتے ہیں جبکہ وہ ہمیں زندگی کا احساس دلاتے ہیں۔میں بہت دفعہ دل ہی دل میں ان کی شکر گزار ہوتی ہوں جنہوںنے جنم لے کر مجھے ایک ذمہ دار ماں کے طور پرجنم دیا۔
میں شاید کچھ دیر مزید اپنے خیالات کی دنیا میں کھوئی رہتی کہ فون کی مستقلاً بجتی گھنٹی نے مجھے چونکا دیا۔میں نے بھاگ کر فون اٹھایا تو دوسری طرف حسن تھے۔کہنے لگے کہ شام کو تیار رہنا، محسن کی طرف چلیں گے۔وہ ان کے بچپن کے دوست ہیں۔ ”کیوں؟ خیریت تو ہے ناں ؟“ میں نے تشویش سے پوچھا،اس لئے کہ ان کی اہلیہ امید سے تھیں ۔ ”جی ہاں! لیکن بھابھی کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔ باقی تم انہی سے پوچھ لینا، مجھے ایک میٹنگ میں جانا ہے۔“یہ کہہ کر انہوں نے فون بند کردیا۔
شام کو ہم بچوں کوان کی نانی کے پاس چھوڑکر محسن بھائی کے گھر گئے تو پتہ چلا کہ بھابھی نے اسقاطِ حمل کروالیا ہے۔ میںتوحیران رہ گئی۔ ”کیوں بھابھی، خیریت تو تھی ؟“ میرے استفسار پر کہنے لگیں کہ ابھی 15 دن پہلے میں نے تھیلیسیمیا (thalassemia)کا ٹیسٹ کروایا تھا‘ اس کا رزلٹ ’پازیٹو‘ آیاہے۔ ‘ انہوںنے پریشان کن لہجے میں کہا:’میں اور محسن، فرسٹ کزنز ہیںاور یہ ہماراموروثی مرض بھی ہے۔ پہلے بھی غفلت کی وجہ سے ہم ارسلان کی بیماری بُھگت رہے ہیں۔ اب مزید
سکت نہیں رہی لہٰذا میں نے اسقاط کروا لیا۔“
ہمارے ہاں اسقاط حمل کرانا قانوناًاور اخلاقاً ٹھیک نہیں سمجھا جاتا۔بھابی نے مجھے بتایا کہ ا نہوں نے اس مسئلے پر ہر دو شعبوں کے ماہرین سے رابطہ کیاجنہوں نے بتایا کہ اگر حمل کے شروع میں اس کی تشخیص ہو جائے تو مذہبی اور اخلاقی دونوں طور پر اس کا اسقاط کرانا جائز ہے۔ مُحسن بھائی اور بھابھی کے دو بچے ارسلان اور عطیہ ہیں جن میں سے ارسلان کو تھیلیسمیا ہے اور ہرچارسے چھ ہفتے بعد اسے خون لگتاہے۔ خون کا مستقلاً انتظام ان کے لئے بہت مشکل ہوتاہے۔ بھابھی کے حمل ضائع ہونے پر میرا دل بہت اداس تھا مگر عمر بھر کی تکلیف سے بہرحال یہ تھوڑی سی تکلیف بہتر تھی۔
ٹی وی پر کچھ دن قبل” تھیلیسیمیا سوسائٹی آف پاکستان“ کے زیراہتمام ایک سیمینار میں بتایا گیا کہ پاکستان کی چھ فی صد آبادی اس مرض سے متاثرہے اور ہرسال تقریباً5000بچے اس بیماری کے ساتھ اس دنیا میں قدم رکھتے ہیں۔ یہ ایک ایسی مہلک بیماری ہے جس کی روک تھام ضروری ہے بصورت دیگر نہایت تکلیف دہ صورت حال کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
12 مئی کو دنیا بھر میں تھیلیسمیا کا عالمی دن منایا ہے۔ ذہن میں یہ سوال ابھرا کہ آخر یہ کیسی بیماری ہے اور اسے کیوں بین الاقوامی سطح پر منایا جاتا ہے۔ اس سلسلے میں کرا چی سے تعلق رکھنے والے ماہر امراض خون (hematologist)ڈاکٹر عثمان علی خان سے بات کی تو انہوں نے کہا:
”بنیادی طور پر یہ خون کی ایک خرابی ہے جس میں جسم ہیموگلوبن کی معمول سے ہٹ کر قسم بناتا ہے۔یہ خون میں پایاجانے والا ایک پروٹین مالیکیول ہے جو سارے جسم میں آکسیجن لے کر جاتا ہے۔ یہ جن خلیوں میں رہتا ہے ‘انہیں خون کے سرخ خلیے یا آر بی سی (red blood cells) کہا جاتا ہے۔ “
مرض کی تفصیل بتاتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ ہیمو گلوبن کے دو اہم حصے ایلفا (alpha)اوربِیٹا (beta) ہوتے ہیں۔ ایلفا ہیموگلوبن کے چار جینزمیں سے بچہ دو جینز ماں اور دو باپ سے حاصل کرتا ہے۔ اگر ان میں سے ایک ایلفا جین متاثر ہو تو بچے میں بیماری کی علامات ظاہر نہیں ہوتیں لیکن وہ اس کا حامل (carrier) ضرور رہتا ہے۔ اگر دو جینز نقص والی ہوں تو علامتیں معمولی نوعیت کی ہوں گی ۔ اسے تھیلیسیمیامائنر (thalassemia minor )کہتے ہیں۔ اگر تین جینز متاثر ہوں تو یہ سنگین صورت حال ہے۔ اگرچاروں جینز میں نقص ہو تو بچے کو تھیلیسیمیامیجر (thalassemia major)ہوتا ہے۔ اس میں خون کے ذرات کثیر تعداد میں تباہ ہوتے ہیں جو خون کی کمی کا باعث بنتے ہیں۔ ایسی حالت کو اینیمیا (anemia) کہتے ہیں۔
ڈاکٹر عثمان علی خان کا کہنا ہے کہ تھیلیسمیامائنر کے شکار لوگوں میں بظاہر کوئی علامت نمودار نہیں ہوتیں لیکن اسے نظرانداز نہیں کیا جا سکتا ، اس لئے کہ ان سے یہ مرض ان کی آئندہ نسلوں کو منتقل ہوسکتا ہے۔ اکثر لوگوں کو اس بات کا علم ہی نہیں ہوتا کہ وہ اس مرض کا شکار ہیں۔ انہیں اس کا پتہ کسی سرجری یا دوران حمل ہیموگلوبن کی مقدار کے کم ہوجانے سے چلتا ہے۔
کراچی سے تعلق رکھنے والی ماہر امراض خون ڈاکٹر ارم مظہر کہتی ہیں کہ نوازئیدہ بچوں میں تھیلیسمیا کی علامات کا انحصاراس کی قسم اور شدت پر ہوتا ہے۔ عموماً ایسے بچے پیدا ہوتے وقت صحت مند محسوس ہوتے ہیں لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان میں اس مرض کی علامات مثلاً خون کی کمی(اینیمیا)‘چہرے کی زرد رنگت‘ کمزوری اور تھکن کا شکار ہوناوغیرہ نمودار ہونا شروع ہوجاتی ہیں۔بروقت تشخیص بہت ضروری ہے‘اس لئے کہ تاخیر کی صورت میں خون میںہیموگلوبن کی کم مقدار بچے کی تلی‘جگر کے افعال‘بڑھوتری اور ہڈیوں کی نشوونما کو متاثر کرنا شروع کردیتی ہے۔
لاہور سے تعلق رکھنے والی ماہر امراض خون ڈاکٹر میمونہ کہتی ہیںکہ تھیلیسمیاکی مائنر یامیجر حالتیں کبھی تبدیل نہیں ہوتیں۔یعنی تھےلیسیمیا مائنرکا مریض ہمیشہ مائنر اورمیجر کا مریض ہمیشہ میجر میں ہی مبتلا رہتاہے۔ان کے مطابق اگر کسی بچے کے ماں اور باپ‘دونوں تھیلیسیمیامائنر ہوں تو اس بات کے امکانات ہوتے ہیں کہ ان کے ہاں پیدا ہونے والے25فی صدبچے نارمل ‘25فی صد تھیلیسمیا میجر اور 50فی صدبچے تھیلیسمیامائنر کے شکار ہوں۔
اسلام آباد کی ماہر امراض نسواںڈاکٹر تقدیس کہتی ہیں کہ دوران حمل پہلی سہ ماہی کے دوران خون کے ٹیسٹ سی وی ایس (chorionic villus sampling) کی مدد سے اس کی تشخیص کی جا سکتی ہے ۔ اے پی اے(American Pregnancy Association)کے مطابق اس کے علاوہ ایک اور تشخیصی طریقہ ہے جس میں پیٹ کے ذریعے ایک سوئی کوناڑو (placenta)تک لے جا کر نمونہ لیا جاتا ہے۔اس کے نتائج کم وبیش سات دن تک مل جاتے ہیں۔ اسے الٹراساﺅنڈ کی مدد سے بھی جانچا جاتا ہے ۔
علاج پر گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹرارم مظہر کا کہنا ہے :
تھیلیسیمیا مائنزمیں علاج کی ضرورت نہیں ہوتی البتہ میجر کی صورت میں اس کا علاج باقاعدگی سے خون لگوانا ہے جو ہر تین سے آٹھ ہفتوں کے بعد لگتا ہے۔ اس کا مقصد خون میں ہیموگلوبن کی مطلوبہ مقدار کو برقرار رکھناہے۔ اس کے ساتھ ساتھ مریض کو فولک ایسڈ بھی دیاجاتا ہے۔ خون کب لگنا ہے، اس کا انحصار مرض کی شدت پر ہوتا ہے۔ زیادہ اور مستقل خون لگنے سے انفیکشن (مثلاً ایچ آئی وی‘ ہیپاٹائٹس بی‘ ملیریا) کا خطرہ ہوتا ہے۔ بعض اوقات اس کی وجہ سے تلی کی جسامت بڑھ جاتی ہے جسے نکالنا بھی پڑسکتا ہے۔
نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف بلڈ ڈیزیز اینڈ بون میرو ٹرانسپلانٹیشن کراچی کے ڈائریکٹر ڈاکٹر طاہر شمسی کا کہنا ہے کہ تھیلیسیمیا میجر میں مریض کی زندگی کے معیار کو بہتر بنانے کے لئے ’بون میرو ٹرانسپلانٹ‘ بھی کیاجاسکتاہے۔اس کے لئے عموماً بہن یا بھائی کا گودا ہی موزوں رہتا ہے تاہم یہ ایک خطرناک اور مہنگا عمل بھی ہے۔
ملتان سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر عبدالرشید سیال نے اپنے ایک تحقیقی مقالے میں لکھا:’اگرچہ میں کوئی ہیماٹالوجسٹ نہیں مگر ایک ڈاکٹر کی حیثیت سے میری نظریں ہر قسم کے مریضوں پر رہتی ہیں۔ 30سال قبل مجھے ایک حکیمی نسخے کا علم ہوا۔ ہمارے ہسپتال میں استقبالئے پر کام کرنے والی ایک لڑکی کی بہن کو تھیلیسیمیا میجر تھا۔ وہ موت کے دہانے پر تھی لہٰذا میں نے اس کی بھلائی کے لئے یہ نسخہ اسے دے دیا۔ اس کے حیرت انگیز طور پر مثبت نتائج ملے۔ تب سے میں یہ نباتاتی دوا تھیلیسیمیا کے مریضوں کو دے رہا ہوں۔یہ دھماسہ (agonia Cretica) نامی پھول سے بنتی ہے جو مارچ‘اپریل کے موسم میں اُگتا ہے۔ یہ صحرائی پودا ہے اور اونٹوں کی پسندیدہ غذابھی ہے۔ اسے مقامی زبان میں’دھماسہ‘ کے علاوہ ’دھامن‘ یا سچی بُوٹی بھی کہا جاتا ہے۔ اسے خشک کرکے سفوف بناکر مریضوں کو دیاجاتا ہے۔“
ڈاکٹر سیال کی بات میں نے شیئر تو کر دی لیکن بالعموم ایلوپیتھک ڈاکٹر اس سے اتفاق نہیں رکھتے۔ میری ذاتی رائے بھی یہی ہے اور یہ بتانا شفانیوز کی پالیسی کے مطابق بھی ہے کہ خودعلاجی سے ہرصورت بچا جائے اور ایسے مشوروں پر اپنے ڈاکٹر سے ضرور رائے لے لی جائے‘ ورنہ بعض اوقات لینے کے دینے پڑ جاتے ہیں۔
تھیلیسمیاکے سلسلے میں پرہیز ہی سب سے پائیدار حل ہے۔ کتنے دکھ کی بات ہے کہ جہالت کے باعث ہمارے ملک میں یہ مرض بڑھتا ہی جارہا ہے۔ شادی سے قبل خون کاایک ٹیسٹ اس بیماری کی جانچ دے سکتا ہے۔ چونکہ خاندان میں شادیوں کا تسلسل اس کا بڑا سبب ہے، اس لئے ایسی شادیوں سے قبل یہ ٹیسٹ ضرور کرا لینا چاہئے۔ حکومت سندھ نے ایک قانون پاس کردیا ہے جس کی رو سے صوبے بھر میں شادی سے قبل لڑکے اور لڑکی کے لئے یہ ٹیسٹ کروانا لازمی ہوگا۔ پنجاب میں بھی ایسا ہی کیاگیا ہے لیکن ہمیں ملک کے کسی بھی حصے میں اس پر عملدرآمد کہیں نظر نہیں آتا۔ شاید اس کے لئے قانون کے ساتھ ساتھ آگہی پھیلانے اور لوگوں کو اس پر آمادہ کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ ملک میں کئی سرکاری‘غیر سرکاری اور فلاحی تنظیمیں اس مرض سے آگہی اور اس کے سدباب کے لئے اپنی خدمات انجام دے رہی ہیں لیکن ابھی اس میدان میں بہت کچھ کرنا باقی ہے۔
اٹلی‘یونان اور قبرص میں تو محض تھوڑی سے احتیاط اور بروقت ٹیسٹ سے اس مرض سے مکمل چھٹکارا پالیاگیا۔پتہ نہیں کب ہم لوگ اس تکلیف کو سنجیدگی سے لیں گے۔ میں نے کہیں پڑھا تھا کہ ”stitch in time, saves nine“ یعنی بروقت لگایا گیا ایک ٹانکہ بعد میں نو ٹانکوں سے بچا سکتا ہے۔ اس لئے عمر بھر سسکنے اور تڑپنے سے کہیں بہتر ہے کہ پہلے احتیاط کرلی جائے۔ یعنی شادی سے پہلے تھیلیسیمیا ٹیسٹ کرایا جائے۔ اگر لڑکا اور لڑکا اس مرض کے باوجود شادی پر بضد ہوں تو انہیں چاہئے کہ حمل سے اجتناب کریں یا ہر حمل کے ابتدائی مرحلے میں اس کا ٹیسٹ کروائیں۔ اگر وہ پازیٹو آئے تو حمل ضائع کروا دیں۔ اللہ تعالیٰ تمام والدین کو ہمیشہ خوش رکھے اور کسی کو اس کی اولاد کا دکھ نہ دکھائے۔
