بخار علامت نہیں‘مرض مٹائیے

’’بخار‘‘ان چند طبی مسائل میں سے ایک ہے جن کی وجہ سے لوگوں کی بہت بڑی تعداد ڈاکٹر وںکے پاس جاتی ہے یا پھر خود ہی اپنا علاج کرنا شروع کر دیتی ہے ۔ایک اور دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ دنیا بھر میں اگر کوئی طبی آلہ کلینکوں کے علاوہ گھروں میں بھی سب سے زیادہ پایاجاتا ہے، تو وہ تھرما میٹرہے جو بخار کی تشخیص میں کام آتا ہے۔

بخار کے بارے میں لوگوں میں بہت سے غلط تصورات عام ہیں اور سمجھا جاتا ہے کہ ہر بخار بے سکونی پیدا کرنے کے علاوہ خطرناک بھی ہے ۔اگر یہ کسی بچے کو ہو جائے تو اکثر صورتوں میں والدین کے ہاتھ پائوں پھول جاتے ہیں اور وہ اسے فوراًڈاکٹر کے پاس لے جاتے ہیں۔ اگر ڈاکٹر یہ کہے کہ بچے کو دوا کی ضرورت نہیں تو وہ اس پر مطمئن نہیں ہوتے اورکسی ایسے ڈاکٹر کے پاس چلے جاتے ہیں جو انہیں کچھ نہ کچھ دوا دے دے‘ یاپھر میڈیکل سٹور سے خود ہی کوئی دوا لے کر بچے کو دے دیتے ہیں۔ دوسری انتہا یہ ہے کہ لوگوں کو ہلکا ہلکا بخارمہینوں رہتا ہے اور وہ اسے کسی نہ کسی وجہ سے ٹالتے رہتے ہیں یہاں تک کہ بستر پر پڑ جاتے ہیں اور بہت بعد میں پتہ چلتا ہے کہ اس کا سبب کوئی سنگین مرض تھا۔ علاج میںتاخیر کی بدولت مرض اتنا بگڑ چکاہوتاہے کہ اس پر ’’پانی سر سے گزرنے‘‘ کی کہاوت صادق آتی ہے ۔

بخار کا بہت عام ہونا‘ اکثر صورتوں میں معمولی ہونے کے باوجود لوگوں کااس سے خوفزدہ ہوجانا یا اسے کسی بڑی بیماری کی علامت ہونے کے باوجود نظرانداز کئے چلے جانا ایسے عوامل ہیں جنہیں نظرانداز نہیں کیا جا سکتا ۔اس لئے ضروری ہے کہ اس کا ذرا تفصیل سے جائزہ لیا جائے ۔

بخار کیا ہے
اس تناظر میں سب سے پہلا سوال یہ ہے کہ بخار کیا ہے؟ بظاہر اس کا آسان جواب یہ ہے کہ جب ہمیں اپناجسم گرم محسوس ہو تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں بخار ہے لیکن شفاانٹرنیشنل ہسپتال اسلام آباد کے میڈیکل سپیشلسٹ ڈاکٹرواجد یاراس سے اتفاق نہیں کرتے:
’’بخار محسوس ہونے اور بخار ہونے میں فرق ہے ۔اگر آپ کو اپناجسم گرم محسوس ہو رہا ہو، تب بھی ہم اسے اس وقت تک بخار نہیں کہیں گے جب تک کہ تھرما میٹراسے بخار تسلیم نہ کرے ۔انسانی جسم کا نارمل ٹمپریچر97سے 98 ڈگری فارن ہائیٹ ہے جو دن بھرتھوڑا بہت اوپر نیچے ہوتا رہتا ہے ۔ اگر وہ اس حدسے زیادہ(98.6) ہو تو اسے بخار مانا جائے گا۔‘‘
الائیڈہسپتال فیصل آباد کے میڈیکل سپیشلسٹ ڈاکٹر عامر حسین سے پوچھا گیا کہ بخار کی صورت میں ہماراجسم گرم کیوں ہوجاتا ہے ؟ جواب میں انہوں نے کہا :
’’بیکٹیریا کے حملے کی صورت میں جسم کا مدافعتی نظام خون میںپائروجنز(pyrogens) پیدا کرتا ہے۔ اسی لئے بخار کو تکنیکی زبان میں پائریکسیا(pyrexia ) بھی کہا جاتا ہے ۔یہ پائیروجنز ہائپوتھلمس کے درجہ حرارت میںردوبدل کا باعث بنتے ہیں۔‘‘
شفاکالج آف میڈیسن اسلام آباد میں انٹرنل میڈیسن کے پروفیسر ڈاکٹرغلام حیدر خالداس کی مزید وضاحت کچھ یوںکرتے ہیں :

’’ہمارا جسم کچھ اس طرح کا بنا ہوا ہے کہ وہ اپنے معمول کے کام 98.4ڈگری فارن ہائیٹ پرہی بہتر طور پر انجام دے سکتا ہے۔ جسم کو اس خاص درجہ حرارت پر رکھنے کیلئے ہمارے دماغ میں ہائپوتھلمس (hypothalamus)کی شکل میں ایک تھرموسٹیٹ لگا ہوتا ہے۔ پائیروجنزکی وجہ سے ہائپو تھلمس کا تھرموسٹیٹ معمول سے زیادہ سطح پر سیٹ ہوجاتا ہے۔ اب وہ درجہ حرارت کی نئی سطح کو جسم کے لئے نارمل سمجھ کر اسے اس پر لانے کیلئے سرگرمیاں شروع کر دیتا ہے۔یوں ہمارا ٹمپریچر بڑھ جاتا ہے‘دوسرے لفظوں میں ہمیں بخار ہو جاتا ہے۔‘‘

ان کے بقول جب بخار چڑھ رہا ہو توہمیں سردی لگتی ہے‘ اس لئے کہ جسم کو اپنا ٹمپریچر بڑھانا ہوتا ہے۔اسی طرح جب بخار اتر رہا ہو تو ہمیں گرمی محسوس ہوتی ہے اورپسینے آتے ہیں‘ اس لئے کہ اب اس اضافی ٹمپریچر کو ختم کرنا مقصود ہوتا ہے۔ بخار میں ہمیں کمزوری بھی محسوس ہوتی ہے‘ اس لئے کہ مفید کاموں میں استعمال ہونے والی توانائی جسم کو گرم کرنے میں استعمال ہو جاتی ہے۔

بخارکی پیمائش

ڈاکٹر عامرحسین کے مطابق بخار معلوم کرنے کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ تھرما میٹر زبان کے نیچے رکھ کر ٹمپریچرمعلوم کیا جائے۔ بعض اوقات کلینکوں میں بغل کے نیچے تھرما میٹر رکھ کر بخار چیک کیا جاتا ہے جو کچھ زیادہ مفید نہیں۔ڈاکٹر عامر کے بقول اس کے زیادہ استعمال کا سبب عموماً یہ ہے کہ کلینک میں ایک ہی تھرما میٹر ہوتا ہے جسے بار بار استعمال کرنا ہوتاہے، لہٰذا اسے لوگوں کے منہ میں رکھنا اور پھراسے جراثیم سے پاک کر کے دوبارہ استعمال کرنامشکل ہوتاہے ۔
ایک اور طریقہ مقعد (anus) میں تھرما میٹر رکھ کر جسم کا ٹمپریچر معلوم کرناہے۔ یہ اس وقت استعمال کیا جاتاہے جب جسم کا درجہ حرات بہت کم ہو۔مثال کے طور پر اگر کوئی شخص ٹھنڈے پانی میں گر گیا ہو اور عام طریقے سے اس کا ٹمپریچر نہ لیا جا سکتا ہو تو پھراس طریقے کو استعمال میں لایاجاتا ہے ۔

ڈاکٹرغلام حیدر خالد کے مطابق ٹمپریچر معلوم کرنے کے لئے بغل میں تھرما میٹر یا پیشانی پر مخصوص سٹرپ رکھنا درست نہیں‘ اس لئے کہ وہ ہمیں محض جلد کی بیرونی سطح کا ٹمپریچر دیتے ہیں جس پر موسم سمیت کئی عوامل اثرانداز ہوتے ہیں۔لہٰذا ٹمپریچر معلوم کرنے کا درست طریقہ تھرما میٹر کوزبان کے نیچے رکھنایامقعد میں داخل کرنا ہے۔ مزید براں زبان کے نیچے تھرما میٹر رکھ کرٹمپریچر لینے کیلئے ضروری ہے کہ مریض نے اس سے تقریباً پانچ منٹ پہلے کوئی ٹھنڈی یا گرم چیز کھائی یا پی نہ ہو ورنہ رزلٹ متاثر ہو سکتا ہے ۔

بخار‘علاج اور خودعلاجی
بچوں کو بخار ہو تو اکثرمائیں انہیں خود ہی کوئی دوا دے دیتی ہیں۔جانز ہوپکنز چلڈرن سینٹر(امریکہ) میں کئے گئے سروے کے مطابق19فی صد والدین یہ یقین رکھتے ہیں کہ ’’معمولی سا بخار بھی دورے پڑنے یا دماغ کو نقصان پہنچنے کا سبب بن سکتا ہے۔‘‘ اسی سٹڈی میں یہ بھی بیان کیا گیا کہ ’’98فی صد والدین اپنے بچے کا بخار 102تک پہنچنے سے پہلے اسے دوا دے دیتے ہیں۔‘‘

امریکن اکیڈمی آف پیڈیاٹرکس کے مطابق ’’اگر بخار 101 یا اس سے کم ہو اور بچہ بے چینی محسوس نہ کرے اور والدین کو علم ہو کہ اْسے کبھی دورے وغیرہ نہیں پڑتے تو پھر دوائوں سے اس کا علاج عموماً اتنا ضروری نہیں ہوتا۔ ڈاکٹر عامرحسین کے مطابق اگر وہ کھا پی رہا ہے ‘ پوری نیند سو رہا ہے اور کھیلتا بھی ہے تو شاید اْسے کسی علاج کی ضرورت نہیں ہے۔ ہلکے بخار کے علاج کیلئے انہیں چاہئے کہ جس کمرے میں بچہ ہے ‘اْس کا ٹمپریچر معتدل رکھیں ‘بچے کو ہلکے کپڑے پہنائیں، اس لئے کہ زیادہ گرمائش بخار کو تیز کر سکتی ہے۔اس کے علاوہ بچے کو پانی، جوس اور سوپ زیادہ پلائیں کیونکہ بخار ،پانی کی کمی (ڈی ہائیڈریشن) کا باعث بن سکتا ہے۔

جب بچے کا بخار102 ڈگری فارن ہائیٹ سے زیادہ ہو تو اسے کم کرنے والی دوا دی جا سکتی ہے تاہم یہ اتنی ہی مقدار میں دی جائے جتنی لیبل پر لکھی ہے۔ ڈاکٹر عامر کے بقول :
’’ اگر ایک دوا سے آرام نہ آ رہا ہو تو بعض لوگ خود ہی کوئی دوسری دوا لے لیتے ہیں جو غلط رویہ ہے ۔ ایسا نہیں کرنا چاہئے اور ڈاکٹر کے پاس آنا چاہئے ۔ آج کل ڈینگی بخار کی وبا عام ہے جس کی علامات عام بخار جیسی ہی ہیں۔ اگر اس بخار میں غلطی سے بروفین لے لی جائے تو یہ سخت نقصان دہ ہی نہیں، جان لیوا حد تک خطرناک بھی ثابت ہو سکتی ہے ۔اس کی وجہ سے خون بہنا‘ الٹیاں اور معدے کی شدید تکلیف جیسے مسائل سامنے آ سکتے ہیں۔پیناڈول ایسی دوا ہے جو دنیا بھر میں او ٹی سی (over the counter)، مانی جاتی ہے یعنی ڈاکٹری نسخے کے بغیر لی جا سکتی ہے لیکن ایک حد کے اندرہی اسے استعمال کیا جا سکتا ہے ۔‘‘
نزلہ زکام اگر بخار کے ساتھ ہو تو اس کا مطلب انفیکشن ہے ہے ۔اس کی وجہ سے سر میں درداورجسمانی کمزوری بھی ہوتی ہے ۔ ستمبر، اکتوبر اورنومبرکے مہینوں میں وائرس کی وجہ سے انفیکشن زیادہ ہوتا ہے ۔اگران کے ساتھ بخار نہ ہو تو پھر یہ الرجی ہے ۔

کسی سنگین مرض کی علامت
ڈاکٹر عامرحسین کے مطابق بہت سے لوگ بخارکو بیماری سمجھتے ہیں حالانکہ وہ کسی بیماری کی علامت ہے :
’’نشانی (symptom ) وہ ہے جو مریض ڈاکٹر کوبتاتا ہے ۔ مثلاًوہ کہتا ہے کہ’’میرا جسم تپ رہا ہے۔‘اس کے برعکس علامت (sign)وہ چیزہے جو ڈاکٹر تھرما میٹر وغیرہ سے دیکھ کر فیصلہ کرتا ہے کہ اسے واقعتاً بخار ہے اور وہ کتنے ڈگری کا ہے ۔‘‘
ان کے مطابق اگر کسی شخص کومسلسل ٹمپریچر ہو تو یہ خطرناک بات ہے لہٰذا اسے نظرانداز کرنے کی بجائے اس کی وجہ معلوم کرنے کی طرف توجہ دینی چاہئے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ ٹائیفائیڈ‘ملیریا‘ ٹی بی ‘ گلے کی خرابی‘ کینسر‘ آرتھرائٹس ،رسولی ، خون کا سرطان حتیٰ کی ایچ آئی وی یا ایڈزکی طرف اشارہ بھی ہو سکتا ہے ۔بخارمسلسل ہونے کے ساتھ اگر شدید ہو، اس کے ساتھ خطرناک علامات مثلاً پیٹ یا سینے میں درد یا پٹھوں میں کھچائو ہو تو جتنا جلدی ہو، معالج سے رابطہ کریں۔ یاد رہے کہ اصل مسئلہ بخار نہیں بلکہ مرض ہے جس کا علاج کرنا مقصود ہے ۔
گفتگو کو سمیٹتے ہوئے ہم کہہ سکتے ہیں:
٭اگر جسم گرم ہو تو اس کا لازمی مطلب یہ نہیں کہ فرد کو بخار ہی ہے ، اس لئے کہ بخار محسوس ہونے اور بخار ہونے میں فرق ہے ۔ بخار ہم اسے ہی کہیں گے جسے تھرما میٹر بخار تسلیم کرے ۔
٭بخار کوئی بیماری نہیں بلکہ اس بات کی علامت ہے کہ جسم میں کچھ گڑبڑ ہے جوہماری توجہ چاہتی ہے ۔یوں اسے ایک مثبت عامل کہا جاسکتا ہے اس لئے کہ وہ ہمیں کسی خطرے کے بارے میں بروقت آگاہ کر دیتا ہے ۔
٭ہلکے پھلکے بخار میں پیناڈول استعمال کی جاسکتی ہے لیکن واضح رہے کہ اس کی اتنی ہی خوراک(ڈوز) لی جائے جتنی اس پر لکھی ہے ۔
٭اگر آرام نہ آ رہا ہوتواسی دوا کو زیادہ مقدار میں پینے یا خود ہی دوا بدلنے سے اجتناب کیا جائے ۔ ایسے میں ڈاکٹر سے رجوع ضروری ہے تاکہ اس کے پس پردہ سبب معلوم کیا جا سکے ۔
٭اگر ڈاکٹر کہے کہ دوا کی ضرورت نہیں تو اس پر اعتماد کریں اور اسے دوا دینے پر مجبور نہ کریں۔
٭ اگر بخار ہفتوں تک چلا جائے یا اس کے ساتھ دیگر علامات بھی ظاہر ہونے لگیں تو اسے بہت سنجیدہ لیں، اس لئے کہ یہ کسی خطرناک بیماری کی علامت ہو سکتی ہے ۔

Vinkmag ad

Read Previous

موٹاپے سے بچائو کچھ اہم ٹِپس

Read Next

حمل کی آخری سہہ ماہی کہیں ایسا نہ ہوجائے

Leave a Reply

Most Popular