جنس کے تعین میں دشواری

جنس کے تعین میں دشواری

تمام جانداروں کی خصوصیات مثلاً قد ، آنکھوں کا رنگ اوربلڈ گروپ وغیرہ کا تعین جینزسے ہوتا ہے۔ یہ نسل درنسل منتقل ہوتے اوراس عمل کے دوران متعدد تبدیلیوں سے گزرتے ہیں۔ ان میں خرابی مختلف امراض کا سبب بنتی ہے جس کی ایک مثال سی اے ایچ  ہے۔

ایڈرینل گلینڈ کیا ہے

یہ تکون شکل کے غدود کمرمیں پیچھے کی طرف گردوں کے اوپرموجود ہوتے ہیں۔ ان سے تین قسم کے ہارمونزخارج ہوتے ہیں

٭کارٹی سول جسم کو بیماری یا چوٹ کے برے اثرات سے تحفظ دیتا ہے۔ اگر یہ کم مقدارمیں ہو تو متاثرہ فرد شاک میں چلا جاتا ہے۔ یہ وہ کیفیت ہے جس میں دماغ اوردیگراعضاء کو خون کی مناسب مقدارنہیں مل پاتی۔

٭ایلڈوسٹیرون ہارمون جسم میں نمکیات کا توازن برقراررکھتا ہے۔اس کی عدم موجودگی جسم میں پانی اورنمکیات کی کمی جبکہ پوٹاشیم کی زیادتی کا باعث بنتی ہے۔

٭اینڈروجن مردانہ ہارمون ہے جو خواتین میں بھی کم مقدارمیں پایا جاتا ہے۔ خواتین میں یہ ابتدائی نشوونما میں مدد دیتا ہے۔

ان ہارمونزکو بنانے کے لئے مخصوص انزائمزدرکار ہوتے ہیں۔ جینزمیں خرابی ان کی پیداوارکو بھی متاثرکرتی ہے۔ ان کی غیرموجودگی میں دماغ کے غدود پچوٹری گلینڈ سے ایک اورہارمون یعنی اے سی ٹی ایچ خارج ہوتا ہے۔ اس کی زیادتی کے باعث ایڈرینل غدود کا سائزبڑھ جاتا ہے جسے طبی زبان میں’’ سی اے ایچ‘‘ کہتے ہیں۔

مرض کی اقسام

کلاسیکی

اس کے شکاربچوں اوربچیوں میں اینڈروجن ہارمون زیادہ بنتا ہے۔ اس وجہ سے بچوں کے بیرونی تولیدی اعضاء نارمل سے بڑے ہوتے ہیں جبکہ بچیوں میں جنس کے تعین میں دشواری ہوسکتی ہے۔ تاہم دونوں کے اندرونی اعضاء بالکل نارمل ہوتے ہیں۔ اس کی تشخیص عموماً پیدائش کے ابتدائی دنوں میں ہوجاتی ہے۔ نیچے دی گئی علامات کی یوں تو بہت سی وجوہات ہو سکتی ہیں تاہم ان کا ایک سبب زیربحث معاملہ بھی ہے۔

٭قبل ازوقت بلوغت۔

٭بچپن میں تیزی سے نشوونما پانا مگربڑی عمرمیں قد اوسط سے کم ہونا۔

٭نارمل بلڈ پریشراورشوگر لیول برقراررکھنے میں دقت ہونا۔

٭ذہنی تناؤ کا شکارہونا۔

اس کی ذیلی اقسام بھی ہیں جن میں سے ایک میں نمکیات کی بڑی مقدارپیشاب میں ضائع ہو جاتی ہے جبکہ دوسری میں ایسا نہیں ہوتا۔

غیر کلاسیکی

اس کی علامات پہلی قسم کے مقابلے میں کم شدید ہوتی ہیں اورپیدائش کے وقت ظاہرنہیں ہوتیں۔ یہی وجہ ہے کہ زیادہ ترصورتوں میں علا ج کی ضرورت بھی پیش نہیں آتی۔ اس کی تشخیص عموماً بچپن یا نوجوانی میں ہی ہوتی ہے۔ اس کی شکار بچیوں کے بیرونی تولیدی اعضاء نارمل ہوتے ہیں تاہم انہیں ماہانہ ایام میں بے قاعدگی، چہرے پربال، آوازمیں بھاری پن اورکیل مہاسوں جیسے مسائل کا سامنا ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ دونوں بچے قبل ازوقت بالغ ہوجاتے ہیں۔

علاج کے طریقے

اس بیماری کو مکمل طورپر ختم تونہیں کیا جاسکتا مگرادویات کے ذریعے ہارمونز کی کمی کو پورا کرکے علامات میں کمی لائی جا سکتی ہے۔ بعض صورتوں میں سرجری کے ذریعے بیرونی اعضاء کو ٹھیک کیا جاتا ہے ۔

ادویات سے علاج

ان کی مقدار کا تعین پیشاب کی رپورٹوں، بچے کی نشوونما اوربلڈ پریشرکو مدنظررکھ کرکیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ کچھ بیماریوں جیسے دمہ، جوڑوں کی سوزش یا ذہنی دباؤ، عمراورحالات کے ساتھ ادویات کی مقدارتبدیل کی جاسکتی ہے۔ بعض والدین معمولی چوٹوں یا ذہنی دباؤ کی صورت میں ازخود دوا کی مقدارمیں اضافہ کر دیتے ہیں جودرست نہیں۔ معالج کی بتائی گئی مقدارکے مطابق یہ صرف ان صورتوں میں بڑھائی جاسکتی ہے

٭بچے کو تیزیعنی101 ڈگری فارن ہائیٹ کا بخارہو۔

٭کوئی سرجری کروانا ہو۔

٭بچے کو مسلسل قے اوردست کامسئلہ ہو۔

٭ہاتھ یا ٹانگ میں فریکچرہوگیا ہو۔

دواؤں کو لمبے عرصے تک استعمال کرنے سے وزن اوربلڈپریشربڑھنے اورچہرے پر سوجن کا سامنا ہو سکتا ہے۔ دوسری طرف ان کا فائدہ زیادہ ہے اس لئے انہیں باقاعدگی سے استعمال کرنا چاہئے۔

سرجری

یہ 6 سے 8ماہ یا8 سے9 سا ل کی عمرمیں کی جاتی ہے۔

کیا بچاؤممکن ہے؟

یوں توجینیاتی مسائل سے بچنا مشکل ہے تاہم اگردوران حمل اس مرض کی تشخیص ہوجائے توماں کوچاہئے کہ فوراً ڈاکٹر کی تجویزکردہ ادویات شروع کر دے۔ انہیں استعمال کرنے کے10ہفتوں بعد بچے کی جنس معلوم کی جاتی ہے۔اگرلڑکی ہوتویہ دوائیں زچگی تک لینا ہوتی ہیں جبکہ لڑکے کی صورت میں ان کا دورانیہ اورمقدار کم ہوتی ہے۔ 80فی صد کیسز میں یہ عمل مرض پرقابو پانے میں معاون ثابت ہوتا ہے۔

پیدائش کے وقت جنس متعین کرنے میں دقت ہوتووالدین کی جانب سے مختلف رویے دیکھنے میں آتے ہیں۔ مثلاً کچھ انہیں تیسری جنس  سمجھ لیتے ہیں، کچھ ذہنی تناؤکا شکار ہوجاتے ہیں جبکہ بعض صورتوں میں ماؤں کوبلاوجہ قصوروار ٹھہرایا جاتا ہے۔ انہیں چاہئے کہ تحمل مزاجی سے کام لیں اوریہ جان لیں کہ اس کا علاج موجود ہے۔ یہ بھی درست ہے کہ علاج ساری زندگی چلتا ہے مگر متاثرہ افراد اس کے ساتھ نارمل زندگی گزار سکتے ہیں لہٰذا انہیں تنہا نہ چھوڑیں۔

Congenital adrenal hyperplasia, causes of CAH, Types of CAH, Treatment of CAH

Vinkmag ad

Read Previous

کیا سکارف پہننےسے بال گرتے ہیں؟

Read Next

  جلی ہوئی جلداورٹوتھ پیسٹ

Leave a Reply

Most Popular