مردہ بچوں کی پیدائش
اگر بچہ پید اہونے کے بعد سانس نہ لے تو اسے ’سٹِل برتھ‘ کانام دیا جائے گا۔حمل کے 24ہفتوں کے بعد بچہ اس قابل ہو جاتا ہے کہ اگر اسے ماں سے الگ کر دیاجائے تو وہ زندہ رہ سکتاہے۔اس عرصے کے بعد اگر بچہ کسی بھی مرحلے میں مر جائے تو یہ اس ضمن میں شمار ہوتا ہے ۔ اگرحمل اس سے پہلے ضائع ہو جائے تو یہ اسقاط حمل کہلائے گا۔
مردہ بچے کی پیدائش کے دو پہلو ہو سکتے ہیں۔ان میں سے پہلا زچگی سے قبل کسی وجہ سے بچے کا ماں کے پیٹ میں ہی مر جاناہے۔ دوسرا زچگی کے دوران ا س کی جان ختم ہو جانا ہیں۔پاکستان میں اس کے ذمہ دار عوامل درج ذیل ہیں
ماں کی صحت کے مسائل
غذائی کمی
اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ایک صحت مند ماں ہی صحت مند بچے کو جنم دے سکتی ہے۔ دوسرے لفظوں میں ماں کی عمومی صحت کااس کے رحم میں بچے کی صحت اور زندگی کے ساتھ گہرا تعلق ہے۔اس بات میں دو آراء نہیں کہ پاکستان میں خواتین کی بڑی تعداد غذائی کمی کی شکارہے ۔
بہت سی خواتین کو غربت کے باعث مناسب کھانا نہیں ملتا۔ دیہات میں اکثر خواتین جانوروں کو سنبھالتی ہیں۔اکثر صورتوں میں انہیں تالابوں کا پانی پینا پڑتا ہے جس سے ان کے پیٹ میں کیڑے پیدا ہوجاتے ہیں۔ یوں کھانے پینے کے باوجود خوراک ان کا جزو بدن نہیں بنتی ۔ خواتین کی غذائی کمی کی وجوہات میں فیملی میں افراد کا زیادہ ہونااور کھانے میں مردوں کو ترجیح دینا بھی شامل ہیں۔
غذائی کمی کی شکار خاتون کا بچہ کم وزن اور وقت سے پہلے پید اہو سکتاہے۔اسے انفیکشن کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔ اس لئے دوران حمل فولک ایسڈ،آئرن اور کیلشیم کا استعمال بہت ضروری ہے۔
ذیابیطس اور ہائی بلڈ پریشر
دوران حمل شوگر کی زیادتی بچے کو نقصان پہنچا سکتی ہے۔اسی طرح ہائی بلڈ پریشر بھی بچے کے لیے شدید نقصان کا باعث بن سکتا ہے لہٰذا ان دونوں پر کنٹرول بہت ضروری ہے۔ ذیابیطس کی شکار حاملہ خواتین کے لئے ڈاکٹراورماہرغذائیات مل کر خواراک کاایک چارٹ بناتے ہیں تاکہ اس کی شوگر کنٹرول میں رہے۔دوسری یا تیسری سہ ماہی میں اس کی شوگر کا ٹیسٹ کیا جاتا ہے۔اگر رپورٹ مثبت آئے تو اسے کھانے پینے میں احتیاط بتائی جاتی ہے۔
موٹاپا
موٹاپا براہ راست حمل کو متاثر نہیں کرتاتاہم اس کی وجہ سے ذیابیطس اورہائی بلڈ پریشر کے امکانات بڑھ جاتے ہیں جو بچے کے لئے نقصان کا باعث بن سکتے ہیں ۔
خواتین حمل کے دوران بہت زیادہ کھانا شروع کر دیتی ہیں جس سے وہ موٹی ہو جاتی ہیں۔جن خواتین کاوزن پہلے ہی زیادہ ہو‘ انہیں خصوصی احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے۔
عمر کی زیادتی
خواتین کی بچے پیدا کرنے کی موزوں عمر 20سے35سال ہے۔اس کے بعد اگر حمل ہو تو پیچیدگیوں کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں ۔
انفیکشنز
مختلف انفیکشنز بھی بچے کی جان کے لیے خطرہ ثابت ہو سکتے ہیں۔ ان میں ملیریا سر فہرست ہے۔
طبی سہولیات کی کمی
بہت سی خواتین یہ گلہ کرتی ہیں کہ دوران حمل انہیں مناسب طبی سہولیات میسر نہیں ہوتیں اور جب وہ اس کا تقاضا کرتی ہیں تو انہیں یہ جملہ سننے کو ملتا ہے کہ آپ دنیا سے الگ کوئی انوکھا کام نہیں کرنے جارہیں جو آپ کوبار بار ڈاکٹر کے پاس جانے کی ضرورت پڑے ۔چونکہ ہمارا طرز زندگی غیر صحت مندانہ ہوتا جا رہا ہے لہٰذا نت نئی بیماریاں اور پیچیدگیاں سامنے آ رہی ہیں۔ اگردوران حمل ڈاکٹر سے معائنہ ہوتا رہے توماں یا بچے میں ممکنہ پیچیدگیاں سامنے آجاتی ہیں اوربہت سی صورتوں میں ان کا تدارک ممکن ہوتا ہے ۔
ڈیلیوری کے وقت مسائل
غیر تربیت یافتہ دائیاں
آج بھی 60فی صد بچوں کی پیدائش ہسپتالوں سے باہر دائیوں وغیرہ کے ہاتھوں ہو رہی ہے جن میں سے اکثر غیر تربیت یافتہ ہوتی ہیں۔ وہ اس وقت تک اپنی کوششیں کرتی رہتی ہیں جب تک صورت حال ہاتھ سے بالکل ہی نہ نکل جائے۔ جب مسئلہ بگڑ جائے، تب خاتون کو ہسپتال لا یا جاتا ہے اور پھربچہ اگر مر جائے تو ہسپتال کو ذمہ دارٹھہرایا جاتا ہے۔
دیر سے پیدائش
اگر حمل کا دورانیہ زیادہ ہوجائے یابچہ مقررہ تاریخ کے بعدپیداہو تو14فی صد امکانات ہوتے ہیں کہ بچہ مردہ پیدا ہو۔ دردزہ کا دورانیہ اگربہت زیادہ بڑھ جائے،اس دوران بچہ پاخانہ کر دے یاناڑو بچے کی گردن کے گرد پھنس جائے تو بھی بچہ فوت ہو سکتا ہے۔ ان کے بقول حمل کا دورانیہ 40ہفتوں سے زیادہ ہو جائے توبچے کو کافی خوراک نہیں مل پاتی۔ اس لیے اس کی جان کو خطرہ ہو سکتاہے۔
ہمارے ہاں اہل خانہ کی طرف سے دبائو ہوتا ہے کہ مقررہ تاریخ پر زچگی ضرور کی جائے ۔ اگر وہ قدرتی طورپر پیدا نہ ہو رہاہو تو اسے آپریشن کے ذریعے جنم دینے پر اصرار کیا جاتا ہے ۔واضح رہے کہ حمل کا دورانیہ 280دن یا 40ہفتے ہے۔اس سے تین ہفتے پہلے اور دو ہفتے بعد تک بچہ پیدا ہونا نارمل بات ہے ۔اگر 42ہفتے یا294دن گزرنے کے بعد بھی اس کی پیدائش نہ ہو تو اسے حمل کا دورانیہ بڑھ جانا کہیں گے جو خطرناک ثابت ہو سکتا ہے
بعض اوقات بچہ کمزور ہونے کے باعث زچگی کے دوران دبائو برداشت نہیں کر سکتا۔ اس لئے اگر ڈیلیوری کو محتاط طریقے سے انجام نہ دیا جائے تو بھی بچہ مر سکتا ہے۔
Still birth, health issues of mother, lack of medical facilities, delayed birth
