دوران حمل اورزچگی کے بعد مائیں وزن گھٹائیں

’’پھولے نہ سمانا‘‘ اردو کا ایک محاورہ ہے جس کا مطلب کسی فرد کا خوشی کی وجہ سے اتنا پھول جانا ہے کہ اس کے لئے اپنے لباس میں سمانا مشکل ہو جائے۔کہا جاتا ہے کہ عورت کو زندگی کی سب سے بڑی خوشی ماں بننے پر ہوتی ہے۔ یوں جب خواتین حمل کے مرحلے سے گزرتی ہیں تو محاورتاً ہی نہیں‘ حقیقتاً بھی پھولے نہیں سماتیں اور انہیں اس عرصے کے لئے ذرا کھلے کپڑے سلوانا پڑتے ہیں۔
دوران حمل خواتین کا جسم پھول اور وزن بڑھ جاتا ہے۔ عام حالات میں شاید ہی کسی عورت کو یہ صورت حال پسند ہو‘ لیکن اس عرصے میں وہ اسے خوشی خوشی قبول کر لیتی ہیں‘ اس لئے کہ وہ اپنے وجود سے ایک نئے وجود کو جنم دے کر نہ صرف خود مکمل ہورہی ہوتی ہیں بلکہ انہیں دوسروں کی آنکھوں کا تارا بن جانے کی بھی امید ہوتی ہے۔اس کے ساتھ ساتھ انہیں یہ اطمینان بھی ہوتا ہے کہ یہ بڑھا ہواوزن وقتی ہے اورڈلیوری کے بعد ان کا جسم اپنی اصلی حالت میں لوٹ آئے گا۔
دیکھا گیا ہے کہ اکثر صورتوں میں ان کی یہ توقع پوری نہیں ہوتی اور ڈلیوری کے بعد ان کا بڑھا ہوا وزن کم ہونے کی بجائے مزید بڑھ جاتا ہے اور وہ چند ہی مہینوں میں لڑکی سے عورت لگنے لگتی ہیں۔
کس سہ ماہی میں کتنا وزن
اسلام آباد کی ماہر زچہ و بچہ ڈاکٹرناصرہ تسنیم کا کہنا ہے:
’’ حمل کے دوران کچھ وزن بڑھنا فطری ہے‘ اس لئے کہ خواتین کے رحم میں بچے کا سائز اور وزن بڑھ رہا ہوتا ہے لیکن اکثر صورتوں میں ان کا وزن اس سے کہیں زیادہ بڑھ جاتاہے۔ اس لئے ان کو علم ہونا چاہئے کہ حمل کے دوران ہر ماہ کتنا وزن بڑھنا فطری ہے اور اگر ان کا وزن اس سے زیادہ ہوجائے تو انہیں بروقت اپنی خوراک اورروزمرہ کی سرگرمیوں پر نظر ثانی کرنی چاہئے۔ انہیں ان عوامل کو سمجھنا چاہئے جو دوران حمل اور بعد از زچگی اس اضافی وزن کا سبب بنتے ہیں۔‘‘
اس کی وضاحت میں شفاانٹرنیشنل اسلام آباد کی ماہر غذائیات زینب بی بی کا کہنا ہے کہ حمل کے دوران عموماً9 سے 10 کلو گرام ہی وزن بڑھنا چاہئے۔اس میں بچے ، اس کی حفاظت کرنے اور نشوونما میں مدد دینے والا مائع ( amniotic fluid) ،خون اور ماں کے اپنے پٹھوں کا وزن‘سبھی کچھ شامل ہے۔

شفا انٹرنیشنل ہسپتال فیصل آباد کی ماہر زچہ و بچہ ڈاکٹر عالیہ حفیظ کا کہنا ہے کہ ماں کے وزن کا بڑھنا بچے کی نشوونما کو ظاہر کرتا ہے جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ صحت مند اور مکمل ہے یا نہیں۔ جب عورت معائنے کے لئے ڈاکٹرکے پاس جاتی ہے تو آغاز میں اس کا وزن چیک کر لیا جاتا ہے۔اس کے بعد سے اس کے وزن کا باقاعدہ چارٹ بننا شروع ہوتا ہے۔جب ان سے پوچھا گیا کہ کس سہ ماہی میں کتنا وزن بڑھنا چاہئے تو انہوں نے کہا کہ اسے تین مراحل میں تقسیم کیا جاتا ہے:
’’پہلی سہ ماہی میں وزن اندازاً ایک سے دوکلو گرام بڑھتا ہے۔ دوسری میںیہ دوکلوگرام یا اس سے بھی کم جبکہ آخری سہ ماہی میں یہ ہفتوں کے لحاظ سے مختلف شرح سے بڑھتا ہے۔ ‘‘
موٹاپے کی وجوہات
غلط اور گمراہ کن تصورات
دوران حمل خواتین کا وزن بڑھنے کی متعدد وجوہات میں سے ایک وجہ حمل اور زچگی سے متعلق ہمارے غلط تصورات بھی ہیں ۔مثال کے طور پر خواتین میں ایک تصور یہ پایا جاتاہے کہ حمل میں جتنا چاہو وزن بڑھاؤ‘ ڈلیوری کے بعد وہ خودہی ختم ہو جائے گا۔ ڈاکٹر عالیہ حفیظ کے مطابق یہ خیال بالکل غلط ہے‘ اس لئے کہ غیرمتناسب انداز سے بڑھا ہوا وزن ماں اور بچے ‘دونوں کے لئے نقصان دہ ہے۔
ان میں یہ تصور بھی بہت عام ہے کہ ماں بننے والی عورت کو ایک کی بجائے دو لوگوں کے برابر کھانا کھانا چاہئے کیونکہ اب وہ ایک جان لیکن دو قالب ہیں ۔شفا انٹر نیشنل اسلام آباد کی ماہر زچہ و بچہ ڈاکٹر غزالہ محمود کے مطابق یہ تصور بالکل غلط ہے۔ اس کے برعکس متوازن غذا متوازن مقدار میں کھانی چاہئے۔ کھانے کی مقدار کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے آغاخان ہسپتال کراچی کی ماہر غذائیات موتی خان کہتی ہیں:
’’حمل کے دوران ماں کو روزانہ 300 سے 400 کیلوریزکا اضافہ کرنا ہوتا ہے تاکہ اس کا وزن صحت مندانہ تناسب سے بڑھے۔اس کے لئے ایک پھل،ایک سلائس اور ایک گلاس دودھ کا اضافہ کافی ہے ، اس لئے کہ ان سے اتنی کیلوریز حاصل ہوجاتی ہیں جتنی ماںکوضرورت ہوتی ہیں۔اتنی غذا سے خواتین موٹاپے سے محفوظ رہتی ہیں۔‘‘
دیسی گھی اور پنجیری کا استعمال
زچگی کے بعد ہونے والے موٹاپے کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ حمل کے دوران اکثر خواتین خوب کھاتی اور بستر پر رہتی ہیں۔ یوں غذا سے حاصل شدہ توانائی استعمال نہیں ہوپاتی اور چربی میں بدل جاتی ہے ۔اس پر گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹرناصرہ کا کہنا تھا :
’’یہ درست ہے کہ دوران حمل ماں کی غذا اچھی ہونی چاہئے لیکن اس سے مراد مرغن کھانے‘ دیسی گھی یا پنجیریاں نہیں۔ اگر ان کا فائدہ ہے تو بھی اسی وقت جب ان کی اتنی ہی مقدار لی جائے جس سے حاصل ہونے والی کیلوریز معمول کی سرگرمیوں میں جلائی جا سکیں۔ بصورت دیگر یہ جسم میں چربی جمع کرنے کی وجہ بنیں گی۔ جسم میں جمع ہونے والی چربی کے اس ذخیرے کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ فطری زچگی کے امکانات کم ہوجاتے ہیں۔اس کی وجہ یہ ہے کہ بچہ دانی بنیادی طور پرایک پٹھہ ہے۔ جب اس کے گرد چربی کی تہہ جمع ہو جائے تو وہ اکڑ جاتا ہے لہٰذا نارمل ڈلیوری نہیں ہوپاتی ۔‘‘
پانی بہت کم پینا
زچگی اورخصوصاً بڑے آپریشن کے ذریعے زچگی کے بعد اکثر اوقات مائوں کوزیادہ پانی پینے سے منع کیا جاتاہے اور دلیل یہ دی جاتی ہے کہ اس سے وزن بڑھ اور پیٹ پھول جاتا ہے ۔ڈاکٹر غزالہ محمود کے مطابق’’ یہ تصور غلط ہی نہیں،جاہلانہ بھی ہے۔ خواتین کو یاد رکھنا چاہئے کہ پانی کم پینے کی وجہ سے مائوں کے دودھ میں بھی کمی واقع ہوجاتی ہے جس کی وجہ سے ان کا بچہ بھوکارہ سکتاہے۔‘‘


وزن گھٹانے کے لئے کیا کریں
شفاانٹرنیشنل فیصل آباد کی ماہر غذائیات عروج رؤف کا کہنا ہے کہ دوران حمل اور زچگی کے بعدمندرجہ ذیل باتوں پر عمل کر کے اضافی وزن سے محفوظ رہاجاسکتا ہے:
چینی ‘کم سے کم
اپنی خوراک میں چینی یا اس سے بنی اشیاء کا استعمال ہر ممکن حد تک کم کریں ‘ اس لئے کہ ان میں موجود اضافی کاربوہائیڈریٹس جسم میں چکنائی کی صورت میں جمع ہو جاتے ہیں۔یہ غیر صحت مندانہ انداز میںوزن بڑھانے کے علاوہ حمل کے دوران ذیابیطس کا بھی سبب بن سکتی ہیں۔ طب کی اصطلاح میں اسے دوران حمل ہونے والی ذیابیطس (gestational diabetes) کہتے ہیں۔
وقفے وقفے سے کھائیں
حمل کے دوران پانچ سے چھ کھانے تین گھنٹوں کے وقفے سے لینا ضروری ہیں ۔ کوشش کرنی چاہئے کہ مرغن یا مصالحے والی غذا سے پرہیز کیا جائے۔اس معمول کے لئے آپ مندرجہ ذیل ڈائٹ پلان پر عمل کریں :


باقاعدہ ورزش کو معمول بنائیں
ورزش کے ذریعے آپ وہ طاقت حاصل کرسکتی ہیں جس سے آپ حمل کے دوران بڑھنے والے بوجھ کو اٹھاسکیں اور وضع حمل کے مرحلے میں مشکلات سے بچ سکیں۔با قا عدہ و ر ز ش سے نہ صرف ذہنی تنائو میں کمی آتی ہے بلکہ وزن میں ا ضا فہ بھی نہیں ہو تا۔اس سلسلے میں شفا انٹرنیشنل اسلام آباد کی فزیوتھیراپیسٹ ارم اکبرکا کہنا ہے :
’’خواتین کو حمل کے مرحلے میں جن مسائل کا سامناکرنا پڑ سکتا ہے‘ ان میں کمردرد ، ٹانگ کی اکڑن ،پائوں کی سوجن ،وزن بڑھنا، قبض اور تھکاوٹ شامل ہیں۔ ان سے بچنے کے لئے متوازن خوراک ‘ مناسب آرام اور معالج کے مشورے سے باقاعدہ ورزش ضروری عوامل ہیں۔‘‘
یونیورسٹی آف ساؤتھ ایشیا لاہور کے اسسٹنٹ پروفیسر فزیوتھیراپی ڈاکٹرو سیم جاوید کا کہنا ہے کہ حمل کے دوران خواتین دیگر احتیاطیں تو کر لیتی ہیں لیکن ورزش کو بالعموم نظر انداز کر دیتی ہیں۔ اگر وہ اسے اہمیت دیں گی تو ان کے لئے بہت سی آسانیاں ہو جائیں گی۔ حمل کے دوران کی جانے والی ورزشوں کا مقصدماں اور بچے کو صحت مند رکھنا،وزن کو متوازن حد میں رکھنااورعورت کے لئے بچے کی پیدائش کا عمل آسان بنانا ہے ۔‘‘
ارم اکبر کے مطابق اس عرصے میں بہترین ورزش پیدل چلنا ہے:
’’ آپ چہل قدمی کے لیے ایک وقت مقرر کر لیں۔ اسے ایک یا دو حصوں یعنی صبح اور شام میں بھی تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ دن میں تقریباً 30منٹ تک اور ہفتے میں چار سے پانچ دن ضرور پیدل چلیں۔ اس بات کو اپنا معمول بنا لیں کہ دن کے کسی بھی حصے میں 10منٹ کی واک ضرورکرنا ہے۔ حاملہ خاتون کی برداشت اور ضرورت کو سامنے رکھ کر کچھ دوسری ورزشیں بھی تجویزکی جاتی ہیں۔ ‘‘
دوران حمل متوقع ماں کا جسم تنائو کا شکاررہتا ہے۔ جب بچہ ماں کے رحم سے نکل کر دنیا میں اپنی نئی زندگی کا آغاز کرتا ہے تو ماں کا جسم آہستہ آہستہ اپنی پہلے والی حالت پر آجاتا ہے۔ اگر ایسا نہیں ہورہا تو انہیں چاہیے کہ کوئی غیر صحت مندانہ تدبیر اختیار کرنے کی بجائے متوازن غذا اور باقاعدہ ورزش سے اسے معمول پر لانے کی کوشش کریں ۔

Vinkmag ad

Read Previous

شادی اور حمل تاخیر کی پیچیدگیاں

Read Next

کم بیٹھیں ‘چست رہیں کرسی ‘ نادان دوست

Leave a Reply

Most Popular