دودھ کا دودھ‘ پانی کا پانی

    ” دودھ کا جلا چھاچھ بھی پھونک پھونک کر پیتا ہے۔“ اردو کے اس معروف محاورے کا پس منظر یہ ہے کہ جس شخص کا منہ زیادہ گرم دودھ پینے سے جل جائے‘ وہ اس قدر محتاط ہوجاتا ہے کہ لسی کو بھی پینے سے پہلے پھونکیں مار کراسے ٹھنڈا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ دودھ میں ملاوٹ کے مسئلے نے بھی آج کل لوگوں کو مختلف خدشات میں مبتلا کر رکھا ہے اور جب دودھ کا گلاس ان کے سامنے آتا ہے تو وہ اسے دیکھ کر پریشان ہوجاتے ہیں۔ ایک وقت تھا جب گوالے دودھ میں پانی ملانے کی وجہ سے بہت بدنام تھے لیکن آج کل اس میں ملاوٹ کی ایسی ایسی خبریں میڈیا پر آ رہی ہیں کہ لوگ دل تھام کر رہ جاتے ہیں۔ پشاور میں واشنگ پاﺅڈرکی مدد سے جعلی دودھ کی تیاری اورپھر اسے تیار کرنے والوں کی گرفتاری کے مناظر بھی ٹی وی چینلز پر دکھائے گئے۔ ایسے میں اب تو یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ اگر دودھ میں صرف پانی کی ملاوٹ ہو تو اسے غنیمت جاننا چاہئے۔

دودھ میں ملاوٹ کے تناظر میں ایک درخواست بھی سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے۔ ہمیںامید رکھنی چاہئے کہ وہ اس بارے میںکوئی ایسا فیصلہ کرے گی جس سے اردو محاورے کے مطابق نہ صرف ”دودھ کا دودھ‘ پانی کا پانی“ہو جائے گا بلکہ لوگوں کو صرف کاغذوں میں نہیں‘ حقیقت میںبھی مضرصحت دودھ سے نجات مل سکے گی۔
دودھ ایک ایسی غذاءہے جس کی ضرورت ننھے سے لے کر بزرگ افراد تک‘ سبھی کوہوتی ہے۔ اسی لئے اس کا استعمال ہر ملک اور معاشرے میں بہت زیادہ ہوتا ہے لیکن ہمارے ہاں چائے زیادہ پئے جانے کے رجحان کی وجہ سے صورت حال کچھ ایسی ہے کہ یہاں اس کے بغیر زندگی کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ ہمارا ملک دنیابھر میں دودھ کی پیداوار کے حوالے سے چوتھا بڑا ملک ہے۔ یہاں دودھ دینے والے جانوروں کی تعداد تقریباً 63لاکھ ہے جن سے سالانہ 35 سے40 ارب لیٹر دودھ مہیا ہوتا ہے۔ اس کے باوجود اگر یہاں کے باشندے آلودہ ‘ملاوٹ سے بھرپور حتیٰ کہ جعلی دودھ پینے پر مجبورہوں تو اسے بدقسمتی ہی کہا جا سکتا ہے۔ایک ہیلتھ میگزین کے طور پرشفانیوز کی ذمہ داری ہے کہ اپنے قارئین کو اس معاملے کے مختلف پہلوﺅں سے آگاہ کرے ۔

دودھ‘ کیوں ضروری
ملاوٹ پر گفتگو سے قبل اہم سوال یہ ہے کہ دودھ انسانی زندگی کے لئے اتنا اہم کیوں ہے۔ شفا انٹر نیشنل ہسپتال اسلام آباد کی ماہرغذائیات زینب بی بی اس کے جواب میں کہتی ہیں:
”دودھ میں تین بنیادی اجزاءپروٹین،فاسفورس اور کیلشیم پائے جاتے ہیں ۔ یہ تینوں اجزاءہمارے جسم کی نشوونما میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔ مزید براں اس میں پائی جانے والی پروٹین کی حیاتیاتی قدر بہت اعلیٰ ( high biological value) ہے یعنی ہضم ہونے کے دوران اس کے ضائع ہونے والے اجزاءکم بنتے ہیں۔دودھ‘ زخموں کو مندمل کرنے اور بیماریوں کے خلاف قوت مدافعت بڑھانے میں بھی اہم کردادر ادا کرتا ہے۔“

ان کے بقول فاسفورس اور کیلشیم ہمارے جسمانی ڈھانچے کے بڑھنے کے لئے نہایت ضروری اجزاءہیں ۔ اس لئے ان کے بغیر بڑھتی عمر کے بچوں کی صحیح نشو ونما ممکن نہیں۔ دودھ بڑھاپے میں بھی جسمانی ڈھانچے کو مضبوط اور ہڈیوں کی مختلف بیماریوں مثلاً ان کے کمزور ہونے یابھر بھرے پن وغیرہ سے محفوظ رکھتا ہے۔
اس وقت دودھ دو شکلوں میں انہیں استعمال کرنے والوں تک پہنچتا ہے۔اس کی پہلی شکل کھلا دودھ ہے جو گوالے دودھ دہی کی دکانوں تک پہنچاتے ہیں۔ یہ دودھ کی کل پیداوار کا 93فی صد ہے یعنی ملک کی اکثر آبادی اسے ہی استعمال کرتی ہے۔ دوسری قسم ڈبوں میں بند دودھ ہے۔
دودھ میں ملاوٹ کی شرح کا اندازہ اس زبان زدعام جملے سے لگایا جا سکتا ہے ’ کہ خالص دودھ تو صرف گائے‘ بکری یا بھینس کے بچوں کو ہی نصیب ہوتا ہے۔‘ تاہم حقیقت یہ ہے کہ وہ بھی اب اس سے محروم ہیں‘ اس لئے کہ زیادہ دودھ حاصل کرنے کے لالچ میں ایسے طریقے استعمال کئے جاتے ہیں کہ گایوں اور بھینسوں کا دودھ ان کے اپنے بچوں کے لئے بھی خالص نہیں رہتا۔
ملاوٹیں
دودھ میں زیادہ عام ملاوٹیں درج ذیل ہیں:

ہارمونز کے انجکشن
میڈیا رپورٹوں‘ گوالوں اور ماہر ین غذائیات سے گفتگوﺅں کی روشنی میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ گوالے زیادہ مقدار میں اور جلدی دودھ حاصل کرنے کے لیے اپنی بھینسوں کو ہارمونز کے ٹیکے لگاتے ہیں۔ شفا انٹرنیشنل ہسپتال کی ماہرامراض زچہ وبچہ ڈاکٹر غزالہ محمود کے مطابق یہ وہ ٹیکے ہیں جو خواتین کو زچگی کے بعد خون بہنے سے روکنے کے لئے لگائے جاتے ہیں :
”ہارمونز کے یہ ٹیکے بھینس کو نہیں لگانے چاہئےں‘ اس لئے کہ یہ ہارمونز اس کے جسم میں رہ نہیں پاتے لہٰذا اس کے دودھ کے ذریعے انسانی جسم میں شامل ہوکر سرطان زدہ خلیوں کی تشکیل کا موجب بنتے ہیں۔ایسی بھینسوں کا دودھ انسانی جسم میں ہارمونز کے توازن میں بگاڑ کا باعث بھی بنتا ہے۔ ان ہارمونز کی وجہ سے بھینس کے دودھ میں چربی کی مقدار بڑھ جاتی ہے جو موٹاپے سمیت کئی طرح کے مسائل کا سبب بنتی ہے۔“
یہ ٹیکے سستے ہونے کے علاوہ نہایت آسانی سے بازار میں دستیاب ہیں۔ان کی وجہ سے بھینس کے دودھ کی مقدار میں 20 سے 30 فی صد اضافہ تو ہوجاتا ہے لیکن یہ انسانی جسم کےلئے نقصان دہ ہے۔

دودھ میں پانی
دوددھ کی مقدار میں اضافے کے لئے گوالے دودھ میں پانی ملا دیتے ہیں۔ اگر یہ پانی صاف ہو تواسے پینے والے کو صرف اتنا نقصان ہوگا کہ اسے دودھ کی مقدار کم ملے گی اور آلودہ ہونے کی صورت میں پیٹ کی مختلف بیماریوں کا باعث بنتا ہے۔
میاں چنو ںکی ایک تجربہ کار گوالن سے دریافت کیا گیا کہ دودھ میں ملاوٹوں کا پتا کیسے چلایا جا سکتا ہے ؟جواباً انہوں نے بتایا کہ اس میں پانی کی ملاوٹ جانچنے کے دو آسان طریقے ہیں۔ پہلا تو مارکیٹ میں دستیاب لیکٹومیٹر(lactometer) کا استعمال ہے جو ملاوٹ کی نشاندہی کر دیتا ہے۔ اگر یہ موجود نہ ہو تو دودھ کے کچھ قطرے ڈھلوان سطح پرگرائیں۔ اگر وہ بہتے ہوئے سفید لکیر چھوڑ جائے تواس کا مطلب یہ ہے کہ وہ خالص ہے اور اگر ایسا نہ ہو تو یہ اس بات کی علامت ہے کہ اس میں پانی کی ملاوٹ کی گئی ہے۔ “

واشنگ پاﺅڈر کی ملاوٹ
مختلف مشینوں کے ذریعے دودھ سے کریم(بالائی) نکال لی جاتی ہے جس سے مکھن اور دیسی گھی تیار کر کے بیچ دیا جاتا ہے۔ اس کے نکل جانے کے بعد دودھ پتلا ہو جاتاہے جسے دور کر نے کے لئے اس میں واشنگ پاﺅڈر ملا دیا جاتا ہے۔ اس سے نہ صرف دودھ گاڑھا ہوجاتا ہے بلکہ اس میں جھاگ بھی پیدا ہوجاتی ہے۔ یہ دودھ ذائقے میں کڑوا ہوجاتا ہے۔ اس کڑواہٹ کو ختم کرنے کے لیے اس میں بیکنگ سوڈا ڈالا جاتاہے جو دودھ کو ذائقہ دار بنانے کے علاوہ اس میںچمک بھی پیدا کر دیتا ہے۔ اس ملاوٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے زینب کا کہنا ہے:
”ایک چیز(واشنگ پاﺅڈر) جو گند گی صاف کرنے کے لئے استعمال کی جاتی ہے‘ اگر پی لی جائے تو اس کے یقیناً مضر اثرات ہوں گے ۔ خون آکسیجن لینے کے لئے پھیپھڑوں میں بھی جاتا ہے۔ اگر اس میں واشنگ پاﺅڈر شامل ہو گا تو یہ پھیپھڑوں کی اندرونی سطح پر جم کرسانس کے مسائل پیدا کرے گا۔یہ ہمارے معدے کی اندرونی جھلی کو بھی ناقابل تلافی نقصان پہنچا سکتا ہے ۔“
اس کی ملاوٹ جاننے کا آسان طریقہ یہ ہے کہ دودھ کا ایک قطرہ اپنے انگوٹھے اور شہادت کی انگلی کے درمیان مسلیں۔ اگر اس میں صابن جیسی جھاگ نمودار ہو یا اس سے پاﺅڈر کی بو آئے تو سمجھ لیں کہ اس دودھ میں اس کی ملاوٹ کی گئی ہے۔ اس کا دوسرا طریقہ یہ ہے کہ ایک نلی یا چھوٹی بوتل میںایک کھانے کا چمچ دودھ اوراتنا ہی پانی ڈال کرہلکا ہلکا ہلائیں۔ اگر جھاگ اوپر آجائے تو اس میں واشنگ پاﺅڈر کی ملاوٹ یقینی ہے۔

دکانوں پر ملاوٹیں
پنجاب فوڈ اتھارٹی راولپنڈی کے فوڈ سیفٹی آفیسر عدنان کا کہنا ہے کہ گوالوں سے یہ دودھ جب دکانوں پر آتا ہے تو اسے خراب ہونے سے بچانے کے لئے اس میں تحفظی مادے (preservatives) مثلاً یوریا کھاد‘ ہائیڈروجن پر آکسائیڈ‘ سٹارچ اور فارملین وغیرہ شامل کر دئیے جاتے ہیں۔ اس کے بعد یہ دودھ ہوٹلوں‘ چائے خانوں‘ ریستورانو ں اور سٹورز کے علاوہ مٹھائیاںاور بسکٹ بنانے والے کارخانوں تک پہنچتا ہے۔ جب یہ دودھ ہمارے ہونٹوں تک پہنچتا ہے تو اس میں کم و بیش 20 کیمیکلز شا مل ہوچکے ہوتے ہیں۔”ان تحفظی مادوں کا استعمال زیادہ تر گرم موسم میں کیا جاتا ہے۔ آج کل چونکہ شدیدسردی پڑ رہی ہے اور صبح کے وقت تو درجہ حرارت نقطہءانجماد سے بھی نیچے گر جاتا ہے لہٰذا آج کل دودھ میں زیادہ تر پانی ہی کی ملاوٹ دیکھنے میں آرہی ہے۔“
جب ان سے پوچھا گیا کہ اس کی روک تھام کے لئے آپ کیا کرتے ہیں تو انہوں نے کہا:” ہم شہر کی حدود کے آغاز پر ناکے لگاتے ہیں اور اپنی موبائل لیبارٹری کی مدد سے تمام گوالوں کا دودھ اسی وقت ٹیسٹ کرتے ہیں۔ اگر اس میں ملاوٹ ہو تو ہم اسے وہیں ضائع کر دیتے ہیں۔ان سے سوال کیا گیا کہ اس کے باوجود دودھ میں اتنی ملاوٹ کیوں ہے تو وہ اس کا کوئی تسلی بخش جواب نہ دے سکے۔

 ڈبہ بند دودھ میں ملاوٹیں
میڈیا رپورٹس کے مطابق اس دودھ یعنی ” ٹیٹراپیک©©“ کو ڈبوں میں بند کرنے سے پہلے 135 ڈگری سینٹی گریڈ تک ابالا جاتا ہے۔ اس میں سے بالائی نکالنے کے بعد جب یہ پتلا ہو جاتا ہے تو اس میں خشک دودھ‘ پام آئل اور ویجی ٹیبل آئل ملایا جاتا ہے۔
ڈبوں میں بند دودھ میں جس ملاوٹ کا سب سے زیادہ چرچا ہے‘ وہ اس میں اس مادے(فارملین) کی ملاوٹ ہے جو نعشوں کو محفوظ رکھنے کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ اس حوالے سے جب ”پاک ڈیری ایسوسی ایشن“ کے سیکٹری جنرل فرخ شہزاد سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے کہا:”دودھ، ڈبے میں بند ہونے تک 26مختلف قسم کے ٹیسٹوں سے گزرتا ہے جس کے بعد اس میں کسی ملاوٹ کا امکان باقی نہیں رہتا۔ مزید براں ڈبوں میں بند دودھ میں کوئی تحفظی مادے استعمال نہیں ہوتے۔ یہ مادے صرف چھ تہوں والے گتے کے ڈبوں میں استعمال ہوتے ہیں جو اسے روشنی سے محفوظ رکھ کر زیادہ مدت تک استعمال کے قابل بناتے ہیں۔“
یہ وہ معاملہ ہے جس پر ماہرین اور فوڈ اتھارٹی ہی کوئی فیصلہ کر سکتی ہے۔ مقدمہ چونکہ عدالت میں ہے‘ اس لئے اس کے فیصلے کا انتظار کرنا چاہئے ۔ وہی بتا سکے گا کہ کس کی بات کس حد تک ٹھیک ہے ۔

 چیدہ چیدہ نکات
گفتگو کو سمیٹتے ہوئے درج ذیل نکات اہم ہیں:
٭دودھ غذا کا انتہائی اہم جزو ہے جو بچوں‘ بڑوں ‘ بزرگوں اور خواتین‘ سب کی بنیادی ضرورت ہے۔ اس لئے اس کا خالص ہونایقینی بنانے کے لئے حکومت کا فرض ہے کہ اس پر مو¿ثر قانون سازی کرے جس میں ملاوٹ کو سنگین جرم قرار دیا جائے اور پھرقانون پر سختی سے عمل کیا جائے۔
٭شہروں کی فوڈ اتھارٹیز کے پاس دودھ کی کوالٹی چیک کرنے کا انتظام ہوتا ہے اور راولپنڈی فوڈ اتھارٹی کے فوڈ سیفٹی آفیسر کا کہنا ہے کہ اگر کوئی شخص ان کے پاس دودھ لائے تو وہ اسے مفت ٹیسٹ بھی کر دیتے ہیں۔یقیناً باقی شہروں میں بھی یہ سہولت دستیاب ہوگی جس سے فائدہ اٹھانا چاہئے۔ اور اگر ایسا نہ ہو‘تو بھی یہ ٹیسٹ کروانا چاہئے، اس لئے کہ زندگی اور صحت سے بڑھ کر کوئی چیز اہم نہیں۔
٭لوگوں کو چاہئے کہ وہ صارفین کی تنظیمیں بنائیں اور اپنے حقوق کے لئے موثر اور منظم طور پر آواز اٹھائیں ۔ یہی وہ طریقہ ہے جس سے گوالوں‘ دکانداروں‘ ڈیری ایسوسی ایشنز‘ فوڈ کنٹرول اتھارٹیز اورمختلف حکومتوں کو اپنا کام ٹھیک طرح سے کرنے پر آمادہ اور مجبور کیاجا سکتا ہے۔

Vinkmag ad

Read Previous

معدے میں کس نے جھانکا—تحقیق اور قربانی کی ایک داستان

Read Next

Most Popular