مرگی کو جانئے

دوروں اور جھٹکوں کے مرض” مرگی“ کو بہت سے لوگ جنات کی پکڑ یا شیطانی طاقتوں کے حاوی ہوجانے سے تعبیر کرتے ہیں حالانکہ یہ ایک خاص دماغی کیفیت کا نام ہے ۔ ہمارے معاشرے میں جن امراض کے بارے میں سب سے زیادہ غلط تصورات پائے جاتے ہیں‘ ان میں مرگی اگر سرفہرست نہیں تو بہت نمایاں ضرورہے۔ انہی تصورات کی وجہ سے اس کے مریضوں کے ساتھ بہت برا اور ہتک آمیز سلوک کیا جاتا ہے۔ اس کی وجوہات ،علامات اور علاج کے بارے میں شفا انٹرنیشنل ہسپتال کی ماہر اعصابی امراض ڈاکٹر میمونہ صدیقی کی ایک معلوماتی تحریر

دنیا بھرمیں تقریباً پانچ کروڑ افراد مرگی کا شکار ہیں جبکہ پاکستان میں اس سے متاثرہ افراد کی تعداد 20لاکھ ہے۔ یہ ایک اعصابی کیفیت ہے جو زندگی میں کسی بھی موڑ پر کسی کو بھی اپنا شکار بنا سکتی ہے۔اس کے بارے میں مناسب آگاہی نہ ہونے کی وجہ سے لوگ اسے جن یا آسیب کا سایہ سمجھتے رہتے ہیں اور ڈاکٹر کے پاس جانے کی بجائے نام نہاد پیروں و فقیروں کے پاس اپنا وقت اور پیسہ برباد کرتے رہتے ہیں۔ ایسے میں مریض کی حالت ٹھیک ہونے کی بجائے مزید بگڑ جاتی ہے۔ اگر یہ لوگ بروقت معالج سے رابطہ کریں تو درست تشخیص اور مناسب علاج کی مددسے اس مرض کے شکار 70سے80فی صد افراد نارمل سے قریب تر زندگی گزار سکتے ہیں۔

مرگی کیا ہے ؟
میڈیسن میں مرگی کے لئے یونانی زبان کا لفظ ”اپیی لیپسی epilepsy“ استعمال ہوتا ہے جس کا لفظی مطلب ” پکڑے جانا “ ہے۔ سائنسی اعتبار سے مرگی ایک ایسی کیفیت ہے جو اعصابی نظام کو متاثر کرتی ہے۔ یہ کیفیت دوروں کی صورت میں وقتاً فوقتاً طاری ہوتی رہتی ہے جو دماغی اعمال میں عارضی تبدیلی کے سبب پیداہوتے ہیں۔ ان کی دو بڑی اقسام عمومی اور جزوی مرگی ہیں۔ دورے کی قسم کا انحصار اس بات پر ہے کہ دماغ کا کون سا حصہ کس حد تک متاثر ہوا ہے۔

مرض کی وجوہات
مرگی کی کوئی ایک نہیں‘ متعدد وجوہات ہیں۔ مثلاً یہ دماغی چوٹ یاکسی اور وجہ سے دماغی افعال متاثر ہونے کے سبب ہوسکتی ہے۔ مرگی کا پہلا دورہ بالعموم پیدائش سے لے کر20 سال تک کی عمرمیں ہوتاہے۔ اگر20 سال سے زائد عمر میں مرگی کا دورہ پہلی دفعہ شروع ہوا ہوتو اس کا سبب دماغی چوٹیں‘دماغ میں رسولی اور فالج کے اثرات ہوتے ہیں۔ یہ بیماری عموماً موروثی نہیں ہوتی‘ تاہم اس کی چند اقسام موروثی بھی ہوتی ہےں۔ مرگی سے ہر عمر‘ نسل اورطبقے کے لوگ متاثر ہوسکتے ہیں۔

علامات
مرگی کے دورے میں پٹھوں کا کھچاﺅ‘ ان کا اکڑجانا‘ بد حواسی طاری ہو جانا اور بے مقصد جسمانی حرکت سرزد ہونا شامل ہے۔ مختلف تناظر میں دوروں کی بہت سی اقسام ہیں جن میں سے دو ‘حسی (sensory) اور حرکت (motor) زیادہ عام ہیں۔
حرکتی دورے میں دماغی کام میں اچانک تیزی آجاتی ہے۔ اس سے مریض کا جسم اکڑ جاتا ہے اور وہ گر جاتا ہے۔ بعض اوقات اس کی زبان دانتوں کے نیچے آجاتی ہے اور اس کا پیشاب بھی نکل جاتا ہے۔ یہ دورہ 20 سکینڈ سے لے کر ایک منٹ تک برقراررہ سکتا ہے۔ اس کے بعد دوسرا مرحلہ شروع ہو جاتا ہے جس میں مریض کو جھٹکے لگتے ہیں اور وہ ہاتھ پاوں مارنا شروع کر دیتا ہے ۔ بعض اوقات وہ کسی چییز سے ٹکرا کر خود کو زخمی بھی کرلیتا ہے۔ یہ کیفیت بھی تقریباً ایک منٹ تک رہتی ہے جس کے بعد وہ بیحس وحرکت ہو جاتا ہے۔ اس دوران اسے الٹی بھی آ سکتی ہے۔ اگر وہ سانس کی نالی مےں چلی جائے توپےچےدگےاں پیدا ہو سکتی ہیں۔

دوران ِدورہ احتیاطی تدابیر
٭کچھ مریضوں کو دورے سے قبل ہی اندازہ ہوجاتا ہے کہ انہیں یہ پڑنے والا ہے۔ اگر اےسا ہو توفوراً بستریا زمین پرلیٹ جائیں۔
٭اگر کسی کو دورہ پڑتا دیکھیں تو خود پرسکون رہیں اور مریض کو جہاں بھی جگہ ملے‘ آرام سے لٹا دیں۔
٭مریض کے دورے کو اپنی طاقت سے روکنے کی کوشش نہ کریں۔
٭مریض کو اگر کسی خطرناک جگہ مثلاً مصروف سڑک پر دورہ پڑے تو اسے وہاں سے ہٹا لیں۔اس کو لٹانے والی جگہ سے سخت،گرم اور دھاروالی اشیاءہٹا دیں اورسر کے نیچے کوئی نرم چیز رکھیں۔
٭اس کی عینک اور مصنوعی دانت اتار لیں اور کسے ہوئے کپڑے مثلاً ٹائی، مفلر اورکالروغیرہ ڈھیلے کردیں۔
٭ آپ ڈاکٹر کولینے مت جائیں‘ اس لئے کہ مریض کو خود سنبھالا جاسکتا ہے اور ڈاکٹر کے آنے تک دورہ ختم ہوچکا ہوتاہے۔
٭دورے کے دوران مریض کے دانتوں کے درمیان کوئی چیز ٹھونسنے کی کوشش نہ کریں‘ اس لئے کہ زبان کو کٹنے سے بچانے کی کوشش میں آپ مریض کو زیادہ نقصان پہنچاسکتے ہیں۔
٭دورہ ختم ہونے کے بعد مریض کو کروٹ کے بل لٹادیں تاکہ اس کے منہ سے تھوک وغیرہ نکل جائے۔
٭دورہ ختم ہونے کے بعد کچھ مریض ذہنی طور پر بدحواس ہوجاتے ہیں لیکن اےسا وقتی ہوتا ہے۔
٭اگر مریض سونا چاہے تو اسے آرام کرنے دیں۔
٭بعض اوقات مریض کواپنی حرکت پر شرمندگی محسوس ہوتی ہے۔ اُسے اطمینان دلائیں اور تسلی دیں۔
٭جب تک مریض مکمل طور پر بیدارنہ ہوجائے‘ اسے کوئی بھی مشروب مت پلائیں۔
٭ایک آدھ دفعہ دورہ پڑنے کی صورت میں مریض کو طبی امداد کی ضرورت نہیںلیکن اگر ایک سے زیادہ دورے پڑیں توڈاکٹر (نیورولوجسٹ) سے لازماًرجوع کریں۔

تشخیص اور علاج
مرگی کی تشخیص کے لےے ڈاکٹر کودورے کی مکمل کیفیت‘ مرض کے تناظر میںخاندانی پس منظر‘اس کی ذاتی تفصیلات اور بچپن سے بڑے ہونے تک کی بعض معلومات چاہئے ہوتی ہیں۔ اس کے علاوہ سماجی‘ ذہنی اور جذباتی پس منظر کے متعلق معلومات بھی جمع کی جاتی ہیں جو علاج میں آسانی پیدا کرتی ہیں۔ جسمانی معائنے کے علاوہ لیبارٹری ٹیسٹ بھی کئے جاسکتے ہیں۔
مرگی کے علاج کے لئے آج کل بہت اچھی ادویات دستیاب ہیں جو ڈاکٹر کے مشورے سے استعمال کی جاسکتی ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ مرگی کے مریض سے نہ تو خوف کھایاجائے اور نہ اس سے نفرت کی جائے۔ تھوڑی سی کوشش سے وہ نارمل کے قریب تر زندگی گزار سکتا ہے۔

مرگی سے متعلق غلط تصورات
    مرگی سے متعلق بہت سے غلط تصورات بھی عام ہیں جن میں سے کچھ مندرجہ ذیل ہیں:
٭ مرگی کا دورہ اصل میں جن کی پکڑ ہے ۔
٭مریض کو جوتا سنگھانے سے دورہ ختم ہوجاتا ہے۔
٭یہ چھوت کا مرض ہے‘ اس لئے مرگی کے مریض کے برتن ‘ کپڑے اوررہنے کی جگہ علیحدہ کردینی چاہیے۔
٭مرگی کے مریض کی شادی کردینے سے دورے پڑنا بند ہوجاتے ہیں۔
٭پانی کو دیکھنے سے مرگی کا دورہ پڑسکتا ہے۔
٭مرگی کا مریض معمول کی زندگی نہیں گزارسکتا۔
٭مرگی کا مریض پڑھ لکھ یا ملازمت نہیں کرسکتا۔

Vinkmag ad

Read Previous

گردہ‘ جسم کی چھلنی

Read Next

پتھراتے جوڑ (Rheumatoid Arthritis)

Most Popular