اعصابی مسائل
اعصاب کی بیماریوں اوران کے ممکنہ علاج پر ذہنوں میں پیدا ہونے والے سوالات کے جوابات جانئے شفا انٹرنیشنل ہسپتال اسلام آباد کے دماغی و اعصابی امراض کے سرجن ( نیورو سرجن) ڈاکٹر محمد ندیم کے انٹرویو میں
انسانی جسم میں اعصاب کا کیا کردار ہے؟
اعصاب کا بنیادی کام دماغ اوردیگرجسمانی اعضاء کے درمیان رابطہ قائم رکھنا ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ جسم کے ابلاغی نظام (communication system)کا اہم جزو ہیں۔ یہ ایک ماسٹرسسٹم ہے جو ہمارے جسم کی ہرطرح کی سرگرمی کوکنٹرول کرتا ہے۔ یہ خون کی گردش، دل کی دھڑکن اورہاضمے کے عمل کو منظم کرتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ جسم کا توازن، سانس، بلڈ پریشر اور درجہ حرارت کو قابو میں رکھنے میں بھی مدد دیتا ہے۔ اعصابی نظام کے بغیران تمام سرگرمیوں کا مکمل ہونا ممکن نہیں۔
پاکستان میں اعصابی نظام کی عام بیماریاں کون سی ہیں؟
یہاں سردرد زیادہ عام ہے۔ مرگی اس فہرست میں دوسرے نمبرپرآتی ہے جس کا تناسب دیہی اورشہری علاقوں میں تقریباً برابر ہے۔ پاکستان میں موت اورمعذوری کی دوسری بڑی وجہ فالج بھی ہے۔ پٹھوں کے مسائل اورریڑھ کی ہڈی کے امراض بھی عام دیکھنے میں آتے ہیں۔
کیا موٹاپے کا ریڑھ کی ہڈی کے مسائل سے کوئی تعلق ہے؟ ان سے بچنے کے لیے کیا کرنا چاہئے؟
موٹاپا ریڑھ کی ہڈی کے بہت سے مسائل کو جنم دے سکتاہے جن میں کمردرد اور سلپ ڈسک سرِفہرست ہیں۔ اس لئے وزن قابو میں رکھنا بہت ضروری ہے۔
ریڑھ کی ہڈی کی حفاظت کیسے کی جائے؟
اس کے لئے گردن پرخاص توجہ دینی چاہئے۔ اسے ہمیشہ سیدھا رکھیں۔ کھڑے ہوتے اورکام کرتے ہوئے نہ تو بہت زیادہ جھکیں اور نہ گردن کو زیادہ پیچھے کی طرف کریں۔ کوشش کریں کہ گردن کومناسب‘ متوازن اورفطری حالت میں رکھا جائے۔
کمرکو نقصان سے بچانے کے لیے کیا کرنا چاہئے؟
اس کے لیے روزانہ کی واک اورورزش سے بہترکوئی حل نہیں۔ واک دماغ، دل، ریڑھ کی ہڈی اورپورے جسم کے لیے صحت مند سرگرمی ہے۔ لہٰذا روزانہ یا ہفتے میں کم از کم پانچ دن 30 سے 35منٹ تک مسلسل تیزچلنے کی عادت اپنائیں۔ ماہرین صحت کے مطابق ایک صحت مند انسان کے لیے روزانہ 10000 قدم چلنا نہایت ضروری ہے۔ سمارٹ فونزمیں قدم شماری کے لئے بہت سی ایپس موجود ہیں۔ روزانہ 6000 سے 7000 قدم چلنے والا شخص بالعموم وزن بڑھنے اورکمر کی تکلیف کا شکارنہیں ہوتا۔ اس کے علاوہ کمرجسم کا بہت ہی نازک حصہ ہے جس پر زیادہ دباؤ ڈالا جائے تو اسے نقصان پہنچ سکتا ہے۔ اس لیے اٹھنے بیٹھنے اورکھڑا ہونے کے لئے درست اندازاختیار کیا جائے۔ زیادہ جھک کر کام نہ کریں‘ وزن اٹھاتے ہوئے احتیاط کریں اورکوئی چیزجھٹکے سے نہ اٹھائیں۔
بعض لوگ عرق النساء اورکمر درد کو ایک ہی سمجھتے ہیں۔ کیا یہ درست ہے؟
عام طورپرلوگ کمرکے درد اورشیاٹیکا کوایک ہی سمجھتے ہیں۔ حالانکہ ان میں کافی فرق ہے۔ شیاٹیک ایک عصب ہے جوہماری پیٹھ سے شروع ہوتی ہے اورکولہوں سے ہوتی ہوئی رانوں سے گزرکرپاؤں تک جاتی ہے۔ اس میں کسی بھی قسم کی سوزش یا کھچاؤعرق النساء کا باعث بنتا ہے جسے شیا ٹیکا بھی کہتے ہیں۔ دوسری طرف کمرمیں درد عام طورپرغلط وزن اٹھانے اورکمر پرچوٹ لگنے کی وجہ سے ہوتا ہے۔ مزیدبرآں اعصاب کے دیگر مسائل بھی کمر درد پراثرانداز ہوسکتے ہیں۔
وزن اٹھانے میں کیا احتیاط کرنی چاہئے؟
پہلی بات یہ ہے کہ بہت زیادہ زور لگا کرکوئی بھی چیز اٹھانے کی کوشش نہ کریں۔ اگر وزن زیادہ یا آپ کی قوت برداشت سے بڑھ کرہو تو بھی اسے نہ اٹھائیں۔ وزن اٹھانے کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ اسے اپنے جسم کے قریب کرکے اٹھائیں۔ اگرضروری ہوتو اس کے لئے بیلٹ استعمال کریں۔ اس طرح وزن اٹھانے میں آسانی ہوجائے گی۔
دماغ اورریڑھ کی ہڈی کو صحت مند رکھنے کے لیے کون سی ورزشیں بہترہیں؟
واک اوربھاگ دوڑ والی ورزشیں دماغ اورکمر کے لیے بہت اچھی ہوتی ہیں۔ اس کے علاوہ لیٹ کرایک ٹانگ اوپرکی جانب لے جائیں اورپھر دوسری ٹانگ کے ساتھ یہ عمل دہرائیں۔ ورزش کوئی بھی ہو‘ اس کا دماغ پراثراچھا ہی پڑتا ہے۔ کسی بھی تکلیف کی صورت میں فوراً ورزش ترک کردیں، اس لئے کہ وہ نقصان کا باعث بن سکتی ہے ۔
سرپرلگنے والی چوٹوں سے بچاؤ کیسے ممکن ہے؟
ہمارے ہاں سراورریڑھ کی ہڈی پرلگنے والی چوٹوں کی اہم وجہ ٹریفک حا دثات ہیں جس کا واحد حل احتیاط ہے۔ ہمیں چاہئے کہ ٹریفک قوانین کی پابندی کریں۔ گاڑی چلاتے وقت سیٹ بیلٹ باندھیں اورموٹر سائیکل سواری کے دوران ہیلمٹ پہنیں۔ نوجوان نسل ان ضروری چیزوں کو غیرضروری اوربوجھ سمجھتی ہے لیکن جب خدانخواستہ حادثہ ہوجاتا ہے توپھروہ یا توعمر بھر کے لیے اپاہج ہوجاتے ہیں یا والدین کو ہمیشہ کے لئے روتا چھوڑجاتے ہیں۔ عام چوٹوں کا علاج ہوجاتا ہے لیکن اگردماغ پرکوئی گہری چوٹ آجائے تو وہ مشکل ہوجاتا ہے۔ والدین کو چاہئے کہ اپنے بچوں پرتوجہ دیں اوران کی کڑی نگرانی کریں تاکہ وہ حادثات سے محفوظ رہ سکیں۔
حادثات کے نتیجے میں بعض اوقات دماغ کا کوئی حصہ زخمی یا ختم ہوجاتا ہے۔ کیا اسے دوبارہ بنایا جا سکتا ہے؟
دماغ قدرت کی بنائی ہوئی وہ چیزہے جس کے بعض حصے ختم ہوجائیں توانہیں بحال نہیں کیا جاسکتا۔ ایسے میں دماغ کا وہ حصہ جن افعال کو کنٹرول کررہا ہوتا ہے‘ مریض ان سے تاحیات محروم ہوجاتا ہے۔ اس کے برعکس وہ حصے جو تھوڑے زخمی ہوئے ہوں‘ انہیں ادویات یا آپریشن کی مدد سے ٹھیک کیا جا سکتا ہے۔
دماغ کی اندرونی چوٹ کی علامات کیا ہوتی ہیں؟
دماغ کی اندرونی چوٹ کی علامات میں چند لمحوں یا منٹوں کے لئے بے ہوش ہوجانا‘ اگر فرد ہوش میں ہو توپریشانی، بدحواسی یا سرچکرانا، نیند میں دشواری یا پرسکون نیند نہ آنا، سر میں درد رہنا، متلی یا الٹی ہونا،غنودگی یا تھکاوٹ کا شکارہونا، معمول سے زیادہ سونا اورجسمانی توازن برقرارنہ رکھ پانا شامل ہیں۔
لقوہ اورفالج میں کیا فرق ہے؟
یہ دونوں بالکل مختلف کیفیات ہیں۔ چہرے کو خون سپلائی کرنے والی شریانوں میں سوزش یا ورم ہو جائے تو اس سے چہرہ متاثرہوتا ہے جسے لقوہ کہتے ہیں جبکہ فالج کا تعلق دماغ سے ہے۔
عام سردرد اورمائیگرین میں کیا فرق ہے؟
سر درد کی وجوہات مختلف ہوسکتی ہیں جن میں سرمیں رسولی، انفیکشن یا ذہنی دباؤ نمایاں ہیں۔ مائیگرین (آدھے سر کا درد) سر درد ہی کی ایک قسم ہے جس کی حقیقی وجہ دریافت نہیں ہوپائی۔ اس میں مریض کو متلی اورقے آسکتی ہے۔ اس کے بعد سرمیں شدید درد ہوتا ہے۔ ایسی حالت میں روشنی بہت بری لگتی ہے۔ ایسا درد رفع ہونے کے بعد دوبارہ بھی ہوسکتا ہے۔ کچھ مریضوں کو مہینے میں پانچ سے چھ بارجبکہ کچھ کو دو سے تین باراس کی شکایت ہوتی ہے۔ ہمارے ہاں بہت سے لوگ عام سردرد کو بھی مائیگرین سمجھتے ہیں جس سے علاج غلط رخ پرچلا جاتا ہے اوربسا اوقات مریض کی صحت مزید خراب ہوجاتی ہے۔
مرگی سے کیا مراد ہے؟
میڈیسن میں مرگی کے لئے یونانی زبان کا لفظ epilepsyاستعمال ہوتا ہے جس کا لفظی مطلب ’’ پکڑے جانا ‘‘ ہے۔ سائنسی اعتبار سے یہ ایک ایسی کیفیت ہے جواعصابی نظام کومتاثرکرتی ہے۔ مرگی کی دو بڑی اقسام عمومی اورجزوی مرگی ہیں جبکہ دورے کی قسم کا انحصار اس بات پر ہے کہ دماغ کا کون سا حصہ کس حد تک متاثرہوا ہے۔
مرگی کے مریض کے لئے دوران دورہ کیا احتیاطیں ضروری ہیں؟
اگرکسی شخص کومرگی کا دورہ پڑجائے تو اس کے اردگرد موجود لوگوں ‘ رشتہ داروں یا دوست احباب کو چاہئے کہ پرسکون رہیں۔ مریض کو جہاں بھی جگہ ملے‘ آرام سے لٹا دیں۔ اس کے دورے اورجسمانی حرکات کو اپنی طاقت سے روکنے کی کوشش نہ کریں۔ اگردورہ کسی خطرناک جگہ مثلاً مصروف سڑک وغیرہ پرپڑا ہوتو اسے وہاں سے ہٹا لیں۔ اسے جس جگہ لٹانا ہو‘ اس جگہ سے سخت، گرم اوردھاری دار اشیاء ہٹا دیں اوراس کے سرکے نیچے کوئی نرم چیزرکھیں۔ اس کی عینک اورمصنوعی دانت اتارلیں اورکسے ہوئے کپڑے مثلاً ٹائی، مفلر اورکالروغیرہ ڈھیلے کردیں۔ مزید برآں فوری طورپرڈاکٹر کو لینے کے لئے جانے کی ضرورت نہیں‘ اس لئے کہ مریض کو خود سنبھالا جاسکتا ہے۔
بعض لوگ اس دوران مریض کے دانتوں کے درمیان کوئی چیزٹھونسنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ اس کی زبان کو کٹنے سے بچایا جا سکے۔ ایسا ہرگزنہ کریں ورنہ اس کوشش میں آپ مریض کو زیادہ نقصان پہنچاسکتے ہیں۔ دورہ ختم ہونے کے بعد مریض کوکروٹ کے بل لٹا دیں تاکہ اس کے منہ سے تھوک وغیرہ نکل جائے۔ اس دوران وقتی طورپرکچھ مریض ذہنی طورپربدحواس ہوجاتے ہیں۔ اگرمریض سونا چاہے تو اسے آرام کرنے دیں۔ بعض اوقات مریض کواپنی حرکت پرشرمندگی محسوس ہوتی ہے۔ ایسے میں اسے اطمینان دلائیں اورتسلی دیں۔ جب تک مریض مکمل طورپربیدارنہ ہوجائے‘ اسے کوئی مشروب مت پلائیں۔ ایک آدھ دفعہ دورہ پڑنے کی صورت میں مریض کو طبی امداد کی ضرورت نہیں لیکن اگرایک سے زیادہ دورے پڑیں تونیورولوجسٹ سے لازماً رجوع کریں۔
کیا موبائل کے زیادہ استعمال سے دماغی مسائل پیدا ہوتے ہیں؟
وہ بچے جوان چیزوں کا زیادہ استعمال کرتے ہیں‘ ان کے دماغ کی نشوونما صحیح نہیں ہوپاتی۔ ایسے بچے چڑچڑے، تنہائی پسند اورلوگوں سے بیزارہوتے ہیں۔ یہ ذہنی دباؤ اورڈپریشن کا شکاربھی ہوجاتے ہیں۔ والدین کو چاہئے کہ اس حوالے سے بچوں پرنظررکھیں۔
کچھ لوگوں کے اعصاب کمزورتوکچھ کے بہت مضبوط ہوتے ہیں۔ اس کی کیا وجہ ہے؟
اگرچہ اس سوال کا تعلق ماہرنفسیات سے ہے لیکن میں اس کا مختصراً جواب دینے کی کوشش کروں گا۔ جس طرح ہم دوسروں کی تربیت کرتے ہیں‘ اسی طرح خود اپنے دماغ کی بھی تربیت کرسکتے ہیں۔ اگرآپ کے دماغ نے پہلے سے پریشانی میں پرسکون رہنا سیکھا ہوا ہے اورورزش آپ کی مستقل عادت ہے تواس بات کا امکان ہے کہ آپ پریشانی میں گھبراہٹ کے شکارنہیں ہوں گے۔ کچھ لوگوں کی گھبراہٹ اور پریشانی کی ایک وجہ ان کے ذہنوں پرہروقت کام کا سواررہنا ہے۔ اس مسئلے کا حل کاموں کوان کی اہمیت اورتوجہ کی ضرورت کے مطابق تقسیم کرلینا ہے۔ اس خاص تناظرمیں انہیں چارحصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔
پہلی قسم ان کاموں کی ہے جواہم اورفوری توجہ کے طالب ہیں۔ جن لوگوں کے وقت کا بڑا حصہ ایسے کاموں میں گزرتا ہے‘ وہ اکثر پریشان ہی رہتے ہیں۔ دوسری قسم کے کام وہ ہیں جو اہم تو ہیں لیکن ایسے نہیں جنہیں کرنے کے لئے ہنگامی اقدامات کرنا پڑتے ہوں۔ سب سے زیادہ خوش وہی لوگ رہتے ہیں جن کے زیادہ ترکام اس کیٹگری میں آتے ہیں۔ تیسرے وہ کام ہیں جوغیر اہم ہونے کے باوجود کسی وجہ سے ہنگامی توجہ کے متقاضی ہوتے ہیں۔ ایسے کاموں کی فہرست بہت چھوٹی ہونی چاہئے۔ چوتھی قسم ان کاموں پرمشتمل ہے جونہ تواہم ہیں اورنہ فوری توجہ کے طالب‘ بلکہ محض تفریح طبع کے لئے ہیں۔ اگر ہم مطمئن رہنا چاہتے ہیں تو ہماری کوشش ہونی چاہئے کہ ہمارے زیادہ ترکام اس خانے میں رہیں جواہم تو ہیں لیکن ہم انہیں اپنی مرضی اورسہولت سے کر سکیں۔ اگر ہم کاموں کی اس طرح تقسیم کرلیں توکام بھی ہوجائیں گے اورپریشانی بھی نہیں ہوگی۔
کندھوں اور گردن کے پٹھوں میں کھچاؤ کیوں پیدا ہوجاتا ہے؟
اس کی مختلف وجوہات ہیں جن میں بیٹھنے یا سونے کا غلط انداز، تھکن یا کوئی اعصابی مسئلہ نمایاں ہیں۔ اگریہ تھکاوٹ کی وجہ سے ہو توہلکا سا مساج ایک اچھا آپشن ہوسکتا ہے۔ اعصابی خرابی کی صورت میں علاج کے لیے متعلقہ ماہرسے رجوع کریں۔
کیاغیر متوازن غذا اعصابی نظام کو متاثرکرتی ہے؟
جی بالکل !غیرصحت بخش غذا مثلاً زیادہ شکروالی اورچکنائی سے بھرپورغذائیں موٹاپے کا باعث بن سکتی ہیں جو ذیابیطس اوربرے کولیسٹرول میں اضافے کی وجہ بنتی ہیں۔ نتیجتاً متاثرہ فرد مختلف اعصابی مسائل کا بھی شکار ہوجاتا ہے۔ وٹامن ڈی کی کمی دماغ، ریڑھ کی ہڈی اوراعصاب کو متاثر کرسکتی ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ ایسی غذائیں مثلاًمچھلی، پالک، انڈے کی زردی اور سفید پھلیاں وغیرہ کھائیں جو وٹامن ڈی سے بھرپور ہوں۔
nerves, nerve disorders, managment of epilepsy patient, difference between migraine and headache, difference between stroke and bell’s palsy
