پپیتا ڈینگی کا توڑ؟
ڈینگی بخار آج کل پھر سر اٹھا رہا ہے جس موثر حل مچھروں کی افزائش روکنا ہے ۔فی الحال اس کا علاج صرف قوت مدافعت بڑھانے تک محدود ہے۔اس مرض میں خون میں موجود سفید ذروں کی تعداد خطرناک حد تک کم ہو جاتی ہے ۔دیکھا گیا ہے کہ پپیتے کے پتوں کا رس استعمال کرنے سے پلیٹ لیٹس کی تعداد نمایاں طور پر بڑھ جاتی ہے ۔یہ علاج خاصا کامیاب لگتا ہے تاہم اس پر مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔ ریٹائرڈ سرجن ڈاکٹر عبدالرحمٰن صاحبزادہ کی ایک معلومات افزاء تحریر
پچھلے دو تین عشروں میں بھارت‘ پاکستان اورآس پاس کے دیگر ممالک میں ایک ایسی بیماری کا نام سننے میں آرہا ہے جو بہت سی اموات کا سبب بنی ہے۔ اس نے خطے‘ خصوصاً پاکستان میں خوف اور تشویش کی لہر پیدا کر دی ہے۔ اس کی ہلاکت خیزی کے باوجود خوش قسمتی سے اس مرض سے مرنے والوں کی شرح محض پانچ فی صد ہے- تاہم ایک جان بھی ضائع ہو تویہ قابل تشویش بات ہے۔ اس مرض کو عرف عام میں ہڈی توڑ بخار (bone break fever) اور طبی زبان میں ڈینگی بخار (dengue fever) کہا جاتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ عام نام کی بجائے اس کا طبی نام زیادہ مشہور ہے۔
ڈینگی بخار ایک متعدی مرض ہے جو چار مختلف قسم کے لیکن ایک ہی خاندان سے تعلق رکھنے والے وائرسوں سے ہوتا ہے۔ وائرس بیکٹیریا سے بھی کئی گنا چھوٹے ہوتے ہیں اور مختلف وائرس مختلف بیماریوں کا سبب بنتے ہیں۔ ان کے خلاف ابھی تک کوئی خاطر خواہ اینٹی بائیوٹک دریافت نہیں ہو سکی لہٰذا ایک خاص تناظر میں یہ لاعلاج ہی تصور ہوتے ہیں۔ ڈینگی کا شمار بھی اسی فہرست میں ہوتا ہے۔البتہ کچھ طبی اقدامات سے مریض کی قوت مدافعت خاصی حد تک بڑھ جاتی ہے اور اس کا جسم اس موذی مرض کو قابو کرنے اور اس سے چھٹکارا حاصل کرنے میں خاصی حد تک کامیابی حاصل کر لیتا ہے۔
ڈینگی بخار مچھر کے کاٹنے سے ہوتا ہے لیکن یہ مچھروں کی اس قسم سے مختلف ہے جو ملیریا پھیلاتے ہیں۔ یہ کالے رنگ کے ہوتے ہیں اور ان کے جسم اور ٹانگوں پر سفید داغ ہوتے ہیں۔ ملیریا کے بعد ڈینگی دوسرا اہم مرض ہے جومچھر کے کاٹنے سے پھیلتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق دنیا میں 5 سے 10 کروڑ انسانوں کے خون میں اس کے جراثیم موجود ہیں۔ تاہم ان افرادکی قوتِ مدافعت ان جراثیم کا مقابلہ کر کے اس حال میں مرض سے چھٹکارا دلوا دیتی ہے کہ انہیں اس کا پتہ بھی نہیں چلتا۔ مریض کو زیادہ سے زیادہ ہلکا سا بخارہوتا ہے جو جلد ہی اتر جاتا ہے اور بات آئی گئی ہو جاتی ہے۔
بدقسمتی ان افراد کی ہوتی ہے جن کی قوت مدافعت ان جراثیم کا مقابلہ نہیں کر پاتی اور جنگ ہار بیٹھتی ہے۔ نتیجے کے طور پر مریض کو شدید بخار ہو جاتا ہے اوراسے جان کے لالے پڑ جاتے ہیں۔ بخار 104 ڈگری تک پہنچ جاتا ہے اورسرمیں شدید درد ہوتا ہے۔ اس کے جوڑوں‘ پٹھوں اور ہڈیوں میں بھی ایسا سخت درد ہوتا ہے جیسے ہڈیاں پس رہی ہوں۔ اسی لئے اسے ہڈی توڑ بخار کہا جاتا ہے۔
آنکھوں کے ڈھیلوں کے پیچھے بھی درد کی ٹیسیں اٹھتی ہیں۔ چونکہ خون کی رگوں میں سے سیرم (serum) اور پانی نکل جاتا ہے لہٰذا جسم میں خون کی کمی ہو جاتی ہے۔ سیرم سے مراد خون میں پایا جانے والا شفاف پانی ہے۔ اس کمی کی وجہ سے ان کا بلڈپریشر گر جاتا ہے اور مریض پر شاک (shock) کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔ میڈیسن کی زبان میں’شاک‘ سے مراد کسی زخم یا شدید مرض سے پیدا شدہ وہ کیفیت ہے جس میں خون کے حجم میں کمی واقع ہو جاتی ہے۔ اس کی علامات میں بلڈپریشر میں کمی‘ تیز نبض‘ بے آرامی ‘ پیاس اور جلد کا ٹھنڈا ہونا ہیں۔
خون میں کچھ خاص ذرے ہوتے ہیں جنہیں پلیٹ لیٹس (platelets) کہا جاتا ہے۔کسی زخم‘ بیماری یا زچگی کے دوران اگر خون بہنے لگے تو یہی پلیٹ لیٹس اسے روکتے ہیں۔ ڈینگی بخار میں ان ذروں کی خطرناک حد تک کمی ہو جاتی ہے جس کی وجہ سے جسم کے مختلف اعضاء مثلاً مسوڑھوں اور ناک وغیرہ سے خون خارج ہونے لگتا ہے اور سارے جسم پر نیل پڑ جاتے ہیں۔ رگوں سے رسنے والا سیرم اورپانی پھیپھڑوں کے اردگرد چھاتی اور پیٹ میں جمع ہو جاتا ہے۔ ایسے مریض کو ڈرپ لگانا بہت ضروری ہوتا ہے ورنہ اس کی جان بھی جا سکتی ہے۔
اگر اس مرض کے حملے میں مریض کی جان بچ جائے تو ہفتے عشرے کے بعد اس کی قوت مدافعت حرکت میں آکر جراثیم کو ختم کر دیتی ہے۔ ایسے میں اگر ڈینگی کا باعث بننے والے جراثیم کی کوئی اور حملہ آور ہوجائے تو مریض کا مدافعتی نظام درہم برہم ہو کر رہ جاتا ہے۔ دوبارہ ڈینگی ہوجائے تو اس خطرناک حالت کو ڈی ایچ ایف (Dengue hemorrhage fever) کہتے ہیں۔ اس میں مریض کی جان بھی جا سکتی ہے۔ ایسے مریضوں کے علاج کے دوران کڑی نگرانی کی ضرورت ہوتی ہے اور انہیں خون کے علاوہ خاص ذرے یعنی پلیٹ لیٹس بھی دینا پڑتے ہیں۔
میڈیسن کی تاریخ بتاتی ہے کہ جب کسی بیماری کا مستند علاج دستیاب نہ ہو تو لوگ اپنا علاج کرنے کے لئے جڑی بوٹیوں کی طرف رجوع کرتے رہے ہیں۔ بعض اوقات اس دوران نئی ادویات بھی دریافت ہو جاتی ہیں۔ جنوبی امریکہ کے لوگوں نے سنکونا (Cinchona) ذات کے درخت سے کونین (Quinine) دریافت کی جسے طبی دنیا میں لمبے عرصے تک ملیریا کے علاج کے لئے استعمال میں لایا گیا۔ یہی حال ڈینگی بخار کا بھی ہے۔ چونکہ اس کا علاج صرف قوت مدافعت بڑھانے تک محدود ہے لہٰذا لوگوںنے اس کے لئے نباتات کی طرف رخ کیا اور معلوم نہیں کہ کس طرح پپیتے کا انتخاب کیا۔
اس درخت کے پتے بہت بڑے اور آٹھ حصوں میں تقسیم ہوتے ہیں۔ اگر انہیں کُوٹ کر رس نچوڑ کر چھانا جائے اور تقریباً دو ملی لیٹرروزانہ دن میں دو بار پانچ دن تک ڈینگی کے مریضوں کو پلایا جائے تو ان کی طبیعت جلد سنبھل جاتی ہے اور پلیٹ لیٹس بڑھنا شروع ہو جاتے ہیں۔ اس سے اکثر مریض صحت یاب ہو جاتے ہیں۔ یہ علاج خاصا کامیاب لگتا ہے تاہم اس پر مزید تحقیقات کی ضرورت ہے۔ عین ممکن ہے کہ ملیریا کی طرح اگلے کچھ سالوں میں پپیتے کے درخت سے بھی کوئی دوا تیار کر لی جائے جو ڈینگی کا موثرعلاج ثابت ہو۔
اس درخت کے رس سے کچھ دوائیں بھی بنتی ہیں جنہیں گولیوں‘ انجکشن یا مرہم کی صورت میں پیش کیا جاتا ہے۔ ہالی وڈ کے مشہور ایکٹر انڈیانہ جونز کوایک دفعہ شوٹنگ کے دوران کمر میں چوٹیں آئی تھیں۔ انہیں اسی درخت سے بنائی گئی دوا کے انجکشن دیئے گئے۔ اس میں کائموپاپائن (chymopapain) ہوتی ہے جو ورم اور سوجن کو کم کرتی ہے۔ البتہ یہ ذہن میں رہے کہ اس میں لیٹکس بھی ہوتا ہے جس سے بعض لوگوں کو الرجی ہوتی ہے۔ لیٹکس سے پلاسٹک کی نلکیاں اور دستانے بنتے ہیں۔
پپیتے کا ذائقہ بہت اچھا ہوتا ہے اور لوگ اسے رغبت سے کھاتے ہیں۔ اس کے 100 گرام گودے میں 39 کیلوریز ہوتی ہیں۔ اس کے کچے پھلوں اور پتوں کو سبزی اور ساگ کی طرح پکا کر یا کچا سلاد میں ڈال کر استعمال کیا جاتا ہے۔ زمانہ قدیم سے اس کے پتوں اور کچے پھلوں کے چھلکوں میں پایا جانے والا گاڑھا رس یعنی چیڑھ (resin) گوشت کو نرم کرنے کے لئے استعمال ہو رہا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ چیڑھ میں ایک اینزائم پاپائن پایا جاتا ہے جو گوشت کے ریشوں کو نرم کر دیتا ہے ۔ اس طرح پکنے کے دوران سخت سے سخت گوشت بھی آسانی سے گل جاتا ہے۔
اگر گوشت کو زیادہ نرم کرنا ہو تو کچے سبز پھل یا پتوں کو پیس کر گودا بنا لیں اور گوشت کی ہر بوٹی پر مل کر اس سے اگلے دن پکائیں۔ اس طرح گوشت بالکل نرم ہوجائے گا۔ اس کے بیج سلاد میں یا کالی مرچ کے نعم البدل کی طرح پیس کر استعمال کئے جاتے ہیں۔ اس میں قدرت نے بہت سا ریشہ‘ وٹامنز خصوصاً اے بی کمپلیکس اور نمکیات رکھے ہیں جو ہماری صحت کے لئے بہت مفید ہیں۔یہ جلد آسانی سے ہضم ہو جاتا ہے اور ریشے کی وجہ سے قبض میں بھی مفید ہے۔
بچاﺅ کی تدابیر
ڈینگی بخار کے وائرس کی منتقلی اور پھیلاﺅ کو روکنے کا موثر ذریعہ اس کے حامل مچھروں پر قابو پانا ہے۔اس سلسلے میں مندرجہ ذیل ہداےات پر عمل کرناچاہئے :
٭ یہ مچھر پانی کے برتنوں میں انڈے دیتا ہے اور انسانوں کے قریب رہنا پسند کرتاہے۔ انہیں ایسی جگہ پہنچنے سے روکا جائے جہاں یہ انڈے دینا پسند کرتے ہیں۔ کھلے پا نی کے کنٹینرز اور تالاب اس کی مثالیں ہیں۔
٭ ٹھوس انسانی اور حیوانی فضلے کو کھلا نہ چھوڑا جائے۔
٭ گھریلو پا نی ذخیرہ کرنے کی جگہوں مثلاً ڈرم وغیرہ کو ڈھانپ دیا جائے۔
٭ گھروں کے باہر کھڑے پانی پر مچھر مار زہر کا اسپرے کیا جا ئے۔
٭ دروازوں پر جالیاں لگوائیں‘ صبح اور شام کے اوقات میں پوری آستینوں والے کپڑے پہنیں۔نیز مچھروں سے بچاﺅ کے لیے لوشن اور کوائل وغیرہ استعمال کریں۔
Dengue, dengue prevention, mosquito bites, seasonal health issues, benefits of papaya for dengue treatment, papaya health benefits, dengue cure in papaya
