ہیپاٹائٹس علاج میں نئی پیش رفت

زندگی میںبہت سے معاملات ایسے پیش آجاتے ہیں جو ہمارے بس یا اختیار میں نہیں ہوتے‘ تاہم ان پر ردعمل ضرور ہمارے اپنے بس میں ہوتا ہے۔صحیح طور کہا جاتا ہے کہ پریشانی میں گھبراہٹ، پریشانی کو مزید بڑھا دیتی ہے جبکہ اس کو قبول کرتے ہوئے دماغ کو پرسکون اور ٹھنڈارکھنا ہمیں اس چیلنج سے نمٹنے میں مدد دیتا ہے ۔زندگی میں ہم دونوں طرح کے رویوں کو دیکھتے بھی ہیں اور خود بھی ان سے گزرتے ہیں ۔تاہم قابل توجہ، قابل دید اور قابل تقلید رویہ دوسرا ہی ہے۔ بیماری، اور وہ بھی ہیپاٹائٹس سی جیسی بیماری اسی روئیے کی متقاضی ہے ۔ اسلام آباد کی رہائشی 40سالہ نغمانہ کو بھی آج سے تقریباً سات سال پہلے ہیپاٹائٹس سی ہوا تو انہوں نے موخرالذکر روئےے کا ہی انتخاب کیا، اگرچہ یہ ان کی زندگی کی سب سے بڑی پریشانی تھی۔ اس کی تفصیل بتاتے ہوئے انہوں نے کہا :
” آغاز میں مجھے کام کاج کے دوران بہت زیادہ تھکن ہو جاتی، ٹانگوں میں مستقلاًدرد رہتااوراکثر بخار بھی ہونے لگتا ۔میں اسے معمول کی بات سمجھی‘ اس لئے کہ خواتین خانہ کو یہ مسائل رہتے ہی ہیں لیکن میری بھابی کا اصرار تھا کہ میں ہیپاٹائیٹس سی کا ٹیسٹ کراﺅں۔وہ خود بھی اس بیماری سے لڑ رہی تھیں ۔ان کی بیماری کی تشخیص جلد ہو گئی تھی اور اب ان کے علاج کا کورس آخری مراحل میں تھا۔میں نے پمزاسلام آباد سے ٹیسٹ کروائے جو بدقسمتی سے ’پازیٹو ‘ آئے ۔ڈاکٹر نے میرے شوہر کو بھی بلوا لیا اور ان سے اس بات پر سخت ناراض ہوئے کہ انہوں نے وقت پرمیرے ٹیسٹ کیوں نہ کروائے ۔“

اس کے بعد ان کا علاج یعنی انجیکشنزکا کورس شروع ہو گیا۔انہیں ایک دن کے وقفے سے انجیکشن لگتے جن کے بعد شدید بخار بھی ہوتا۔ تکلیف، مستقبل کے اندیشوں اور گھر کے مسلسل متاثر ہونے پر وہ سخت پریشان تھیں:
”مجھ میں اتنی ہمت بھی نہ ہوتی کہ اٹھ کربیٹے کو ناشتہ بناکر دے سکتی ۔ گھر میں بیٹے اورشوہر کے علاوہ کوئی نہ تھا ۔ مجھے نہیں معلوم کہ اس عرصے میں انہوں نے اپنے اور گھر کے کاموں کو کیسے سنبھالا ۔“

نغمانہ نے ہمت سے کام لیا اور اپنے کھانے پینے کی روٹین اچھی رکھی‘ پھل اور جوس دن میں مناسب وقفوں کے ساتھ لیتی رہیں اور میڈیسن کا کورس بھی مکمل کیا۔ اس کے بعد جب ٹیسٹ کروایا تو وہ کلیئر نہیں تھایعنی وائرس خون میں موجود تھااور بیماری جوں کی توں تھی۔ ایسے میں مایوس ہونے کی بجائے انہوںنے ایک دفعہ پھر اپنی ہمت کو مجتمع کیا ۔ اب کی بار انہوں نے زیادہ شدت سے پرہیز کرناشروع کر دیا۔ اس کے کچھ ماہ بعد ٹیسٹ کروایا تو وہ کلیئر آگیا۔ نغمانہ بہت خوش تھیں:
” مرض بہت زیادہ بڑھاہوانہیں تھا لہٰذا اللہ کا شکر ہے کہ وہ ٹھیک ہو گیاتاہم اس کے بعد بھی مجھے معدے کے مسائل تنگ کرتے رہے۔ میں نے علاج جلد شروع کر دیا تھا جس کی وجہ سے بچ گئی، ورنہ حالات کچھ زیادہ حوصلہ افزاءنہ تھے۔لوگوں کو چاہئے کہ احتیا ط کریں لیکن اگر یہ مرض ہو جائے تو پھر رونے دھونے کا فائدہ نہیں۔جب تک زندگی ہے‘ بیماری کا ڈٹ کر مقابلہ کریں۔“

ہیپاٹائٹس جگر کی ایک بیماری ہے جس کی کچھ اقسام(بی اور سی) مہلک بھی ہیں ۔ عالمی اداہ صحت کے مطابق ہیپاٹائٹس بی اور سی کے مریضوں کی زیادہ تعدادکے تناظر میں پاکستان مصر کے بعد دنیا بھر میں دوسرے نمبر پر ہے۔یہاں تقریباً 18ملین لوگ اس سے متاثر ہیں جن میں سے 11ملین کو ہیپاٹائٹس سی جبکہ سات ملین کو ہیپاٹائٹس بی ہے اورہر 30سیکنڈ میں ایک شخص اس سے متعلق کسی وجہ سے فوت ہو جاتا ہے۔
لیڈی ریڈنگ ہسپتال پشاورمیں شعبہ گیسٹروانٹرالوجی کے سابق سربراہ ڈاکٹرصادق شاہ آج کل رحمن میڈیکل انسٹیٹیوٹ پشاور میں گیسٹروانٹرولوجی اور ہیپاٹالوجی میںخدمات انجام دے رہے ہیں۔ ہیپاٹائٹس کی وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ دو ےونانی الفاظ ”ہےپاٹ “ ےعنی جگر اور” آئی ٹس“ ےعنی سوزش کا مجموعہ ہے۔ےوں ہےپاٹائٹس کا مطلب ”جگر کی سوزش“ ہے۔سادہ لفظوں میں کچھ وائرس جگر میں جاکر ورم پیدا کرتے ہیں جسے ہیپاٹائٹس کہا جاتا ہے ۔

ہیپاٹائٹس کی اقسام
طوےل عرصے تک دنےا ہےپاٹائٹس کا باعث بننے والے صرف دو قسم کے وائرسوں ےعنی ’اے‘ اور’بی‘ سے ہی واقف تھی ۔ آج اس کی ’ڈی ‘،’ای‘ حتیٰ کہ ’جی‘ تک اقسام بھی سامنے آ چکی ہےں۔ڈاکٹر شاہ کے بقول واضح رہے کہ اس میں ’ایف‘ شامل نہیں ہے ۔
بیماری کا سبب بننے کے حوالے سے ہیپاٹائٹس کی دو بڑی اقسام ہیں۔ پہلی قسم وہ جو آلودہ خوراک کھانے یاپانی پینے سے ہوتی ہے ۔ہےپاٹائٹس ’اے‘ اور’ ای‘ا س میں شامل ہیں جن کے وائرس آلودہ پانی اورجراثیم سے آلودہ اشےاءمثلاً فالودہ‘ گول گپے‘سموسے‘ کٹے ہوئے پھل وغےرہ کھانے سے جسم میں داخل ہوتے ہےں اورسیدھا جگر پر حملہ آور ہوتے ہےں۔ےہ وائرس تکلیف تو بہت دےتے ہےں لےکن وہاں اپنا نشان نہےں چھوڑتے اور کچھ عرصے بعدختم ہوجاتے ہےں۔ اس لئے انہےں مہلک تصور نہےں کیا جاتا۔انہیں پانی سے ہونے والی (water borne) بیماریاں کہا جاتا ہے ۔
اس کے برعکس ہےپاٹائٹس بی‘ سی اور ڈی وائرس کے جسم میں داخل ہونے کابڑا ذریعہ خون ہے لہٰذا وہ خون سے لگنے والی (blood borne) بیماریوں میں شمار ہوتی ہیں۔ ڈاکٹر صادق شاہ نے بتایا کہ ہیپاٹائٹس ڈی کا وائرس ، بی کے ساتھ مل کر انفکشن کرتا ہے۔ وہ اکیلے یہ کام نہیں کر سکتا۔

انہوں نے یہ بھی بتایا کہ ہیپاٹائٹس بی اور سی وائرس انسانی جسم کی رطوبتوںsecretions))کے ذریعے ایک فرد سے دوسرے میں منتقل ہوتا ہے ۔ ان رطوبتوں میں خون‘ تھوک اور جنسی اعضاءکی رطوبتیں شامل ہیں۔ ہیپاٹائٹس سی کے مریض کا خون لگنا‘ استعمال شدہ سرنجوں کا بار بار استعمال‘کان اور ناک وغیرہ چھدوانا‘ جسم پر نقش ونگار (tatooes) بنوانا‘ منشیات کا بذرےعہ انجکشن استعمال اورزیادہ افراد سے جنسی تعلقات کے علاوہ ڈائلسز‘ دانتوں کے علاج اورسرجری میں آلودہ آلات کا استعمال بھی ان امراض کے ممکنہ پھیلاﺅ کے ذرائع ہیں۔
ہےپاٹائٹس سی وائرس کی وجہ سے جگر متاثر ہونے کے عمل کی وضاحت کرتے ہوئے شفا انٹرنیشنل ہسپتال میں امراض معدہ و جگر کے ڈاکٹر ناصرکھوکھر کہتے ہےں:
” جب جگر میں سوزش پےدا ہوتی ہے توجسم کا خودکار دفاعی نظام حرکت میں آتا ہے اور اسے ٹھےک کر دےتا ہے‘تاہم وائرس جگرکے اس حصے پر اےک نشان ےا کھرنڈ (scar)چھوڑجاتا ہے ۔ وائرس چونکہ وہےںموجود رہتا ہے اور ختم نہےں ہوتا‘ لہٰذا وہ جگرکو باربار نقصان پہنچاتا رہتا ہے ‘ جسم اسے ٹھےک کرتا رہتا ہے اور کھرنڈ بنتے رہتے ہےں۔ آخر میں جگرپر صرف کھرنڈرہ جاتے ہےں۔ اس حالت کو سیروسس (Cirrhosis) کہتے ہےں“
ڈاکٹر کھوکھر کے بقول جب سیروسس ہوجائے تو جگر اپناکام نہےں کر سکتا ۔اس وجہ سے غذائےت جسم تک نہےںپہنچ پاتی اورفرد کمزور ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ زہرےلے مادے جسم سے خارج نہےںہوتے جس سے عضلات پر برے اثرات مرتب ہوتے ہےں۔جب ان مادوں کا اثردماغ پر ہوتا ہے تو مرےض غنودگی کا شکار ہو جاتا ہے اور اسے غشی کے دورے پڑنے لگتے ہےں۔ آخری مرحلے میں خون پتلا ہو جاتا ہے اوراس کے دباﺅ کی وجہ سے رگےں پھٹ جاتی ہےں۔اس سے خون کی الٹےاں اورپاخانے میںخون آنے لگتا ہے اور جسم پر نےل پڑ جاتے ہےں۔ان علامات کے ظاہر ہونے کا مطلب ہے کہ جگر نے اپنا کام چھوڑ دےا ہے ۔
ہےپاٹائٹس بی اور سی کی علامات ےعنی بخار‘ بھوک نہ لگنا‘ الٹےاں اور پےٹ میں درد وغےرہ اےک جیسی ہےں۔ دونوں بےمارےوںمیں فرق ےہ ہے کہ یہ مختلف قسم کے وائرسوں سے لاحق ہوتی ہیں۔مزید براں ’بی‘ کی وےکسین موجود ہے جبکہ ’ سی‘ کی وےکسین موجود نہےں۔

علاج اور اس میں تازہ پیش رفت
روایتی طور پر ہیپاٹائٹس سی کا علاج انٹرفیرون انجکشن اور وائرس کے خلاف استعمال ہونے والی دیگر ادویات سے کیاجاتا ہے۔ اس میں کئی مسائل تھے۔ اب سوالڈی (Sovaldi) نامی نسبتاً کم قیمت دوا اس کے متبادل کے طور پر سامنے آ گئی ہے جو اس کے علاج میں حیران کن پیش رفت ثابت ہوئی ہے ۔ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی نے اس کی تیاری، مارکیٹنگ اور سیل کی اجازت دے دی ہے جو ہیپاٹائٹس بی اور سی کے مریضوں کیلئے بہت بڑی خوشخبری ہے ۔
اطلاعات کے مطابق اس دوا کا ایک پیک (جس میں 28 گولیاں ہوتی ہیں) امریکہ میں20لاکھ روپے کا فروخت ہو رہاہے جبکہ مصر میں یہ دوا دو لاکھ فی پیک میں دستیاب ہے۔ پاکستان میں اس کی قیمت 55000روپے فی پیک رکھی گئی ہے۔ اسے مزید 40 فی صد کم کردیا گیاہے جس کے بعد یہ 32300روپے میں دستیاب ہے ۔
پاکستان میں اس کا ڈسٹری بیوٹر ’فیروز سنز لیبارٹریز‘ ہے۔ اس کے مارکیٹنگ منیجرفیصل سلیم نے شفانیوز کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ پاکستان میں یہ میڈیسن رعایتی قیمت پر دستیاب ہے جبکہ باہر کے ملکوں میں یہ نسبتاً مہنگی ہے ۔قیمتوں میں نمایاں فرق کی وجہ سے اس کے سمگلنگ کے امکانات بھی بہت ہیں۔ لہٰذا وہ مریض کورجسٹر کرتے ہیں اور اسے ماہانہ بنیادوں پریہ دوادیتے ہیں۔ جب وہ پہلا پیک واپس کرتا ہے تواسے نیا پیک مل جاتا ہے ۔یہ دوا صرف فیروز سنز کے ڈسٹری بیوشن پوائنٹس سے ہی ملتی ہے جو لاہور، راولپنڈی، اسلام آباد ، گجرات، گوجرانوالہ ، سیالکوٹ، سرگودھا، فیصل آباد، اوکاڑہ ، بہالپور، ساہیوال، بورے والا، ملتان، رحیم یار خان، سکھر، لاڑکانہ، حیدرآباد، کراچی اور پشاورمیں قائم ہیں ۔ جہاں یہ سنٹرز موجود نہیں، وہاں اسے بذریعہ کورئیر بھیجاجاتا ہے ۔“

مندرجہ بالا گفتگو کو سمیٹتے ہوئے درج ذےل نکات اہم ہیں :
٭ہےپاٹائٹس بی اور سی زیادہ خطرناک ہیں جو آلودہ پانی اور کھانے پےنے کی اشےاءسے نہےں بلکہ آلودہ سرنج سے ٹےکہ ‘ ڈرپ ےا خون لگوانے‘ ایسی سوئی سے جسم پر ٹےٹو بنوانے ےاکان ناک چھدوانے‘ آلودہ استرے ےا بلےڈ سے شےو بنوانے اور ایسے اوزاروں سے دانتوں کا علاج کرانے سے لگتے ہےں ۔ان سے اجتناب ضروری ہے۔
٭پاکستان میں ہےپاٹائٹس بی اور سی کے زیادہ تر ذمہ دار غےرمحفوظ انجےکشن ہےں۔ لہٰذا غےرضروری طور پر انجےکشن ےا ڈرپ لگوانے سے پرہےز کیا جائے ۔
٭ ہےلتھ ورکرزمثلاً ڈاکٹر‘نرسےں‘ فزےشن اسسٹنٹ‘ لےب ٹےکنیشنزاور اےنڈوسکوپی کرنے والے افراد کو ہےپاٹائٹس سی کے مرےضوں کا خون لگنے کا امکان زےادہ ہوتا ہے ۔اسی طرح انجےکشن کے ذرےعے نشہ کرنے والے افراد اور جےلوںکے عملے میںبھی اس کے امکانات زےادہ ہوتے ہےں‘ لہٰذاان افراد کوچاہئے کہ اس کا ٹےسٹ ضرورکروا لےں۔ اگر وہ مثبت آئے تو اس کا علاج کروائےں۔
٭اگر مرض ہو جائے تو گھبرانے کی بجائے حوصلے سے کام لیں اور ادھر ادھر وقت ضائع کرنے کی بجائے براہ راست اس شعبے کے ڈاکٹر کے پاس جائیں اوراس سے علاج کرائیں۔
٭ جب مرض ابتدائی مرحلے میں ہوتا ہے تو اکثر مریض علاج سے پہلوتہی کرتے ہیں اور اس پر خرچ نہیں کرتے۔ جب یہ شدت اختیار کر جاتا ہے تو پھر پانی کی طرح پیسہ بہانے پر بھی تیار ہوجاتے ہیں۔ ابتدا میں ہی اس کا علاج کرنے کی کوشش کریں۔

Vinkmag ad

Read Previous

کینسر”جو ہو گا دیکھا جائے گا“

Read Next

افطاری میں کون سا شربت بنائیں

Most Popular