Vinkmag ad

الرجی جانئے ‘پہچانئے ‘بچئے

    قدرت نے ہمارے جسم میںخاص طرح کا دفاعی نظام تشکیل دے رکھا ہے جو باہر سے جسم میں داخل ہونے والی کسی بھی چیز کے خلاف ردعمل ظاہر کرتا ہے۔ یہ نظام اگرچہ ہمارے تحفظ کے لئے ہے لیکن الرجی کی صورت میں اس کی ایک شاخ یا اینٹی باڈی ’آئی جی ای‘ اس شے یعنی الرجن کے خلاف تبدیل شدہ انداز میں خطرناک طور پر متحرک ہو جاتی ہے۔ اسی کو ہم الرجی کہتے ہیں۔

الرجی اور انفکشن میں فرق
انفیکشن جاندار چیزوں مثلاً وائرس، بیکٹیریااور فنگس وغیرہ کے جسم میں داخل ہونے کی وجہ سے ہوتا ہے جبکہ الرجی بے جان چیزوں سے ہوتی ہے۔ یہ کھانے پینے کی چیزوں، رنگ، چمڑے، دھات‘ سیمنٹ، گرد، دھوئیں اورپلاسٹک سمیت کسی بھی چیزسے ہو سکتی ہے۔ بعض اوقات یہ زندہ چیزوں سے بھی ہوجاتی ہے لیکن اس کی شرح بہت ہی کم ہے، اس لئے ان کا تذکرہ نہیں کیا جاتا۔

اگر ناک، کان ، گلے، جلد، آنکھوں اور معدے میں کوئی مسئلہ بار بار اور سال کے کچھ مہینوںیا موسموں میں زیادہ ہوجاتا ہو اور اس کے ساتھ بخار نہ ہو تو اسے الرجی سمجھنا چاہئے۔ مثلاًاگر کسی کی ناک مسلسل بہتی ہو اوراسے بخار نہ ہوتاتو اس بات کے بہت زیادہ امکانات ہیں کہ یہ انفلوئنزا نہیں بلکہ الرجی ہے۔ الرجی میں عام طور پر بخار نہیں ہوتا تاہم جب باقی علامات ظاہر ہو جاتی ہیں تو بیکٹیریا وغیرہ کو بھی موقع مل جاتا ہے۔ یوں یہ انفیکشن کا باعث بھی بن جاتی ہے۔

تشخیص اور علاج
بالعموم مریض کو علم ہوتا ہے کہ فلاں موسم یا ماحول میں اسے کچھ علامات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جب وہ ڈاکٹر کے پاس آتا ہے تو اس کی علامات، گھر کا ماحول، کام کاج کی نوعیت اور کچھ دیگر عوامل کو دیکھتے ہوئے وہ کچھ ٹیسٹ تجویز کرتا ہے۔ مثلاً اگر اسے فروری، مارچ اپریل میں ہی مسئلہ ہوتا ہے تو اسے پولن الرجی ہو سکتی ہے۔ پولن چونکہ صرف شہتوت کا نہیں ہوتا، اس لئے ڈاکٹر اس ماحول کو بھی دیکھے گاجس میں وہ رہتا ہے۔ لہٰذا ضروری ہے کہ لوگ خود اندازہ لگانے کی بجائے ڈاکٹر کو بتائیں کہ ان کے خیال میں انہیں فلاں چیز سے الرجی ہے۔ ڈاکٹر ہی اس کی تصدیق یا تردید کرے گا۔

جب یہ ثابت ہو جائے گا کہ مریض کو فلاں الرجی ہے تو ڈاکٹر اس کا باعث بننے والے الرجن سے اس کی حساسیت کو ختم کر دے گا۔ وہ اسے ایسے انجیکشن لگائے گا جس سے الرجن بھلے موجود رہے لیکن جسم اس کے خلاف مخصوص ردعمل ظاہر نہیں کرپائے گا۔ مثلاً ایک مریض میں مخصوص ’آئی جی ای‘کی پیداوار زیادہ ہے۔ ڈاکٹر کا کام اسے کم کرنا، اس کی فطرت کو بدلنا اور ایسی اینٹی باڈیز پیدا کرناہے جو اسے بلاک کر دےں۔

فرض کریں کہ ایک الرجن آپ کے ناک میں داخل ہوا جس سے آپ کو بہت زیادہ چھینکیں آتی ہیں۔ آپ نے کچھ دوائیں کھائیں جن سے علامات تو دور ہو گئیں لیکن جو چیز آپ کے ناک کی سوجن کا باعث بنی، وہ تو اندر ہی موجود ہے۔ الرجی سپیشلسٹ انجیکشن کے ذریعے اسی الرجن کی تھوڑی سی مقدار آپ کے جسم میں ایسی جگہ مثلاً بازو میں داخل کرے گا جہاںسے آپ چھینک نہیں سکتے۔ جسم کا مدافعتی نظام اسے بیرونی مداخلت کار سمجھ کر اٹھا لے گا۔ اسے وہاں سے اٹھانا اور ناک کی جگہ پرمخصوص ردعمل ظاہر کروانا دو مختلف چیزیں ہیں۔ ڈاکٹر آہستہ آہستہ اس کی ڈوز بڑھاتا جائے گا اور الرجنز کو اس سطح پر لے آئے گا کہ وہ ناک والی جگہ سے بڑھ جائےں گے۔ اس طرح اسے چھینکیں آنا بند ہو جائیں گی۔ الرجی کو جڑ سے نہیں اکھاڑا جا سکتا تاہم اس کے ردعمل کو بڑی حد تک قابو کیا جا سکتا ہے۔

زیادہ عام الرجیز
ہمارے ہاں پولن الرجی بہت عام ہے جو راولپنڈی اسلام آباد میں اتنی زیادہ ہے کہ لوگ صرف اسی کو الرجی سمجھنے لگے ہیں۔ اسلام آبادمیںتقریباً ایک لاکھ لوگوں کو فروری، مارچ اور اپریل کے مہینوںمیں یہ ہوجاتی ہے۔ اس کی وجہ شہتوت کے درخت ہیں جو بہت بڑی تعداد میںیہاں موجودہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس کے پولن جتنے زیادہ اسلام آباد میں ہیں، اتنے دنیا کے کسی ملک میں نہیں۔ گندم کی کٹائی کے موسم میں ہونے والی الرجی پولن کی وجہ سے نہیں بلکہ گندم کے اندر اُگے ہوئے ایک فنگس کی وجہ سے ہوتی ہے ۔اس کے علاوہ گندم کی اپنی گرد ہوتی ہے اور اس سے بھی الرجی ہوسکتی ہے۔

ہمارے ہاں گھر کے گردو غبار اور اس میں موجود ایک کیڑے (dust mite)سے ہونے والی الرجی سب سے عام ہے۔ یہ کیڑا انسانی کھال کے مردہ خلئے کھاتا ہے۔ جب یہ مر جاتا ہے تو اس کے اعضاءہوا میں شامل ہوجاتے ہیں۔ اس الرجی کے شکار لوگوں کو چاہئے کہ گردو غبار کو حتی الامکان اپنے ارد گرد سے ہٹائیں‘ گھر میں قالین مت بچھائیں ، کتابوں وغیرہ پراسے جمع نہ ہونے دیں، ڈبوں، کپڑوں اور کھلونوں وغیرہ کو صاف ستھرارکھیں۔

موسمیاتی الرجی کی ویکسین
جن لوگوں کو خالصتاً موسمیاتی الرجی ہو، انہیں وہ موسم شروع ہونے سے پہلے ہی اس کی ادویات استعمال کرنا شروع کر دینا چاہئے۔ واضح رہے کہ یہ ان لوگوں کی بات ہے جنہیں مخصوص علامات کا سامناہر سال کرناپڑتا ہو۔ پولن الرجی کے شکار افراد کو چاہئے کہ بالخصوص اس کے موسم میں باہر کم جائیں، دن میں دو دفعہ شاور لیں، کپڑے باہردھوپ میں نہ لٹکائیں ورنہ ان پر پولن لگ جائیں گے۔ اگر وہ اس طرح کی احتیاطیں کر لیں تو ان کایہ موسم اچھاگزر جائے گا۔

Vinkmag ad

Read Previous

کھیلیں ضرور‘ مگر جان سے نہیں

Read Next

نیند کی روٹھی دیوی

Most Popular