Vinkmag ad

ہنگری اور تہواروں کا دارالحکومت بڈاپیسٹ جو کبھی ہمارے نقوش قدم سے آشنا تھا

    ہنگری کا دارالحکومت‘ ملک کا گنجان آباد ترین شہر اوریورپی یونین کے چند بڑے شہروں میں سے ایک بڈاپیسٹ (Budapest) اس سفر میں ہمارا اگلا اور آخری پڑاﺅ تھا۔ یہ ایک قدیم شہر ہے جس پر1541ءسے 1699ءکے دوران خلافت عثمانیہ کی حکومت رہی۔ ترک ڈراموں کی وجہ سے سلطان سلیمان کانام اب یہاں اجنبی نہیں رہا۔ اسی نے ہنگری کو اپنی قلمرو میں شامل کیا۔ ترک جب یہاں آئے تو اپنے ساتھ اسلامی تہذیب و تمدن اوراپنے دیس کا کلچر بھی لائے۔ انہوں نے یہاں بہت سی خوبصورت مساجد اور سرکاری حمام تعمیر کئے۔

1699ءمیں رومی سلطنت اور پولینڈ کی مشترکہ افواج نے عثمانی فوجوں کو شکست دے کر اس شہر پر قبضہ کر لیاجس کے بعد وہاں اسلامی تہذیب و تمدن کی علامتوں کو مٹانے کا سلسلہ شروع ہوا۔ مساجد کو گرجوں ‘ان کے بلند قامت میناروں کو گھنٹی کے میناروں یاکلیسا کے روایتی مخروطی میناروں میں بدل دیاگیا۔یہ شہر گرم پانی کے چشموں پر حماموں (thermal spring baths) کے حوالے سے خاص شہرت رکھتا ہے۔ یہاں اس طرح کے 125 چشمے ہیں جن کا پانی اپنے اندرگوناںگوں طبی فوائد بھی رکھتا ہے۔ بڈاپیسٹ شاید دنیا کا واحد شہر ہے جہاں 16ویں صدی کے حمام آج بھی اپنی اصلی شکل میں موجود ہیں اور کچھ تو کام بھی کر رہے ہیں۔
ایسٹرن یورپ کا یہ شہر آج جس شکل میں نظر آتا ہے‘ اس کی ابتداء 1873ءمیں ہوئی۔ اس کی وجہ تسمیہ دو اضلاع ہیں جن میں سے بُڈا (Buda) مغرب جبکہ پیسٹ(Pest) مشرق میں ہے ۔ ان دونوں کے درمیان دریائے ڈینیوب (Denube) بہتا ہے جو اپنی خوبصورتی کی وجہ سے سیاحوں کے لئے خاص دلکشی رکھتا ہے۔ کئی طرح کے پلوں کے ذریعے ان دونوں کے درمیان آمدورفت اور مواصلات کا سلسلہ مسلسل جاری رہتاہے۔ ان پلوں میں سب سے نمایاں چین برِج (Chain bridge) یعنی” زنجیری پُل“ ہے۔سیاحت کے تناظر میں یہ شہردنیا کا 25 واں اور یورپ کا چھٹا مقبول ترین شہر ہے۔
یہاں ہمارا قیام”کیساتی(Casati) ہوٹل میں تھاجوانتہائی آرام دہ اور پرسکون جگہ پر واقع ہے ۔پہلا دن تو تھکن اتارنے میں ہی گزرگیا۔اس کے بعد ڈاﺅن ٹاﺅن ) (down town یعنی شہر کے قدیم حصے کی طرف بڑھے جو پرانے طرز تعمیر کا شاہکار‘ منظم اورصاف ستھر ا تھا۔اس دفعہ ہم نے اپنی سرگرمیوں کا آغاز شاپنگ سے کیا اور بچوںکے لئے گرم کپڑے اور یادگاری تحفے (souvenirs) خریدے۔
بڈاپیسٹ بہت بڑا شہر ہے جو گرمیوں میں شدیدگرم اور سردیوں میں شدید سرد ہوتا ہے۔ شہر میں ٹرانسپورٹ کا بہترین انتظام ہے اور میٹروبسیںاورٹرام گاڑیاں ہر طرف فراٹے بھرتی نظر آتی ہیں۔ ہمارے کلچر میں چائے کی ایک خاص اہمیت ہے اور مزے کی بات یہ ہے کہ یہاں ٹی (tea)کو چائے ہی کہاجاتا ہے۔ سبزیاں اور پھل صحت مند طرززندگی کا اہم جزو ہیں اور یہاں ان کی بہت ورائٹی دستیاب ہے۔میں میٹھے کی بہت شوقین ہوں اور یہاں اتنی مزے کی پیسٹریاں تھیںکہ پیٹ بھرجائے لیکن آنکھ کی بھوک ختم نہ ہو۔ سب سے زیادہ لطف کشتی ریستوران(boat restaurant ) میں کھانا کھا کر آیا۔ دریاکے کنارے کشتیوں کے اندر اس طرح کے متعددریستوران موجودہیں۔ ہنگری کا کھانا‘ دریا کی سحرانگیز لہریںاورشاندار مناظر عمر بھر کا یادگارترین تجربہ ہے۔

یہاں سالانہ 4.4 ملین لوگ سیاحت کے لئے آتے ہیں۔ہم نے یہاں کا قدیم چڑیا گھراور یورپی پارلیمنٹ کی عمارت دیکھی اور آخر میں قلعے والی پہاڑی ( castle hill) سے شہرکا بھرپورنظارہ کیا۔شہر میں ترک صوفی بزرگ ”گل بابا“ کا مزار بھی ہے جس کے باہر ان کاخوبصورت مجسمہ موجود ہے۔ انہوں نے کئی سفر نامے بھی لکھے جو اس وقت کے معاشروں کی ترجمانی کرتے ہیں۔ جب وہ فوت ہوئے تو دولاکھ مسلمانوں نے ان کی نماز جنازہ پڑھی جو ان سے لوگوں کی بے پناہ محبت و عقیدت کا اظہار تھا۔

ہنگری میں نگہداشت صحت کا نظام بہت منظم ہے اور 16 سال تک کی عمر کے بچوں‘ معذور افراد اورریٹائرڈ ملازمین کے لئے مفت طبی سہولیات دستیاب ہیں۔ بڈاپیسٹ میں فارمیسی کوپاٹیکا (Patika)کہتے ہیں۔ میرے میاں کو دانتوں میں درد تھا جس کی وجہ سے ہمیں ڈینٹل کلینک جانے کا بھی تجربہ ہوا۔یہاں اس کا علاج نسبتاً سستا اوراچھاہے۔ یہاں صحت پر کل جی ڈی پی کا 7.4فی صد خرچ کیا جاتا ہے جبکہ ہمارے ہاں یہ شرح صرف 0.76 فی صدہے۔ اس دیس میں مردوں کی اوسط عمر72جبکہ خواتین کی 80 سال ہے۔ پاکستان میں یہ شرح بالترتیب 65.8 اور 69.8 سال ہے ۔وہاں زندہ پیدا ہونے والے بچوں کی شرح اموات 5/1000 ہے جبکہ ہمارے ہاں یہ 7.5/1000 ہے۔

تفریح کے مواقع‘ تعلیم‘ٹیکنالوجی‘ ریسرچ‘ آرٹ‘میڈیا اور تجارتی لحاظ سے یہ شہراپنی مثال آپ ہے۔ ”تہواروں کا دارالحکومت“ اور”یورپ کا دل“ جیسے اعزازات حاصل کرنے والا یہ شہر اناج کی پیداوار کے لئے بھی مشہور ہے۔ اس کے علاوہ یہ شکرقندی‘سورج مکھی کے بیج اورآلو کی پیداوار کے لئے بھی شہرت رکھتا ہے۔ ہم نے وہاںسب سے نمایاں اور دلچسپ بات یہ دیکھی کہ عوامی مقامات پر سگریٹ نوشی پر مکمل پابندی تھی۔ اس حوالے سے قوانین بہت سخت ہیں اور ان پر سختی سے عمل بھی ہوتا ہے۔ یہاںحکومتیں قوانین تو بنالیتی ہےں لیکن عمل درآمد نہ ہونے کی وجہ سے وہ اپنی موت آپ مرجاتے ہےں۔
بالآخر وہ دن آن پہنچا جب ہمارا اس شہر میں آخری دن تھا۔ جدائی کے احساس سے دل اداس بھی تھا اور خوش بھی‘ اس لئے کہ بچوں کی یاد اب بری طرح سے ستارہی تھی۔ زندگی بہت مصروف اور چیلنجوں سے بھری ہوتی ہے۔ ایسے میں اچھا لگتا ہے کبھی کبھار اپنے خول میں چھپ جانا اور ہرطرح کی ذمہ داریوں کو ایک طرف رکھ کر بے فکری سے گھومنا پھرنااور اپنے ساتھ کچھ وقت گزارنا۔لوگ کہتے ہیں کہ ”تجربہ بولتا ہے“ تو جناب! یہ بالکل سچ ہے۔ پڑھنے اور تجربہ کرنے میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ ہم نے بہت سی نگریوں کے بارے میں پڑھا لیکن جو مزا یہاں گھوم پھر کر آیا‘ وہ بیان سے باہر ہے۔
جس طرح کتابوں کے کچھ باب ہوتے ہیں، اسی طرح زندگی کے بھی کچھ باب ہوتے ہیں۔ ایک ختم تو دوسرا شروع ہوجاتا ہے۔ ہمارے سفروں کا یہ باب تو ختم ہوا، دیکھئے آگے کیاہوتا ہے؟ جہاز میں اپنی سیٹ کی پشت پرسر رکھتے ہوئے میں نے اپنے میاں کے بارے میں سوچا۔ اللہ میرے پیار کرنے والے جیون ساتھی اور سر کے سائیں کو لمبی زندگی دے اور ہمیشہ صحیح سلامت رکھے جو میرااتنا خیال رکھتے ہیں اور میرے من پسند مشاغل کے لئے مواقع نکال لیتے ہیں ۔ مجھے تو ”یارزندہ ‘صحبت باقی“والے محاورے پر پورا یقین ہے۔

Vinkmag ad

Read Previous

ہینڈ رائٹنگ کھولے شخصیت کے مخفی پہلو

Read Next

حمل میں متلی سے بچاﺅ

Most Popular