ہروقت بیٹھے رہنا کن بیماریوں کا سبب بنتا ہے؟

ہروقت بیٹھے رہنا کن بیماریوں کا سبب بنتا ہے؟

جسمانی خوبصورتی کے جو معیارات اس وقت رائج ہیں‘ ان میں سے ایک جسم کا سڈول اورمناسب حد تک دبلاہونا بھی ہے۔ اس کے برعکس موٹے افراد کو زیادہ پسند نہیں کیا جاتا۔ یہی وجہ ہے کہ لوگوں کی اکثریت اپنے اضافی وزن کو کم کرنے کی خواہشمند نظرآتی ہے۔ ہماری نظر جب کسی موٹے شخص پرپڑتی ہے توعموماً پہلا خیال ذہن میں یہی آتا ہے کہ وہ زیادہ اور مرغن غذائیں کھاتا ہوگا۔ اگرچہ یہ بات کچھ زیادہ غلط نہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ موٹاپے میں زیادہ بڑا کردارکرسی‘ یعنی بیٹھے رہنے کی عادت کا ہے۔ ماضی بعید ہی نہیں‘ قریب ہی کی بات ہے کہ ہمارے بڑے اوربزرگ دیسی خوراکیں اورحلوے مانڈے بڑے شوق سے کھاتے تھے لیکن ان میں سے اکثر موٹاپے اورموجودہ زمانے کی بیماریوں سے بہت دورتھے۔ اس میں ان کی جسمانی سرگرمیوں یا متحرک طرززندگی کا کردارزیادہ تھا۔

اس کے برعکس آج کل ہماری زندگی میں کرسی مرکزی حیثیت اختیارکرگئی ہے۔ لوگوں‘ خصوصاً شہروں میں بسنے والوں کی اکثریت کا معمول یہ ہے کہ صبح بستر کو چھوڑتے ہیں تو واش روم کا رخ کرتے ہیں۔ اب تو وہاں بھی کموڈ کی سہولت دستیاب ہے جس پر بیٹھ کر وہ حوائج ضروریہ سے فارغ ہوتے ہیں۔ اس کے بعد وہ ڈائننگ ٹیبل کے پاس رکھی کرسی کا رخ کرتے ہیں جہاں ناشتہ ان کا انتظارکررہا ہوتا ہے۔ پھروہ گاڑی کی آرام دہ سیٹ پربیٹھ کرسکول‘ کالج‘ یونیورسٹی یا دفتر/دکان جاتے ہیں جہاں ایک اورکرسی ان کی منتظر ہوتی ہے۔ دن کا بڑا حصہ اس کی نذرکرنے کے بعد واپسی پھرگاڑی کی سیٹ پرہوتی ہے۔ گھرپہنچ کروہ تھکے ہارے صوفے پربیٹھ کرٹی وی دیکھتے ہیں‘ایک اور کرسی پر بیٹھ کرتادیرانٹرنیٹ استعمال کرتے ہیں‘ دوسری کرسی پر بیٹھ کر کھانا کھاتے ہیں اور پھربسترپرچلے جاتے ہیں۔

زیادہ بیٹھنا‘ بیماریوں کی جڑ

زیادہ بیٹھنے کی عادت چونکہ بہت سی بیماریوں کا سبب بنتی ہے لہٰذا اسے بذات خود ایک بیماری بھی کہا جاتا ہے۔ اس عادت کا سب سے بڑا نقصان دل کو پہنچتا ہے۔ ماہر امراض قلب ڈاکٹر نعیم اصغرکے مطابق

دل کے امراض کی شرح میں اضافے کی اصل وجہ غیرمتحرک طرززندگی ہی ہے۔ آج کل لوگ اپنی مصروفیات کے باعث جسمانی سرگرمیاں نہیں کرپاتے جس کی وجہ سے ابتدائی درجے میں وہ موٹاپے کا شکار ہوتے ہیں اور بعد میں دل کے مریض بن جاتے ہیں۔ بیٹھے رہنے کے باعث دل کی شریانوں کی بیماری عام ہے۔ اس میں شریانوں کی دیواروں پرکولیسٹرول کی تہہ جم جاتی ہی جس سے وہ سکڑجاتی ہیں اورخون کی گردش میں دقت ہوتی ہے۔ اس وجہ سے دل کے دورے کا امکان بڑھ جاتا ہے۔

مقعد اور بڑی آنت کے امراض کے ماہرڈاکٹر قمرحفیظ کیانی کہتے ہیں

ایک ہی جگہ پرزیادہ دیرتک بیٹھ کرکام کرنے والے افراد میں قبض کی شرح زیادہ ہے۔ ایسے لوگ بھی اس کا شکار ہو جاتے ہیں جو باقاعدگی سے ورزش نہیں کرتے یا جن کی زندگی میں جسمانی مشقت کی کمی ہوتی ہے۔ کچھ پیشے ایسے ہیں جن کے ساتھ وابستہ افراد کوزیادہ دیرتک ایک ہی جگہ پر بیٹھے رہنا ہوتا ہے ۔ ان لوگوں میں مقعد کے بالوں کے باعث ہونے والے زخم عام پائے جاتے ہیں۔ مثلاً لمبے روٹ پرچلنے والے ڈرائیورحضرات میں یہ مرض عام ہے ۔ گاڑی میں مسلسل زیادہ دیر تک بیٹھے رہنے اور کولہوں کے مسلسل حرکت کرتے رہنے سے اس حصے کے بالوں کورگڑ لگتی ہے اور وہ ٹوٹ کر جلد کے اندرداخل ہوتے رہتے ہیں۔

ماہر امراض غدود،  ڈاکٹراسامہ اشتیاق کا کہنا ہے

 

زیادہ بیٹھنے اورجسمانی مشقت نہ ہونے کے باعث جوخوراک ہم کھاتے ہیں‘ اس سے حاصل شدہ کیلوریزکو خرچ نہیں کر پاتے۔ ایسے میں وہ چربی کی شکل میں جمع ہو کر موٹاپے کی شکل اختیارکرلیتی ہیں۔ بڑھے ہوئے جسم کی اضافی ضرورت کو پورا کرنے کے لئے انسولین بھی زیادہ مقدار میں درکار ہوتی ہے۔ ایسے میں لبلبے کواپنی بساط سے بڑھ کرکام کرنا پڑتا ہے اورپھرایک وقت ایسا آتا ہے جب وہ تھک جاتا ہے۔ اس کے ٹھیک طرح سے کام نہ کرنے کی وجہ سے خون میں گلوکوز کی مقدار بڑ ھ جاتی ہے اور فرد کو ذیابیطس ہوجاتا ہے ۔

کرنے کے کام

٭ایسا طرززندگی اپنائیں جس میں جسمانی سرگرمیاں قدرتی اندازمیں آپ کے معمولات میں شامل ہوجائیں۔ مثلاً دفتر جانے کے لئے پبلک ٹرانسپورٹ استعمال کرتے ہیں تو  سٹاپ سے ذرا پہلے گاڑی سے اترجائیں اوروہاں سے پیدل گھرآئیں۔ نمازگھرکے بجائے مسجد میں پڑھیں۔ قریبی مارکیٹ تک موٹرسائیکل یا گاڑی کے بجائے پیدل جائیں۔

٭باقاعدہ ورزش کومعمول بنائیں۔ روزانہ کم ازکم آدھا گھنٹہ کوئی نہ کوئی جسمانی سرگرمی کریں۔ مثلاً تیز قدمی ، تیراکی، دوڑنا، رسی ٹاپنا یا سائیکل چلانا وغیرہ۔

٭ہر20 منٹ بعد 20 قدم چلیں۔

٭گھریا دفترمیں زیادہ ترکام کھڑے ہو کرکریں۔ م

٭سیڑھیاں اورلفٹ‘ دونوں میسرہوں تو سیڑھیوں کو ترجیح دیں۔

٭دفتر یا گھر میں دوسروں کو کام کہنے کے بجائے اپنے چھوٹے موٹے کام خود کریں۔

sitting diseases, how is inactivity linked to diseases, hum bethay rehnay say kin beemariyon ka shikar hotay hain

مزید پڑھیں/ Read More

متعلقہ اشاعت/ Related Posts

LEAVE YOUR COMMENTS