انڈس ہسپتال کراچی کے شعبہ متعدی امراض کی ماہر ڈاکٹر ثمرین سرفرازاور ریبیز کنٹرول پروگرام کے مینجر محمد آفتاب گوہر سے گفتگو کی روشنی میں معلومات افزاء تحریر
الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا میں کراچی کے حوالے سے جہاں کچرے کی خبریں نمایاں جگہ پا رہی ہیں‘ وہیں باؤلے کتوں کے کاٹنے اور نتیجتاً رے بیز (Rabies)ہو جانے کی خبریںبھی مسلسل آ رہی ہیں۔ اگست کے آخری ہفتے کی خبروں کے مطابق اس بیماری کے ساتھ 11افراد کو جناح ہسپتال جبکہ 120افراد کو سول ہسپتال کراچی لایا گیا جن میں خواتین اور بچے شامل تھے۔سول ہسپتال کراچی کا ’’ریبیزسینٹر‘‘ اس حوالے سے سند ھ کا سب سے بڑا مرکز ہے جس میں روزانہ 100 کی تعداد میں)نئے اور پرانے) مریض لائے جاتے ہیں۔ اس سال جنوری سے جولائی تک کراچی کے مختلف ہسپتالوں میں اس نوعیت کے 18,000کیسز دیکھنے میں آئے۔
عالمی ادارئہ صحت کی2019کی رپورٹ کے مطابق اس بیماری کا شکارہونے والے افراد میں 40فی صد تعداد 15سال سے کم عمر بچوں کی ہوتی ہے اور اس سے واقع ہونے والی اموات کی 95فی صدتعداد کا تعلق ایشیاء اور افریقہ کے ممالک سے ہوتا ہے۔
مرض کی علامات
ریبیز(Rabies) یعنی ’’بائولا پن ‘‘ ایک ایسی بیماری ہے جو اس مرض کے شکار کتے کے کاٹنے سے پھیلتی ہے۔ 28ستمبرکو دنیا بھر میں ریبیز کا عالمی دن منایا جاتا ہے جس کا مقصد لوگوں میں اس مرض ، اس کی روک تھام اور احتیاطوں سے متعلق آگاہی دی جا سکے۔ اس تاریخ سے جڑی ایک دلچسپ حقیقت یہ بھی ہے کہ یہ دن فرانسیسی کیمیا دان اور ماہرحیاتیات لوئی پاسچر کا یوم وفات ہے۔ اس عظیم سائنسدان نے پہلی بارریبیز کی ویکسین تیار کی تھی۔
مرض کی علامات
پاگل کتے کے کاٹنے سے لے کر بیماری کی علامات ظاہر ہونے تک تقریباً چھ ہفتے سے چھ ماہ کا عرصہ لگ سکتا ہے جس میں یہ وائرس دماغ تک پہنچ جاتا ہے۔جب یہ دماغ تک رسائی حاصل کر لیتا ہے تو مریض میں مندرجہ ذیل علامات ظاہر ہونے لگتی ہیں:
٭ بخار ‘سردرد ‘ متلی‘ اُلٹیاں۔
٭بے چینی محسوس ہونا۔
٭عضلات میں کھچائو۔
٭لعاب دہن کی زیادتی۔
٭منہ سے جھاگ نکلنا۔
٭پانی کا خوف۔
٭ہوا سے حساسیت۔
اس کے ساتھ ساتھ عضلات میں کھچائو کے باعث مریض کے لئے کچھ نگلنا یا سانس لینا دُشوارہوجاتا ہے۔پانی یا پانی کے گلاس کو دیکھ کر وہ گھبراتا ہے ۔ہوا کے جھونکے یا پنکھے کی ہوا محسوس کرکے یا اچانک شور سن کر اُسے دورہ پڑ جاتا ہے ، جسم کے عضلات کھنچ جاتے ہیں اور پٹھوں میں اکڑن محسوس ہوتی ہے۔بعض اوقات اسے روشنی سے بھی خوف اور بے چینی محسوس ہوتی ہے۔کبھی کبھی ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ اپنے حواس میں نہیں۔ ایک وقت میں وہ بالکل ٹھیک ٹھیک بات بتاتا ہے اور اگلے ہی لمحے میں وہ کنفیوز سا ہو کر چپ ہوجاتاہے۔یہ وہ علامات ہیںجس سے اس بیماری کی تشخیص بھی ہو جاتی ہے۔
ری بیزکا انفیکشن صرف کتوں سے ہی نہیںبلکہ دیگر جانوروں مثلاً بھیڑیے ‘گائے بیل‘گیڈر اورچمگاڈر وغیرہ سے بھی ہو سکتا ہے۔کتے کے منہ کا لعاب اگرانسانی جلد پر لگ جائے اور وہاں کوئی چھوٹی سی خراش بھی ہو تو ریبیز ہوسکتا ہے۔اگر یہ ایک دفعہ ہوجائے تو پھر لاعلاج صورت اختیار کر جاتاہے لہٰذااسے بہت سنجیدہ لینے کی ضرورت ہے ۔
کرنے کے کام
اس مرض سے بچاؤ کا واحد حل پرہیزاوراحتیاط ہی ہے۔ اس سے بچائو کے لئے درج ذیل تدابیر پرعمل کرنا چاہئے :
٭اگر کتا کاٹ لے تو فوری طور پر اسے صاف پانی اور صابن سے 15 منٹ تک دھوئیں۔ایک بات یاد رکھیں کہ اس صورتحال میںسستی ہرگز نہیں برتنی چاہیے کیونکہ اگر زخم کو جلدی اور وقت پر اچھی طرح دھو لیا جائے تو ری بیز کے وائرس کو 30سے40فی صد تک کم کیا جاسکتا ہے۔دور دراز سے ہسپتال تک آنے والے مریض یہ اقدام لازماً کریں۔ اُس کے بعد فوری طور پراسے کسی ایسے ہسپتال لے جائیں جہاں ری بیز کے علاج کی سہولت دستیاب ہو۔ ڈاکٹر مریض کا معائنہ کرنے کے بعدیہ اندازہ لگاتا ہے کہ زخم کتنا گہرا ہے۔
٭گھریلو ٹوٹکوں مثلاًنمک لگانے وغیرہ سے بھی اجتناب کریں کیونکہ بعض اوقات یہ زخم پر جراثیم کی افزائش کو بڑھا دیتے ہیں جس سے فائدے سے زیادہ نقصان کا خدشہ ہوتا ہے۔
٭ اگر جلد پر ایک یا ایک سے زیادہ دفعہ کاٹے کے ایسے نشانات ہوں جن سے جلد گہرائی تک پھٹ چکی ہو تو اسے گہرا زخم کہا جاتا ہے۔ اس صورتحال میں ویکسین کا انجکشن لگایا جاتاہے اور کچھ دن کے وقفوں سے چار ٹیکے لگتے ہیں۔
٭ محکمہ جنگلات سے تعلق رکھنے والے،شکار کرنے کے شوقین اور دیہات میں رہنے والے افراد لازماً یہ ویکسین لگوائیں۔
٭ پالتو جانوروں کی خصوصی طور پر ویکسی نیشن کرائیں۔علاوہ ازیں جو افراد ا ن کے ساتھ رہتے ہیں یا ان کی دیکھ بھال کرتے ہیں وہ بھی پہلے سے یہ ویکسین کروائیں۔
٭بچوں کو اس بات کی آگاہی دی جائے کہ راستے میں جاتے ہوئے یا کھیلتے ہوئے کتوں کو پتھرنہ ماریں ۔انہیں کتوں کے پیچھے بھاگنے اورانہیں چھیڑنے سے منع کریں۔
٭ایسے علاقے جہاں ایسے مریض زیادہ پائے جائیں‘ وہاں کتا مار مہم کا آغاز کرنا چاہیے تاکہ ایسے واقعات کی شرح کم کی جا سکے۔
٭ اپنے اردگرد کے علاقے کی صفائی کاخاص خیال رکھیں تا کہ گلی میں پھرنے والے کتے ادھر کا رخ نہ کریں۔
٭ہسپتالوں میں ویکسین کی فراہمی یقینی بنائی جائے تاکہ مریضوں کا بروقت علاج ممکن ہو سکے ۔
٭ معیاری ویکسین کی قیمت کم کی جائے تاکہ لوگ اس کو باآسانی خرید سکیں۔
باؤلے کتے کی پہچان
مندرجہ ذیل حرکات سے اس کی پہچان آسانی سے کی جاسکتی ہے :
٭ایسے کتے جن میں یہ وائرس پایا جائے وہ اپنے راستے میں آنے والی ہر چیز کامثلاًانسان،جانور یاپتھر وغیرہ کا پیچھا کرتے اور اسے کاٹنے کے لیے لپکتے ہیں۔
٭ان کتوں کی مسلسل رال ٹپک رہی ہوتی ہے ۔
٭ اگر کوئی کتا بنا کسی وجہ کے کاٹنے کو دوڑے تو اس بات کا امکان ہے کہ وہ ری بیز کا شکارہو۔ایسے کتوں کو چھیڑنے یاان کے پیچھے بھاگنے سے اجتناب کریں۔
’’علاج احتیاط سے بہتر ہے‘‘اس مقولے پر عمل کرکے جہاں دیگر بہت سی بیماریوں اور تکلیفوں سے بچا جا سکتا ہے‘ وہیں رے بیز سے بھی محفوظ رہا جا سکتا ہے۔اگر یہ بیماری لاحق ہوجائے تو سستی کی بجائے بروقت متعلقہ معالج سے رابطہ کریں تاکہ مرض کو کنٹرول کیا جا سکے اور بیماری میں کوئی پیچیدگی رونما نہ ہو۔
