Vinkmag ad

امتحان کا خوف اور گھبراہٹ

امتحان کا خوف اور گھبراہٹ

”ڈئیرسٹوڈنٹس! آج آپ کا سکول میں آخری دن ہے۔ آپ کو ڈیٹ شیٹ مل چکی اور امتحانات تک کے باقی دن آپ کو گھر میں رہ کر تیاری کرناہے۔ اس عرصے میں اگر آپ کو کوئی چیز سمجھنا ہو، کوئی بات پوچھنی ہو یا پیپرز سے متعلق کوئی اورمسئلہ ہو تو اپنے سکول اور اساتذہ سے بے دھڑک رابطہ کر سکتے ہیں۔“

پرنسپل نے اسمبلی حال میں میٹرک کے طلبہ کو مخاطب کرتے ہوئے جب یہ الفاظ کہے تو چند لمحوں کے لئے ماحول میں سناٹا ساچھا گیا۔ طلبہ کے لئے یہ نئی خبر تو نہ تھی اور وہ اسی الوداعی ملاقات کے لئے ہی جمع ہوئے تھے لیکن اچانک انہیں ایسے لگاجیسے اب وہ سکول ان کا نہ رہا ہو۔ کچھ بچوں کی آنکھوں میں تو باقاعدہ آنسو تک آ گئے جنہیں پرنسپل نے بھانپ لیا:

”اس کا یہ مطلب نہیں کہ سکول سے آپ کا تعلق ختم ہو گیا ہے۔آپ جہاں کہیں بھی جائیں اور جس مقام پر بھی پہنچ جائیں، سکول کی اچھی یادیں آپ کے ساتھ ہمیشہ رہیں گی۔ اس وقت اگر امتحان کے حوالے سے کچھ پوچھنا ہو تو آپ پوچھ سکتے ہیں۔“

”سر! یہ بتائیے کہ امتحان کے حوالے سے ہمیں کن باتوں کا خیال رکھنا چاہئے ؟“ آصف نے کھڑے ہو کر پہلا سوال پوچھا۔ پرنسپل نے اسے بیٹھنے کا اشارہ کیا اور بولے:

”سب سے پہلی بات یہ ہے کہ آپ ڈیٹ شیٹ کونہ صرف اچھی طرح سے پڑھیں بلکہ اس کی فوٹو کاپی کروا کرگھرمیںاس جگہ پر کہیں لگا دیں جہاں بیٹھ کر آپ پڑھتے ہیں۔ ہم نے بہت دفعہ دیکھا کہ پیپر کسی اورمضمون کا ہوتا ہے اوربچے ،تیاری کسی اور مضمون کی کر کے کمرہ امتحان میں آ جاتے ہیں۔ “ انہوں نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔

”سر! میرے بڑے بھائی ایک دفعہ رات بھر پڑھتے رہے اور صبح کے وقت سو گئے۔ ان کا پیپر تھا لیکن کسی نے انہیں جگایا ہی نہیں۔ اس طرح وہ وقت پر پہنچ ہی نہ پائے ۔“ اختر نے ایک اور پہلو کی طرف نشاندہی کردی۔

”اصولاً ہونا یہ چاہئے کہ آپ کی مکمل تیاری پیپر سے پہلے مکمل ہو چکی ہو اور آخری دن آپ کو صرف دہرائی کرنا ہو۔ اس سے آپ کو رات بھر جاگنا نہیں پڑے گا، آپ تسلی سے اپنی نیند پوری کر سکیں گے اور صبح تازہ دم اٹھیں گے ۔اگر نیند پوری نہ ہو دن بھر سر میں درد رہتا ہے اور پیپر میں موقع پر باتیں یاد نہیں آتیں۔ رات کو وقت پر سوجانا اور صبح جلدی اٹھنا چاہئے۔ صبح کے وقت ذہن فریش اور ماحول پرسکون ہوتا ہے، اس لئے اس وقت کو پڑھائی کے لئے استعمال کرنا چاہئے ۔ پیپر سے تقریباً ایک گھنٹہ پہلے کتابوں اورنوٹس وغیرہ کی جان چھوڑ دینی چاہئے تاکہ آپ کا ذہن پرسکون ہو سکے اور یاد کی ہوئی باتیں کسی ترتیب میں ذہن نشین ہو سکیں۔“ انہوں نے بات مکمل کی اورکھنگار کر گلا صاف کیا۔

”سر! میرے کزن کے ساتھ اسی طرح کا ایک اور واقعہ پیش آیا۔ “اختر نے ہاتھ کھڑا کیا۔

”وہ کیا…؟“ پرنسپل نے اپنا دایاں گال ہتھیلی پر ٹیکتے ہوئے کہا۔

”وہ کالج میں پڑھتے ہیں اورسائیکل پروہاں جاتے ہیں۔“

”اچھا، پھر…؟“ انہوں نے پوچھا۔

”وہ پہلا پیر دے کر واپس آ رہے تھے۔ بہت خوش تھے، اس لئے کہ پیپر ان کی توقع سے زیادہ آسان تھا اور اچھا ہوگیا تھا۔ وہ اشارے پر پہنچے ہی تھے کہ ایک موٹر سائیکل سوار نے انہیں ٹکر مار دی۔ انہیں فریکچر وغیرہ تو نہ ہوا البتہ باقی پیپرز انہوں نے اس حال میں دئیے کہ ان سے بیٹھا جاتا تھا اور نہ وہ سیدھے لیٹ سکتے تھے۔ اس وجہ سے ان کے باقی پیپرز اتنے اچھے نہ ہوئے۔ “ اختر نے اپنی بات مکمل کی اور بیٹھ گیا۔ پرنسپل نے اثبات میں سر ہلایا:

”ہمارا تعلیمی نظام کچھ اس طرح کا ہے کہ طلبہ کی قابلیت اور سال بھر کی محنت کا جائزہ چند گھنٹوں میں لیا جاتا ہے ۔ اگر امتحان کے دن خدانخواستہ کسی کی طبیعت خراب ہویا اسے کوئی اور مسئلہ پیش آجائے تواس کی سال بھر کی محنت ضائع جاتی ہے۔ اس لئے میرا مشورہ یہ ہے کہ ہر وقت بالعموم اور امتحان کے دنوں میں بالخصوص اپنا اور اپنی صحت کا خاص خیال رکھیں۔ “ ان کی بات مکمل ہونے پر نوید نے ہاتھ کھڑا کیا اور اجازت ملنے پر بولا:
”سر! ہم پیپرز میں اپنی صحت کا خیال کیسے رکھیں؟“ اختر نے دوبارہ پوچھا ۔

”امتحانات ہوں یا نہ ہوں، صحت مند رہنے کے اصول ایک سے ہیں، البتہ ان دونوں ان کا خیال رکھنے کی ضرورت ذرا زیادہ ہوتی ہے۔ آپ کو چاہئے کہ سردیوں میں خود کو ٹھنڈ اور نزلہ زکام سے بچائیں۔ اگر گرمیوں کے دن ہوں تو دھوپ میں زیادہ نہ پھریں، پانی ابال کر پئیں اوربازاری سموسے اور دہی بھلے وغیرہ نہ کھائیں تاکہ آپ کا پیٹ یا گلا خراب نہ ہو۔ حفاظت کے نقطہ نظر سے بہتر ہے کہ ان دنوں غیر ضروری سفر سے بچیں، اس لئے کہ جگہ کی تبدیلی سے بعض لوگ بیمار پڑ جاتے ہیں۔ اگر ان باتوں کا خیال نہ رکھا گیا تو خدشہ ہے کہ کوئی ایسی صورت حال پیش آجائے جس میں آپ ٹھیک طرح سے امتحان کی تیاری نہ کر پائیں۔ “

پرنسپل نے تفصیل سے جواب دیا۔ نوید نے ایک دفعہ پھر ہاتھ کھڑا کیا:

”کیا پیپرسے پہلے خوب پیٹ بھر کر کھانا کھانا چاہئے تاکہ اس دوران بھوک نہ لگے ؟“
” کھانا معمول کے مطابق ہی کھانا چاہئے۔ کوشش کریں کہ پیپر سے ایک یا دو گھنٹے قبل کھانا کھا لیں تاہم وہ مناسب طور پر ہضم بھی ہو جائے اورپیپرکے دوران آپ کو بھوک نہ لگے۔ اگر ممکن ہو تو پیپرمیں اپنے ساتھ بسکٹ اور پانی کی بوتل وغیرہ رکھ لیں تاکہ اچانک بھوک یا پیاس آپ کو پریشان نہ کرے۔ بعض اوقات اچانک توانائی کی کمی محسوس ہوتی ہے اور کھانے کی کوئی چیز میسر نہیں ہوتی۔ اس سے توجہ مرکوز کرنے میں مشکل

پیش آتی ہے۔ پیپر میں بیٹھنے سے پہلے واش روم سے ہو کر آنا چاہئے تاکہ آپ تسلی سے پیپر دے سکیں۔ “ پرنسپل نے بچوں کو بڑے گر کی باتیں بتائیں۔
”مجھے پیپر دیتے ہوئے بہت گھبراہٹ ہوتی ہے۔“ اب کی بار سلیم نے ہاتھ کھڑا کیا۔

”جی سر، مجھے بھی …“ نوید پکارا:” میرادل زور زور سے دھڑکتا ہے، پسینے آتے ہیں اور ہتھیلیاں تک گیلی ہو جاتی ہیں۔“

”بہت سے طلبہ و طالبات کو امتحان میں بیٹھتے ہوئے یہ مسئلہ ہوتا ہے۔ اس کا ایک سبب تو یہ ہے کہ ان کی تیاری اچھی نہیں ہوتی۔ ایسے میں یہ خوف فطری ہے کہ امتحان میں جانے کیا کچھ پوچھ لیا جائے۔ “ پرنسپل صاحب ایک لمحے کے لئے رکے اور پھر بولے:

”البتہ کچھ بچوں کی تیاری پوری ہوتی ہے لیکن پھر بھی انہیں شدید گھبراہٹ ہوتی ہے۔ ماہرین نفسیات اس سے نجات کے لئے ایک فارمولا بتاتے ہیں۔ اس کے مطابق جب آپ کو ٹینشن محسوس ہو تو گہرے سانس لیں اور اس دوران اپنی توجہ صورت حال کی بجائے سانس کی آمدو رفت پر دیں۔ اس کا ایک سٹینڈرڈ اصول ہے کہ آپ سانس اندر لیتے ہوئے پانچ تک گنیں، سانس روکیں، پانچ تک گنیں اور سانس باہر نکالنے پر پانچ دفعہ گنیں۔ 15سیکنڈ کا یہ چکر آپ کے دل کی دھڑکن، سانس کی رفتار اور پسینہ نارمل کردے گا۔“

” سر! ہم تو ایک دفعہ پیپر پڑھتے ہیں اور پھر فوراً لکھنا شروع کر دیتے ہیں، اس لئے کہ وقت پہلے ہی بہت کم ہوتا ہے۔ کیا وقت تقسیم کرنا ضروری ہے؟ اگریہ کام نہ کیا جائے تو کیا نقصان ہے؟“ اختر نے پوچھا۔

” فرض کریں کہ پیپرمیں آپ کو پانچ سوال حل کرنے تھے اور آپ وقت نہ ملنے پر تین ہی کر پائے۔ ایسے میں آپ کو نمبر،60 نمبروں میں سے ہی ملیں گے اور آپ کے لئے پاس ہونا بھی مشکل ہو جائے گا۔ اگر آپ نے100 نمبر کا پورا پرچہ حل کر لیا تو امکان ہے کہ آپ کے نمبراچھے آجائیں۔کوشش کریں کہ ہر صورت پورا پیپر حل کریں۔ “ انہوں نے وضاحت کی۔

”یس سر…!“ اختر نے مطمئن ہوتے ہوئے جواب دیا۔

”سر! پیپر حل کرنے کے حوالے سے ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ پہلا سوال بہت زیادہ ٹائم لے جاتا ہے اور آخر میں پیپر مکمل کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ گھڑی کی طرف باربار دیکھنے سے وقت ضائع ہوتا ہے اور توجہ بھی برقرار نہیں رہتی۔ اس کا کیا حل ہے؟“ نوید نے پوچھا۔

”سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ آپ کمرہ امتحان میں گھڑی لازماً لے کر جائیں، اس لئے کہ وہاں موبائل فون ساتھ رکھنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ دوسری بات یہ ہے کہ جب آپ کو پیپر مل جائے تو سب سے پہلے اسے تسلی سے پڑھیں اور جو سوال آپ کو اچھی طرح سے آتے ہیں، انہیں نشان زد کریں۔ تیسرے مرحلے میں آپ ہر سوال کے لئے وقت متعین کریں۔

اس بات کا خیال رکھیں کہ آخرمیں آپ کو چند منٹ نظرثانی کے لئے ضرور مل جائیں۔ یہ بہت ضروری ہے، اس لئے کہ بعض بچے پیپر پر رولنمبر لکھنا بھول جاتے ہیں، کبھی سوال کا نمبر نہیں لکھا ہوتا، کبھی دیگر چھوٹی موٹی غلطیاں رہ جاتی ہیں اور آخر میںہڑبونگ کی وجہ سے بعض اوقات اضافی شیٹیس ٹھیک طرح سے نہیں جڑتیں۔ ان باتوں کی پلاننگ میں آپ کا کچھ وقت ضرور صرف ہو گا لیکن بعد میں بہت سا وقت بچے گا، ہر کام ایک ترتیب سے ہوگا اور بہت آسانی ہو جائے گی۔“ انہوں نے بات کو ذرا تفصیل سے بیان کیا۔

”اور آخری بات یہ ہے کہ…“ پرنسپل ذرا توقف کے بعد بولے: ” بُوٹی اور دیگر ناجائز ذرائع پر ہر گز تکیہ نہ کریں۔ یہ کمزور اور کھوکھلے لوگوں کے کام ہیں۔ اپنا پیپر پوری ایمانداری سے کریں اور ارد گرد نقل وغیرہ چل رہی ہو توبھی آپ اس طرف دھیان مت دیں۔ یاد رکھیں کہ دیانتداری، لکڑہاروں کے لئے ہی نہیں، طلبہ کے لئے بھی بہترین حکمت عملی ہے۔ “

وہ ایک لمحے کے لئے رکے اور پھر گویا ہوئے:

” میٹرک تعلیمی سلسلے کی پہلی اہم سیڑھی ہے۔ اگرآپ اس پر قدم رکھتے ہوئے بھی خدا اور خود پر بھروسہ نہیں کر سکتے توزندگی کے بڑے بڑے امتحانوں کا سامنا کیسے کریں گے۔ مزید براں بددیانتی سے حاصل کردہ ڈگری، اس پر اعلیٰ تعلیم اورپھر اسی کی بنیاد پر ملازمت، ہر ایک میں بے برکتی بھی ہو گی۔ ایسے لوگ اچھے نمبر بھلے لے لیں، زندگی میں کبھی ٹھوس کامیابی حاصل نہیں کر سکتے۔ میری طرف سے بس اتنا ہی ہے۔ خدا آپ کا حامی و ناصر ہو۔“
ماحول میں مکمل خاموشی تھی۔ پرنسپل کی سبھی باتیں بہت خاص تھیں لیکن آخری بات نے تو دلوں پر کچھ زیادہ ہی اثر کیا۔ تھوڑی دیر کے بعد طلبہ ان باتوںپر عمل کا عزم کئے قطار میں مین گیٹ کی طرف جا رہے تھے۔

fear of exams, exam fear, how to overcome exam fear, taking care of your health during exams

Vinkmag ad

Read Previous

صحت کے لئے یا صحت کی بچت

Read Next

20 مارچ…خوشی کا عالمی دن خوش رہیں

Leave a Reply

Most Popular