ریبیز
رے بیزیعنی ’’بائولا پن ‘‘ ایک قدیم مرض ہے جس سے بچائو تو ممکن ہے لیکن ایک دفعہ ہوجائے تو پھریہ لاعلاج صورت اختیار کر جاتاہے۔اس لئے اسے بہت سنجیدہ لینے کی ضرورت ہے ۔اس کا وائرس انسانی دماغ پر اثر کرتا ہے۔
مرض کی علامات
پاگل کُتے کے کاٹنے سے بیماری کی علامات ظاہر ہونے تک کا وقفہ ڈیڑھ یا دوماہ سے لے کر ایک سال تک ہوسکتا ہے۔اگر بروقت علاج نہ ہو تو مرض کی علامات شروع ہوجاتی ہیں جوشروع میں انفلوئنزا کی طرح کی ہوتی ہیں۔
بخار ‘سردرد ‘ متلی‘ اُلٹیاں اور طبیعت کی خرابی‘ بے چینی‘ ہیجان‘ بے یقینی‘غیر حقیقی چیزوں کا نظر آنااس کی علامات ہیں۔ اس کے علاوہ عضلات میں کھچائو‘لعاب دہن کی زیادتی‘ منہ سے جھاگ نکلنا‘پانی کا خوف‘ہوا سے حساسیت‘ آخر میں کوما اور پھر موت مریض کا مقدر بن جاتی ہے۔عضلات میں کھچائو کے باعث مریض کے لئے کچھ نگلنا یا سانس لینا دُشوارہوجاتا ہے۔ پانی کو دیکھ کر‘ہوا کے جھونکے کو محسوس کرکے یا اچانک شور سن کر اُسے دورہ پڑ جاتا ہے ۔ جسم کے عضلات کھنچ جاتے ہیں اور یہی بیماری کا سب سے اہم ٹیسٹ ہے۔
انفیکشن
کوئی حسن خیل کے علاقے سے آٹھ مریض اکٹھے لیڈی ریڈنگ ہسپتال آئے۔ وہ صبح کی نماز کے بعد جب مسجد سے باہر نکلے تو اچانک ایک بھیڑیے نے ان پر حملہ کیا اور ان آٹھوں کو کاٹ لیا۔عموماًتندرست بھیڑئیے نہ توشہر یا گائوں کے اندر آتے ہیں اور نہ ہی دن کو نظرآتے ہیں۔ یہ بائولا بھیڑیا تھا، اسی لئے باہر آیا اور حملہ آور بھی ہوا۔ لوگوں نے بھیڑیے کو مار کر دفن کردیا تھا۔ ان آٹھوں کو ویکسین لگائی گئی اور وہ تمام لوگ زندہ رہے۔
اب یہ تصدیق کرنا تھی کہ بھیڑیا بائولا تھا یا نہیں۔ اس مقصد کے لئے بھیڑیے کا سر کوئی حسن خیل سے منگوایاگیا۔اسے پلاسٹک کے تھیلے میں ڈال کر ایک بوری میں بند کیاگیااور این آئی ایچ (نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ )اسلام آباد بھجوایاگیا۔ تقریباً چھ دن کے بعد اس کی رپورٹ آئی جس میں تصدیق ہوگئی کہ بھیڑیاواقعتاً بائولا تھا۔اس کا دماغ نیگری باڈیزسے بھراپڑاتھا جو ریبیز انفیکشن کا ثبوت تھا۔
ریبیز‘‘ کا انفیکشن صرف کتوں کو ہی نہیں بلکہ دوسرے جانوروں مثلاً بھیڑیے ‘گائے بیل‘گیڈر اورچمگاڈر وغیرہ کو بھی ہو سکتا ہے۔ چمگاڈر اگر سوتے میں کاٹے تو مریض کو اس کا احساس تک نہیں ہوتا۔ اس کا زخم دماغ کے جتنا نزدیک (مثلا چہرے پر) ہو گا‘بیمار ی کے آثار اُتنی ہی جلدظاہر ہوں گے۔ کتے کے منہ کا لعاب اگرانسانی جلد پر لگ جائے اور وہاں کوئی چھوٹی سی خراش بھی ہو تو ریبیز ہوسکتا ہے۔
احتیاطی تدابیر
چونکہ ریبیز لا علاج ہے‘ اس لئے پرہیز ہی واحد حل ہے۔ اس سے بچائو کے لئے درج ذیل احتیاطی تدابیر پرعمل کرنا چاہئے
٭تمام پالتو کتوں کو معیاری ویکسین لگانی چاہیے ۔ جو لوگ کتوں اور دیگر جانوروں کے ساتھ کام کرتے ہیں‘ انہیں بھی اس کی ویکسین لگانی چاہیے۔
٭اگر کتا کاٹ لے تو زخم کو اچھی طرح صابن اور پانی سے دھونے کے بعد فوراً ویکسین لگوانی چاہیے۔
٭ ویکسین کو 24 گھنٹے مناسب درجہ حرارت پر رکھا جائے اور لوڈشیڈنگ کے وقت اس کے لئے جنریٹر استعمال کئے جائیں۔
٭ویکسین کے معیارپر کبھی سمجھوتہ نہ کیا جائے اور ہمیشہ عالمی ادارہ صحت کی تجویز کردہ ویکسین ہی لگوائی جائے۔
Rabies, symptoms, treatment, precautions
