بندھن اولاد کا محتاج کیوں
شادی ‘ زندگی کے ایک نئے سفر کا آغاز اور اس عہد کا عنوان ہوتی ہے کہ میاں بیوی عمر بھر ایک دوسرے کا ساتھ نبھائیں گے ۔ یہ عہد غیر مشروط ہوتا ہے لیکن کچھ عرصے بعد اولاد کے ساتھ مشروط ہونا شروع ہو جاتا ہے ۔ اگر اولاد نہ ہو تو میاں بیوی، خصوصاً بیوی کو اس کی بھاری قیمت ادا کرنا پڑتی ہے ۔ اس کی وجہ سے پیدا شدہ عملی، نفسیاتی اور سماجی مسائل کا احاطہ کرتی ناجدہ حمید کی ایک معلومات افزاء تحریر
’’اولاد نہ ہونے پر سسرال والوں کے طعنے اور دکھ بھری باتیں سن کر بہت افسوس ہوتا ہے۔ مجھے سمجھ نہیں آتی کہ انہیں کیسے سمجھایا جائے کہ ہمیں ہمارے حال پر چھوڑ دیں ۔‘‘ شفا نیوز کواپنی روداد سناتے ہوئے راولپنڈی کی شہری 36 سالہ شاہین کی آنکھوں میں آنسو امڈ آئے۔ انہوں نے اپنی کہانی کی تفصیل کچھ اس طرح بتائی:
’’شادی کے دو سال گزرنے کے باوجود جب اولاد نہ ہوئی تو میں اور میرے شوہر فکر مند ہو گئے۔ اِدھر گھر والوں میں بھی چہ مگوئیاں شروع ہو گئیں۔ مجھے اولاد نہ ہونے کے طعنے ملنا شروع ہوگئے اور بعض باتیں توایسی ہوتیں کہ دل پر چھریاں سی چلتی محسوس ہوتیں۔
بالآخر ہم علاج کی طرف متوجہ ہوئے ۔ سب سے پہلے میرے ٹیسٹ ہوئے جو کلیئر آئے۔ اس کے بعد ڈاکٹر نے مجھے شوہر کا چیک اَپ کروانے کو کہا۔وہ اس پر تیار ہو گئے ۔ لیبارٹری ٹیسٹ سے معلوم ہوا ان میں کوئی طبی مسئلہ ہے جس کے باعث ہماری اولاد نہیں ہو سکتی۔ ہمیں بتایا گیا کہ اس کا واحد حل ٹیسٹ ٹیوب بے بی ہے ۔ یہ بہت مہنگا تھا لہٰذا ہم دونوں نے ایک دوسرے کی ڈھارس بندھائی اوراسے اللہ کی مرضی سمجھ کر صبر کرنے لگے۔
جب میرے شوہر نے ا پنی رپورٹ کے متعلق گھر والوں کو آگاہ کیا تو تقریباً سبھی نے یہ بات ماننے سے انکار کر دیا اور مجھے ہی اس کا قصور وار ٹھہرانے لگے۔ اس کے بعد میرے لیے ایک نئے دور کا آغاز ہو گیا جس میں اگلے 10 سال گزر گئے۔ تقریباً ڈیڑھ سال پہلے میرے کزن نے ہمیں اپنی بیٹی گود دی ہے ۔اس کے آنے سے ہم دونوں کی زندگی میں نہ صرف رونق آگئی ہے بلکہ ہم خوش اور مطمئن بھی ہیں ۔ سچ بات یہ ہے کہ سسرال والوں نے اس بچی کو دل سے قبول نہیں کیا۔ ‘‘
شاہین کی کہانی، اگر گھر گھر کی نہیں تو بہت سے گھروں کی ضرور ہے۔ اولاد ایک ایسی نعمت ہے جس کے بغیرمیاں بیوی اپنی زندگی میں خلاء محسوس کرتے ہیں۔ یہ کیفیت ایک آزمائش ہے جس میں میاں یا بیوی کا اپنا کوئی قصور نہیں ہوتا لیکن انہیں اس کی بھاری قیمت ادا کرنا پڑتی ہے ۔ اس کی وجوہات اور علاج پر وقتاً فوقتاً گفتگو ہوتی رہتی ہے ۔ اس لئے زیر نظر تحریر میں طبی پہلوؤں کی بجائے صرف ان عملی، نفسیاتی اور سماجی مسائل کااحاطہ کیا جائے گا جو بے اولاد جوڑوں کی زندگی میں زہر گھولتے رہتے ہیں۔
عورت پر ناحق الزام
اگر میاں بیوی کی شادی کو کچھ عرصہ گزر جائے اوران کے ہاں اولاد نہ ہو تو ہمارے معاشرے میں قصوروار بالعموم عورت ہی کو ٹھہرایا جاتا ہے۔ ڈاکٹر ایس ایم زمان کے الفاظ میں :
’’ ہماری پہلی انفرادی اور اجتماعی معاشرتی غلطی یہ ہے کہ کسی طبی معائنے کے بغیر ہی بے اولادی کا الزام عورت پرلگا دیا جاتاہے۔ اگر طبی طور پر یہ بات سامنے آ بھی جائے کہ عورت کی اولاد نہیں ہو سکتی تو ا س میں اس کا کوئی قصور نہیں۔ عورت کوبغیر سوچے سمجھے قصوروار ٹھہرانا غیر اخلاقی اورغیر شرعی ہے۔ ‘‘
بے اولاد ، ’نا مرد‘ نہیں
ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ مردوں کی مردانگی کو اولاد ہونے کے ساتھ مشروط کر دیا گیا ہے۔ اس لئے بیوی کی تمام رپورٹیں ٹھیک آنے کے بعد جب شوہروں کو ٹیسٹ کروانے کا مشورہ دیا جاتا ہے تو وہ بالعموم اسے اپنی انا کا مسئلہ بنا لیتے ہیں اور بہت سی صورتوں میں اس سے انکار کر دیتے ہیں۔ ان کے اندر یہ خوف ہوتا ہے کہ اگر رپورٹیں ٹھیک نہ آئیں تو وہ ’نا مرد‘ کہلائیں گے۔
شالیمار میڈیکل کالج لاہور میں پروفیسر آف سائیکاٹری ڈاکٹر سعد بشیر کہتے ہیں کہ مرد کی مردانگی کو اس کی اولاد پیدا کرنے کی صلاحیت کے ساتھ جوڑناحماقت سے کم نہیں:
’’ یہ نا قابل فہم ہے کہ جس شخص کے 12 بچے ہیں، اس کی مردانگی زیادہ، جس کے کم ہیں، اس کی مردانگی کم اور جس کے بچے نہیں ہوسکتے، اس میں مردانگی ہی نہیں ہے۔دیگر طبی مسائل کی طرح بے اولادی بھی ایک طبی مسئلہ ہے جو ایک پہلوان میں بھی ہو سکتا ہے ۔ اس کا علاج کروایا جانا چاہئے ۔ اگر علاج سے مسئلہ حل نہیں ہوتا تو بار بار شادیاں کرکے دیگرخواتین کی زندگی خراب نہیں کرنی چاہیے۔‘‘
ازدواجی تعلق میں دراڑ
کائنات میں پہلے دو انسانوں( آدم اور حوا میں) میں جو تعلق قائم ہوا، وہ میاں بیوی کاہی تھا ۔ یوں یہ سب سے قدیم اور مقدس رشتہ ہے جو کسی بھی دوسری شے سے مشروط نہیں ہونا چاہئے۔ شادی ایک بندھن ہے جس میں ایک مرد اورعورت عمر بھر ساتھ رہنے کاعہد کرتے ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے اس رشتے کی مضبوطی اولاد کے ساتھ وابستہ ہو کر رہ گئی ہے۔ اگر وہ نہ ہو تو یہ تعلق ہی خطرے میں پڑ جاتا ہے اور بعض اوقات نوبت طلاق تک پہنچتی ہے۔ راولپنڈی کی شازیہ کو بھی ہر وقت یہی دھڑکا لگا رہتا ہے :
’’ میری شادی کو چار سال گزر گئے ہیں لیکن ابھی تک اولاد نہیں ہوئی۔ ہم جوائنٹ فیملی سسٹم میں رہتے ہیں۔ میری جیٹھانی اکثر مجھے سناتے ہوئے کہتی ہیں کہ عورت کے سسرال میں قدم مضبوط ہی اولاد سے ہوتے ہیں۔ یہ سن کر میں پریشان ہو جاتی ہوں اورمجھے گھر میں اپنی حیثیت بہت کمزور دکھائی دینے لگتی ہے۔ ‘‘
اسلامی نظریاتی کونسل، پاکستان کا ایک سرکاری ادارہ ہے جو حکومت کو دینی حوالے سے مسائل میں راہنمائی فراہم کرتا ہے۔ ڈاکٹر ایس ایم زمان اس ادارے کے چیئرمین رہ چکے ہیں۔ شفانیوز کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا:
’’میاں بیوی کی رفاقت کا عہد تو اولاد سے پہلے کا ہے۔ اولاد ہونے یا نہ ہونے سے اس رشتے کی پائیداری یا ناپائیداری کو جوڑ دینا قطعی طور پر غلط ہے۔ ‘‘
عیسائیت میں تو بے اولادی کی بنا پر طلاق یا دوسری شادی جائز ہی نہیں۔ اسلام آباد سے پاسٹر شفیق مسیح کا کہنا ہے کہ اولاد ہو نا نہ ہونا خدائی کام ہے۔ اس میں انسان کاعمل دخل نہیں ہے اور نہ ہی وہ اس کے لیے قصور وار ہے۔ ان کے مطابق بائبل (متی ) باب 19 اور آیت نمبر 9 میں کہا گیا ہے:
’’اور میں تم سے کہتاہوں کہ جو کوئی اپنی بیوی کو حرام کاری کے سوا کسی اور سبب سے چھوڑ دے اور دوسری سے بیاہ کر لے ‘ وہ زنا کرتا ہے۔ ‘‘
رشتہ دار اور ارد گرد کے لوگ ان کا جینا دوبھر کردیتے ہیں۔
کم درجے کی حیثیت
بعض صورتوں میں بے اولاد عورت کو طلاق دیے بغیرمرد دوسری شادی کر لیتا ہے۔ ایسے میں اکثر اوقات پہلی بیوی کی زندگی بہت دشوار ہوجاتی ہے اور اس کی حیثیت محض ایک ’کام والی ‘ کی بن کر رہ جاتی ہے۔ اس سے بے رخی برتنا، بد سلوکی کرنا اوراسے اس کے جائز حقوق نہ دینا ہمارے معاشرے میں بہت عام ہوگیا ہے۔
قرآن میں مردوں کو دوسری شادی کی اجازت بیویوں میں انصاف کی شرط کے ساتھ دی گئی ہے ورنہ انہیں ایک ہی بیوی پر اکتفا کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ احادیث میں ایسے لوگوں کو سخت عذاب کی وعید سنائی گئی ہے جو پہلی بیوی کے ساتھ انصاف نہ کریں۔
دوسرے جینے نہیں دیتے
بعض اوقات میاں بیوی آپس میں خوش اور مطمئن ہوتے ہیں اور اولادنہ ہونے کے باوجود ایک ساتھ رہنا چاہتے ہیں لیکن گھر والے، رشتہ دار اور ارد گرد کے لوگ ان کا جینا دوبھر کردیتے ہیں۔ لڑکے کے والدین بیٹوں پر جذباتی چوٹ کرتے ہیں کہ انہیں وارث چاہیے۔ انہیں یہ جملے سننے کو ملتے ہیں کہ ’تمہاری اولاد نہیں ہو گی تو ہمارے خاندان کا نام آگے نہیں چلے گااور نسل آگے نہیں بڑھے گی۔ ‘ یہی کچھ غزالہ کے ساتھ ہوا:
’’ہم میاں بیوی آپس میں خوش تھے اورہماری ایک دوسرے کے ساتھ بہت بنتی بھی تھی۔ میرے شوہراپنے والدین کی اکلوتی اولادتھے۔ ان کے گھر والوں کوخاندان کا نام آگے چلانے کے لیے وارث چاہیے تھا۔ٖ صرف اس وجہ سے انہوں سے مجھے چھوڑ دیا۔ ‘‘
ڈاکٹرایس ایم زمان کہتے ہیں کہ اگر کوئی کارنامہ نہ کیا ہو تو کسی کا نام بہت زیادہ آگے تک نہیں چلتا:
’’ دیکھا جائے تو ہمیں اپنے دادا یا پر داد کا نام معلوم ہوتا ہے ۔ اس سے آگے ہمیں یا ہمارے بڑوں کو بھی نہیں پتہ ہوتا ۔اپنا نام زندہ رکھنے کے لیے ہمیں کوئی کارنامہ سرنجام دینا ہوگا۔ ‘‘
ڈاکٹر سعد بشیراس موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے کہتے ہیں:
’’ مرد پر اس کے گھر والوں کا بہت دباؤہوتا ہے۔ اس کی بیوی کی چھوٹی سی کوتاہی بہت بڑی شمار ہوتی ہے جبکہ اولاد نہ ہونا تواس کا بہت بڑا’ قصور‘ ہے۔ مرد نفسیاتی طور پر کمزور ہے ۔ وہ بہت جلددباؤ میں آکر ہار مان لیتا ہے اور بیوی کو طعنے دینا شروع کر دیتا ہے کہ مجھے تم اولاد تو دے نہ سکی وغیرہ وغیرہ۔ایسے حالات میں علیحدگی ہو جاتی ہے یامرد دوسری شادی کر لیتاہے۔‘‘
مرد کو اس حوالے سے مضبوط ہونا چاہئے ۔ راولپنڈ ی سے بشیراحمد اس کی ایک مثال ہیں۔ شادی کے بعد 10 سال گزرنے کے باوجود ان کے ہاں اولاد نہیں ہوئی لیکن وہ ساتھ نبھانے کے عہد پر قائم ہیں :
’’میں اور میری بیوی آپس میں خوش اور مطمئن ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اتنا عرصہ گزرنے کے باوجود ہم نے ایک دوسرے کا ساتھ نہیں چھوڑا اور نہ ہی چھوڑناچاہتے ہیں۔ ہمیں مشکل دوسروں کی طرف سے پیش آتی ہے۔ گھر والے اور عزیز رشتہ دار وقتاً فوقتاً الٹی سیدھی باتیں کرتے رہتے ہیں۔ میں ان سے کہتا ہوں کہ جب ہمیں کوئی مسئلہ نہیں تو باقی سب کو اتنی پریشانی کیوں ہے۔ ‘‘
بے اولادی کی نفسیاتی قیمت
شادی کے بعد عورت مسلسل نفسیاتی دباو کاشکار رہتی ہے۔ ایک نئی دنیا میں جانا اور گھر بسانا اس کے لیے بڑا چلینج ہوتا ہے۔ ابھی وہ گھر بسانے کی تگ ودو میں ہوتی ہے کہ سب اس سے’ اچھی خبر‘کا پوچھنا شروع کر دیتے ہیں۔یہ چیز اس کے ذہنی دباؤ میں اضافہ کرتی ہے۔ ڈاکٹر سعد بشیر کہتے ہیں:
’’جن خواتین کی اولاد نہیں ہوتی ،وہ شدید ڈپریشن کا شکار ہوجاتی ہیں۔بعض تو خود کشی کے بارے میں بھی سوچنا شروع کر دیتی ہیں، اس لئے کہ وہ میکے جا نہیں سکتیں اور سسرال میں انہیں مستقبل مخدوش نظر آتا ہے۔‘‘
گفتگو کو سمیٹتے ہوئے درج ذیل امور اہم ہیں:
- شادی ایک ایسا عہدہے جس کے تحت مرد اور عورت زندگی بھر کے لیے دکھ سکھ کے ساتھی بن جاتے ہیں۔ انہیں سمجھنا چاہئے کہ ان کا ڈوبنا اور تیرنا اکٹھے ہے۔ اولاد سمیت کسی بھی دوسری چیز پرانحصارکیے بغیر اس بندھن کی اپنی ایک مضبوطی ہونی چاہیے۔
- شادی کے بعد اپنی ساری خوشیاں اولاد سے وابستہ سمجھ لینا دانش مندی نہیں ہے۔ اس کے بغیر بھی خوش و خرم اور بھرپور زندگی گزاری جا سکتی ہے ۔اگر خدا نے آپ کو یہ ذمہ داری نہیں دی تو اس کا مطلب ہے کہ اس نے آپ کو کچھ اور بڑے کاموں (مثلاً سماجی کام ) کے لئے فارغ کر دیا ہے۔ اس سے فائدہ اٹھانا چاہئے۔
- اگراولاد کی خواہش شدید ہو تو کوئی بے سہارا بچہ گود لے کر اپنی زندگی میں رونق بحال کی جا سکتی ہے۔ اس سے کسی کو سہارا بھی مل جائے گا۔
- اگر طبی طور پر ثابت ہو جائے کہ عورت ماں نہیں بن سکتی اور شوہر دوسری شادی پر بضد ہو توسیانے کہتے ہیں کہ عورت کو چاہیے کہ وہ اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہوئے دل بڑا کرے اور خوشی سے شوہر کو دوسری شادی کی اجازت دے۔ اگرچہ یہ مشکل فیصلہ ہے لیکن طلاق کے بعد کی زندگی کا تصور کیا جائے تو یہ قربانی کچھ بڑی معلوم نہیں ہوتی۔ اس لئے تمام پہلوؤں پرغیر جذباتی انداز میں غور کرکے عورت کو وہ فیصلہ کرنا چاہیے جو اس کے لئے سب سے بہتر ہو۔ بعینہٖ اگر اولاد نہ ہونے کا سبب مرد ہو اور عورت اولاد کی خواہاں ہو تو دونوں کے خاندان والوں کو ان کی علیحدگی میں رکاوٹیں نہیں ڈالنی چاہئیں اور عورت کوکسی احساس جرم سے آزاد ہو کر فیصلہ کرنے میں مدد دینی چاہئے۔
- اگر مرد دوسری شادی کرتا ہے تو اس کا فرض ہے کہ دونوں بیویوں کے ساتھ تعلق میں انصاف سے کام لے ۔
- اہل خانہ، رشتہ داروں اور دیگر لوگوں کو چاہیے کہ میاں بیوی کو ان کی زندگی جینے دیں۔ ان کی اولاد ہو رہی ہے یا نہیں، یہ ان کا مسئلہ ہے۔ اگر وہ ساتھ رہنا چاہتے ہیں توانہیں ڈسٹرب نہ کریں۔
- بے اولادی بھی دیگر طبی مسائل کی طرح ایک طبی مسئلہ ہے۔ اسے ’مردانگی‘ کے ساتھ مت جوڑا جائے۔ اسی طرح بے اولاد عورت کو منحوس سمجھنے جیسے جاہلانہ تصورات سے جان چھڑائی جائے۔
- مثبت معاشرتی رویوں کو پروان چڑھانے اور ’سٹگماز‘ کو دور کرنے کے لئے بڑے پیمانے پر شعور بیدار کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے لئے باشعور طبقات ،اساتذہ اور میڈیا سمیت ہر ایک کو اپنا کردار ادا کرنا چاہئے۔
infertility, childlessness, adoption,psychological effects of infertility
