تھیلیسیمیا ایک ایسی بیماری ہے جوجراثیم سے نہیں پھیلتی اور نہ ہی اس کا تعلق چھوت سے ہے ۔ یہ ایک موروثی مرض ہے جو تھیلیسیمیا کے شکارمیاں بیوی کے بچوں کو ہوتا ہے اور پھر نسل در نسل منتقل ہوتا رہتا ہے۔اس لاچاری اور تکلیف دہ زندگی کا اندازہ صرف وہی کر سکتے ہیں جن کے خاندان میں کوئی تھیلیسیمیا میجر کا شکار بچہ موجود ہو۔کچھ احتیاطوں پر عمل کر کے ان مسائل اور تکالیف کو کم کیا جا سکتا ہے ۔زیر نظر انٹرویو میں فاطمید فاؤنڈیشن کراچی کی کنسلٹنٹہیماٹالوجسٹ (ماہر امراض خون) ڈاکٹر شبنیزحسین نے اس مرض پر مفیدمعلومات فراہم کی ہیں
ڈاکٹر صاحبہ! آسان لفظوں میں بتائیے کہ تھیلیسیمیا کیا ہے؟
خون کے سرخ خلیوں میں سرخ رنگ کا ایک مادہ ہیموگلوبن ہوتا ہے جو آکسیجن کو جسم کے تمام حصوں تک پہنچاتا ہے۔ اگرآکسیجن تمام اعضاء تک نہ پہنچ پائے تو انہیں شدید نقصان پہنچتا ہے۔ تھیلیسیمیا کی بیماری میں خون کے سرخ خلیوں کی قدرتی ساخت تبدیل ہو جاتی ہے جس سے خون میں سرخ ذرات نہیں بنتے۔ اس لئے اس مرض کے ساتھ پیدا ہونے والے بچے پیدائش کے چند ہی دنوں بعد خون کی شدید کمی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اس کے بعد انہیں عمر بھر خون لگوانے کی ضرورت پڑتی ہے۔ دوسری طرف خون لگنے کی وجہ سے ان کے جسم میں فولاد کی زیادتی ہو جاتی ہے جس کے اخراج کے لیے مریض کو ادویات دی جاتی ہیںیا انہیں ٹیکے لگتے ہیں۔
پاکستان میں اس بیماری کی شرح کتنی ہے ؟
ہمارے ہاں تقریباً 5000 سے 9000 بچے اس سے متاثرہیں ۔یہ تعدادان مریضوں کی ہے جو مختلف ہسپتالوں میں رجسٹر ڈہیں۔ دیہی علاقوں میں اکثر لوگ اس کے بارے میں زیادہ نہیں جانتے جس کی وجہ سے ان کاہسپتالوں میں اندراج نہیں ہوتا۔اس لیے ہمیں اس کی اصل شرح معلوم نہیں ہے۔
تھیلیسیمیا کیرئیر کیا ہے ؟
ایسا بچہ یا شخص جس میں تھیلیسیمیا کی تھوڑی بہت علامات ہو ں لیکن اسے اس وجہ سے کبھی صحت کا کوئی بڑامسئلہ نہ ہوا ہو‘ تھلیسیمیا کیرئیر کہلائے گا۔اسے بعض اوقات ہلکے انیمیا
(mild anemia)کی شکایت ہو سکتی ہے۔
تھیلیسیمیا کی کتنی اقسام ہیں؟
اس کی دو اقسام تھیلیسیمیا مائنر(thalassaemia minor)اور تھیلیسیمیا میجر (thalassaemia major)ہیں۔ تھیلیسیمیا مائنر کی صورت میں جسم میں خون کی معمولی کمی ہوتی ہے۔ عام حالات میں اس کے مریض کو تکلیف نہیں ہوتی اوروہ نارمل زندگی گزارتا ہے۔اس کی دوسری قسم تھیلیسیمیا میجرہے جس میں مسلسل خون لگنے اور ادویات کی ضرورت ہوتی ہے۔ جب ہم صرف تھیلیسیمیا کہتے ہیں تو بالعموم اس سے مراد تھیلیسیمیا میجر ہی ہوتا ہے۔ اس کی علامات میں خون کی شدید کمی‘ نشوونما کا رک جانا‘ جگر اور تلی کا بڑھ جانا‘ پیٹ کا پھول جانا‘ ہڈیوں کی کمزوری‘ جبڑوں کا بڑھ جانااور کھوپڑی میں ابھار پیدا ہو نا شامل ہیں۔ اس کے علاوہ ایک ایسی قسم بھی ہے جس کے بارے میں لوگ زیادہ نہیں جانتے اور وہ ہے تھیلیسیمیا انٹر میڈیا(thalassemia intermedia) یہ تھیلیسیما کی درمیانی قسم ہے ۔یہ نہ مائنر کی طرح ہوتی ہے اور نہ ہی کیرئیر کی طرح سامنے آتی ہے۔اس کے شکار مریضوں کا ہیموگلوبن سات گرام فی ڈیسی لٹر رہتاہے۔ایک نارمل انسان کے خون میں ہیموگلوبن 11سے12گرام فی ڈیسی لٹرہوتا ہے۔انٹر میڈیا کی صورت میں کوئی بھی انفیکشن ہونے سے ان کا ہیموگلوبن سات سے کم سطح پرآجاتاہے۔ اگرماں نارمل اور باپ کوتھیلیسیمیا مائنر ہو تو ہو سکتا ہے کہ بچہ نارمل یا کیرئیر ہو۔اگر ماں باپ دونوں کیرئیر ہوں تو پھران کے 25فی صد بچے میجر ،25فی صد نارمل اور 50فی صد مائنر ہونے کا امکان ہوتا ہے۔
کس عمر میں تھیلیسیمیا کی تشخیص ہونی چاہیے؟
ہمارے لیے یہ معلوم کرنا بہت ضروری ہوتا ہے کہ بچے کو تھیلیسیمیا کب اور کس عمر میں تشخیص ہواہے۔اگر وہ دو یا تین سال کی عمرکے بعد تشخیص ہو ا ہو تو امکان ہوتا ہے کہ وہ انٹر میڈیا ہی ہو گا لیکن اس کا ہیموگلوبن سات گرام فی ڈیسی لٹرسے کم نہیں ہونا چاہیے ۔ایسے بچوں کو خون کم لگتا ہے لیکن ان کے جسم میں فولادبہت زیادہ ہوجاتا ہے ۔اس لیے ان میں فولاد کو نارمل سطح پر رکھنا ضروی ہے۔
شادی سے پہلے کن لوگوں کے لئے تھیلیسیمیاٹیسٹ ضروری ہوتا ہے؟
جن لوگوں کے خاندان میں ایک بھی شخص تھیلیسیمیا مائنرکا شکار ہو‘ انہیں چاہیے کہ شادی سے پہلے ایک ٹیسٹ کروا لیں جسے ہیموگلوبن الیکٹروفوروسس
(hemoglobin electrophoresis) کہتے ہیں۔یہ ٹیسٹ دونوں (مرد و عورت )کا کیا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں پہلے ٹیسٹ عورت ہی کا کروایا جاتا ہے جبکہ مردوں کا ٹیسٹ کروانابھی اتناہی ضروری ہے۔
کن صورتوں میں بچے کا تھیلیسیمیا میجر،مائنر یا کیرئیر پیدا ہونے کے امکانات ہوتے ہیں ؟
اگر ایک نارمل فرداور تھیلیسیمیا مائنرکا شکار فرد آپس میں شادی کریں تو ان کے 50فی صد بچے مائنر جبکہ 50فی صد نارمل پیدا ہوں گے۔ اگر میاں بیوی میں سے ایک نارمل اور دوسرا تھیلیسیمیا میجر ہو توان کے تمام بچے تھیلیسیمیامائنر پیدا ہوں گے۔اگر مرد اور عورت دونوں تھیلیسیمیا مائنرہوں توان کے 25 فی صد بچے تھیلیسیمیا میجر‘ 50 فی صد مائنرجبکہ25فی صد نارمل ہوں گے۔ اگر میاں بیوی میں سے ایک مائنر اور دوسرامیجر ہو توان کے ہاں50 فی صد بچے میجر اور50 فی صد مائنر ہوں گے۔اگر دونوں میاں بیوی تھیلیسیمیامیجر ہوں توپھر تمام بچے بھی ایسے ہی ہوں گے۔
حمل کے دوران اگربچے میں تھیلیسیمیا میجر تشخیص ہو جاتا ہے تو پھر کیا کرنا چاہیے ؟
حمل کے11سے12ہفتوں کے درمیان ایک ٹیسٹ کرانا سی وی ایس
(chorionic villus sampling) کرانا ضروری ہوتا ہے۔ اس سے یہ پتا لگایا جا سکتا ہے کہ بچہ تھیلیسیمیا میجر کا شکارہے یا مائنرکا۔ اگر بچہ تھیلیسیمیا میجر کا شکا ر ہو تو 16 ہفتوں تک اسقاط حمل کروایا جا سکتا ہے۔علماء کی اکثریت اس بات سے متفق ہے کہ تھیلیسیمیا میجر کی صورت میں اسقاط حمل جائز ہے۔ ہمارے پاس اسقاط کے لئے جو خواتین آتی ہیں‘ ان کے خاندان میں کوئی نہ کوئی اس بیماری کی وجہ سے لاچاری کی زندگی گزار رہا ہوتاہے۔ اس لیے وہ اسقاط حمل کے لیے باآسانی راضی ہوجاتی ہیں جبکہ کچھ لوگوں کو اس پر مطمئن کرنا پڑتا ہے۔
تھیلیسیمیا کی صورت میں جسم میں فولاد کا لیول کیا ہونا چاہیے ؟
جسم میں فولاد کی مقدارماپنے کے لیے ایک ٹیسٹ کیا جاتاہے جسے فیری ٹن ٹیسٹ (ferritin test)کہتے ہیں۔اس سے ایک اندازہ لگایا جا سکتاہے کہ کسی مریض کے جسم میں فولاد کتنا ہو گا ۔خون کے ایک بیگ میں 250ملی گرام فولاد ہوتا ہے۔ ہمارے جسم میں ایک ملی گرام فولاد داخل ہوتاہے تو اسی وقت ایک ملی گرام جسم سے نکل بھی رہا ہوتاہے۔ اس لیے اگر کسی کو دو بیگ خون کے لگیں تو اس کے جسم میں 500ملی گرام فولاد داخل ہو گا اور یہ مریض کے غدودوں میں جمع ہوجاتا ہے جسے نکالنا بہت ضروری ہوتا ہے۔
تھیلیسیمیا میں مزید کس طرح کے ٹیسٹ کرانا ضروری ہوتے ہیں ؟
اس سلسلے میں دل کا ایک ٹیسٹ کیا جاتا ہے جسے ٹی ٹو سٹار ایم آرآئی (T2*MRI)کہتے ہیں۔ اگر اسے ای سی جی کے ساتھ کیا جائے تو اس پر آنے والا خرچ تقریباً15ہزار تک ہوتا ہے۔ جب بچہ 10سال کا ہو جائے تو ہر سال اس کا ٹی ٹو سٹار ایم آر آئی کرانا لازمی ہوتاہے۔اس سے یہ معلوم کرنا آسان ہوجاتاہے کہ مریض کو دل کے دورے کے امکانات کتنے فی صد ہیں اور فزیشن کے پاس مریض کی جان بچانے کے لیے کتنا وقت ہے۔تھیلیسیمیا سے متاثرہ افراد کا اگر ہارٹ فیل ہوجائے تو اس کا علاج عمومی ہارٹ فیل ہونے کے علاج سے مختلف ہوتا ہے ۔
بون میرو ٹرانسپلانٹ کیا ہے ؟
عمر بھر انتقال خون کی مشقت سے بچنے کا مستقل علاج ہڈی کے گودے کی منتقلی
(bone marrow transplant) ہے۔ اگرچہ اس کی سہولیات پاکستان میں دستیاب ہیں لیکن یہ بہت مہنگی ہیں۔ ایک ٹرانسپلانٹ پر تقریباً25سے30لاکھ روپے خرچ ہوتے ہیں۔ اس کے لیے مریض کو ایسے صحت مند رشتہ دارکا گودا چاہئے ہوتا ہے جو مریض کے گودے کے ساتھ مطابقت رکھتا ہو۔ اس کے انتظام میں بہت سی مشکلات آڑے آتی ہیں اور ایک عام انسان علاج پر آنے والے ان اخراجات کا بوجھ بھی نہیں اٹھا سکتا۔اس کے علاوہ ٹرانسپلانٹ سے پہلے یہ دیکھنا ضروری ہے کہ مریض کا جگر متاثر نہ ہو، فولاد کا لیول ٹھیک ہواور وہ عمر میں کم ہو۔اس ٹرانسپلانٹ کی کامیابی کی شرح 87سے89 فی صد ہے۔ یہ علاج میں ایک اچھا انتخاب ہے۔
تھیلیسیمیا کے علاج کے لیے ایک نئی دواہائیڈروکسی یوریا (Hydroxyurea) کا آج کل بہت چرچا ہے۔کتنی مفید ہے؟
کچھ عرصہ پہلے یہ سننے میں آیا کہ تھیلیسیمیا کے علاج کے لیے ایک دوا ’ایچ یو‘ (Hydroxyurea) بہت مفید ثابت ہوئی ہے جبکہ تمام صورتوں میں یہ یکساں مفید نہیں ہے۔ تھیلیسیمیا میجر کے تین فی صد مریضوں کا ایکس ایم این ون (XMN1) کا ٹیسٹ پازیٹیو ہوتا ہے۔ان کے لیے ایچ یومفید ثابت ہوتی ہے۔ جن مریضوں کایہ ٹیسٹ نیگیٹیو ہو‘ ان پر یہ دوا اثر نہیں کرتی۔ اگر’ایچ یو‘ سات گرام فی ڈیسی لٹر تک ہیموگلوبن نہیں بنا رہی تو اسے 10گرام پر بھی لے کر نہیں جا رہی۔ تھیلیسیمیا کا ایک ہی مستقل حل ہے اور وہ ٹرانسپلانٹ۔’ایچ یو‘ دواصرف تھیلیسیمیا انٹرمیڈیا کے لیے مفید ہے۔ ہر انسان میں دو جینز ہوتی ہیں۔ اگرٹیسٹ میں کسی مریض کی جین پلس پلس(++) ہو تو اس پر’ایچ یو‘ کام کرے گی۔اگر پلس مائینس(+-) ہو تو یہ اثر نہیں کرے گی۔اسی طرح اگر جینز مائنس مائنس (–)ہوتو بھی یہ دوا بالکل کام نہیں کرے گی۔پلس پلس جین والے مریضوں کو’ایچ یو‘دوا دیتے ہوئے مانیٹرنگ بہت ضروری ہے۔ اگر آپ مریض کو یہ دے رہے ہیں تو اس کے ساتھ یہ بھی دیکھیں کہ اسے دینے کے بعدکتنی مقدار میں خون لگایا گیا ہے۔اگر تین ماہ تک خون لگنے کی مقدار میں کمی نہ ہو تویہ دوا دینا بند کر دیں۔ اگراسے مسلسل مریض کو دیا جائے تو اس میں ایک ایسا مادہ پیدا ہو جاتا ہے جو کینسر کا سبب بھی بن سکتا ہے۔ اس لیے ا س کی مقدارمیں بہت احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے۔
مریضوں کو خون کی دستیابی میں کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ؟
بعض دفعہ کچھ مریضوں کا بلڈ گروپ ایسا ہوتا ہے جو ملنا مشکل ہوتاہے۔مثال کے طور پر اگر ان کا خون کا گروپ او نیگیٹیو ہو تو ان کے لیے خون ملنا دشوارہو جاتا ہے۔تھیلیسیمیا میجر کے لئے ڈونرکامستقلاً ملنا مشکل ہوتا ہے۔ اس صورت حال میں فیملی کے افراد تک تعاون نہیں کرتے ۔وہ سمجھتے ہیں کہ خون دینے سے وہ کمزور ہو جائیں گے ۔ایسا کچھ نہیں ہوتا ۔اس کے برعکس وہ کئی مسائل سے محفوظ ہوجاتے ہیں۔
آپ لوگوں کو اس بارے میں کیا پیغام دینا چاہیں گی ؟
لوگوں کو یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ تھیلیسیمیا بہت مہنگی بیماری ہے۔اس کابہترین حل پرہیز ہے۔ اس سلسلے میں اہم ترین چیز آگہی ہے جس کے لیے بڑی سطح پر پروگرام ہونے چاہئیں۔ ٹی وی‘ریڈیو اور اخبارات میں اس کے اشتہارات چلنے چاہئیں تاکہ لوگوں کو اس بارے میں شعور ملے۔لوگوں کو پتا ہو کہ اگر تھیلیسیمیا کے مریضوں کی باہم شادی ہو جائے تو پھر انہیں کیا کرنا چاہیے۔ حمل کے دوران ٹیسٹ کروانے سے پتا چل جاتا ہے کہ ہونے والے بچے کو یہ بیماری لاحق ہے یا نہیں۔ اس کے علاوہ اگر خاندان میں کسی کو تھیلیسیمیا میجر یا مائنر ہو تو سارے خاندان کو ٹیسٹ ضرور کرانا چاہیے۔
