چھوٹے سر والے بچے

ایک دفعہ گجرات میں ’’شاہ دولے‘‘ کے مزار پر جانے کا اتفاق ہوا۔ کیا عجیب منظر تھا۔ مزار کا احاطہ ہزاروں زائرین سے بھرا ہوا تھا اور ابھی مزید لوگ جوق در جوق آرہے تھے۔ احاطے کے اندر اور اس کے اردگرد چھوٹے چھوٹے سروں والے بہت سے بچے چل پھر رہے تھے۔ مقامی لوگ انہیں چوہے کہتے ہیں اور عرف عام میں وہ دولے شاہ کے چوہے کہلاتے ہیں۔

وہ جھولیاں پھیلائے ہوئے تھے جن میں لوگ پیسے ڈالتے جاتے تھے۔ کچھ لوگ ان سے دعا کے لئے بھی کہہ رہے تھے۔ بے اولاد جوڑے خصوصی طور پر ان سے دعا کراتے ہیں۔ ان بچوں سے متعلق مختلف قسم کی کہانیاں مشہور ہیں۔

ایک کہانی کے مطابق جو خواتین اولاد کی خواہش لئے یہاں دعا کے لئے آئیں ان کے ہاں پہلا بچہ ’’چوہا‘‘ یعنی چھوٹے سر والا پیدا ہوا۔ وہ اسے روحانی مقاصد کے لئے مزار پر چھوڑ گئیں جس کے بعد انہیں صحت مند اولاد بھی عطا ہوئی۔ کچھ خواتین انہیں بوجھ سمجھ کر بھی وہاں چھوڑ جاتی تھیں۔

ایک اور روایت یہ ہے کہ ان بچوں کے سروں کو جان بوجھ کر چھوٹا بنایا جاتا ہے تاکہ وہ دولے شاہ کے چوہے بن سکیں۔ اس مقصدکے لئے پیدائش کے وقت سے ہی ان کے سر پر لوہے کا خول چڑھا دیا جاتا ہے۔ اس طرح کی اور کہانیاں بھی بیان کی جاتی ہیں لیکن ان کی حقیقت کے بارے میں یقین سے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔

19ویں صدی کے وسط میں یورپی ڈاکٹروں کی ایک ٹیم گجرات آئی۔ اس نے ان بچوں پر باقاعدہ تحقیق کی اور لوگوں کو بتایا کہ ان کے سر کا چھوٹا سائز کسی روحانی یا مافوق الفطرت وجہ سے نہیں بلکہ یہ ایک طبی حالت ہے۔ اسے مائیکروسیفلی کہا جاتا ہے۔

مائیکروسیفلی ہے کیا

یہ ایسی طبی کیفیت ہے جس میں بچے کے سر کا سائز ہم عمر بچوں کی نسبت نمایاں طور پر کم ہوتا ہے۔ رحم مادر میں جسم کے دیگر اعضاء کی طرح دماغ کی بھی نشوونما ہوتی ہے۔ دماغ جب بڑا ہوتا ہے تو سر کا سائز بھی بڑھتا ہے۔ اگر کسی وجہ سے دماغ کا سائز مناسب حد تک نہ بڑھے یا پیدائش کے بعد اس کی نشوونما رک جائے تو یہ مرض پیدا ہو جاتا ہے۔ سادہ الفاظ میں دماغ کی نامکمل نشوونما اس کا باعث بنتی ہے۔

ایک اندازے کے مطابق دنیا بھر میں 30,000 سے 250,000 بچوں میں سے ایک، امریکہ میں 5000 سے 6000 میں سے ایک جبکہ پاکستان میں ہر 10,000 میں سے ایک بچہ اس کا شکار ہوتا ہے ۔پاکستان میں اس مرض کے زیادہ ہونے کے اسباب خاندانوں میں شادیوں کا تسلسل اور دوران حمل خواتین کا معالج سے کم رابطہ رکھنا ہے۔

علامات اور وجوہات

کراچی سے تعلق رکھنے والے ماہر دماغی و اعصابی امراض (نیورولوجسٹ) ڈاکٹر مبارک زیدی کے مطابق ان بچوں میں مرگی ‘ سیریبرل پالسی، سیکھنے کی صلاحیت میں شدید کمی، نظر کی کمزوری اور نشو ونما میں تاخیر کی شکایات پائی جا سکتی ہیں۔ بعض صورتوں میں سر کے علاوہ بچہ بالکل نارمل ہوتا ہے۔

پیدائش کے وقت یہ بچے دوسرے بچوں کی مانند لگتے ہیں تاہم وقت کے ساتھ ساتھ ان میں تبدیلیاں آنے لگتی ہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ ان کے چہرے کا سائز تو بڑھتا ہے مگر کھوپڑی نہیں بڑھ پاتی۔ اس کے باعث چہرہ بڑا اور پیشانی چھوٹی ہو جاتی ہے۔

ملتان سے تعلق رکھنے والے نیورولوجسٹ ڈاکٹر اکبر رانا کے مطابق اس کے بہت سے اسباب میں سے ایک نمایاں سبب حمل کے دوران انفیکشن ہونا ہے۔ اس مرض کا تعلق روبیلا یعنی جرمن خسرہ، چکن پاکس اور سائٹومیگالو وائرس کے ساتھ بھی ہو سکتا ہے۔ اس کی ایک وجہ نشوونما کے دوران دماغ کو مناسب مقدار میں خون نہ پہنچنا بھی ہو سکتی ہے۔ شدید قسم کی غذائی کمی بھی اس کا سبب بن سکتی ہے۔ دوران حمل زہریلے کیمیائی مواد کے ساتھ ربط، منشیات کا زیادہ استعمال ،دوران حمل ایسی چوٹ جس نے جنین کے دماغ کو متاثر کیا ہو اور زیکا وائرس بھی اس کا سبب بن سکتے ہیں۔

تشخیص اور علاج

ڈاکٹر اکبر رانا کہتے ہیں کہ اس کی تشخیص کافی مشکل ہوتی ہے۔ دوران حمل خصوصاً دوسری سہہ ماہی کے اختتام پر الٹراساؤنڈ کی مدد سے اگرچہ تشخیص ممکن ہے تاہم زیادہ تر صورتوں میں وہ بعد از پیدائش ہی ہوتی ہے۔ اگر زچگی ہسپتال میں ہو تو پیدائش کے 24 گھنٹے کے اندر بچے کے سر کی پیمائش کی جاتی ہے۔ اگر گھر میں ہوئی ہو تو اس کا اہتمام کرنا چاہئے۔ بعض صورتوں میں ایم آر آئی بھی تجویز کیا جاتا ہے۔

اس مرض کی دو حالتیں ہیں جن میں سے ایک معمولی اور دوسری شدید ہے۔ معمولی میں سر کا سائز چھوٹا ہونے کے علاوہ کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہوتا۔ جب یہ بچے ڈاکٹر کے پاس جاتے ہیں تو وہ ان کے سر کی نشوونما مانیٹر کرتے ہیں۔ اگرمرض شدید ہو توا س سے جو مسائل جنم لے سکتے ہیں ان میں جھٹکے لگنا ، نشوونما میں تاخیر، بولنے ، نگلنے، سوچنے اور توازن برقرار رکھنے کی صلاحیت میں کمی اور سماعت یا نظر کی کمزوری شامل ہیں۔ ایسی صورت میں علاج مرض کے مطابق کیا جاتا ہے۔

آج کل سیاست میں مذہبی کارڈ کھیلنے کی بات اکثر کی جاتی ہے۔ اس اصطلاح کا مطلب مذہب کا کسی خاص مقصد کے لئے استعمال کرناہے ۔ کچھ عناصر مذہب کے ساتھ لوگوں کی وابستگی، ان کے تواہمات اور کمزوریوں کا فائدہ اٹھا کر ان کا مالی استحصال کرتے ہیں۔

تتلیاں بچوں کو بہت پسند ہوتی ہیں اورخصوصی بچے ان تتلیوں کی مانند ہوتے ہیں جن کے پر ٹوٹے ہوتے ہیں۔ اس کے باوجود وہ  دیگر بچوں کی طرح خوبصورت ہیں۔ انہیں اپنے ساتھ ایسے لوگوں کی ضرورت ہوتی ہے جو ان کے پر بن سکیں۔ ہمیں ان سے نفرت نہیں، پیار کا رویہ رکھنا ہے اور انہیں ہر طرح کے استحصال سے بچانا ہے۔

 Microcephaly in children, children with a small head chotay sar walay bachay, shahdolay kon hain, shahdolay

Vinkmag ad

Read Previous

پیشاب کی نالی میں انفیکشن

Read Next

تھکاوٹ کی شدت ازخود جانچئے

Leave a Reply

Most Popular