Vinkmag ad

جھیلوں‘ آبشاروں اورتاریخی ورثے کی حامل سرزمین چکوال

اسدامان
موسم گرما کی آمد کے ساتھ ہی سیاح خواتین و حضرات کی بڑی تعداد ملک کے
شمالی علاقہ جات کا رخ کرتی ہے ‘ اس لئے کہ بہار کی آمد اور سبزہ ان علاقوں کو قابل دیداور دلکش بنادیتا ہے۔ تاہم برسات کے موسم میں ان علاقوں میں جانا خطرے سے خالی نہیں ہوتا‘ اس لئے کہ کچھ علم نہیں بارشوں اور لینڈ سلائیڈنگ کی وجہ سے کب یہ رحمت ‘ زحمت میں اور نعمت‘ آفت میں بدل جائے۔ابھی چند دن پہلے وادی نیلم میں بادل ٹوٹ کر برسے اور مختصر سے وقت میں اتنی بارش ہوئی کہ 24افراد بشمول کئی سیاح اپنی جان سے گئے۔ کئی افراد ابھی تک لاپتہ ہیں۔
دوسری طرف مجبوری یہ ہے کہ بچوں کو ذرا طویل چھٹیاںاسی موسم میں ہوتی ہیں اور گرمی سے بھاگ کر کچھ وقت ٹھنڈے علاقوںمیں گزارنے کو بھی دل چاہتا ہے ۔ ایسے میں سیروتفریح کے لئے جگہ کا انتخاب احتیاط سے کرنے کی ضرورت ہوتی ہے ۔ اسی پہلو کو مدنظر رکھتے ہوئے آج میں آپ کو ایسی جگہوں کی سیرکروائوں گا جو نہ صرف خوبصورت ہیں بلکہ وہاں کسی قسم کی قدرتی آفت بھی بحکم اللہ بہت کم اثرانداز ہوتی ہے۔

میری مرادشہیدوں اور غازیوں کی سرزمین چکوال سے ہے جو شمالی پنجاب کا ایک ترقی یافتہ ضلع ہے۔چکوال کی خاص بات یہاں کی ثقافت‘کھانے اور قدرتی مناظر اور تاریخی ورثہ ہے۔ برسات ہو‘ سخت گرمی یا جاڑے کی ٹھنڈ‘ چکوال آپ کو ہر موسم میں تفریح کے یکساں مواقع فراہم کرتا ہے۔ یہاں کے تفریحی اور تاریخی مقامات اور ان کی تفصیل پیش کی جا رہی ہے تاکہ مون سون میں آپ کے پاس سیروتفریح کے لئے خوبصورت اور قابل رسائی متبادل موجودہو۔
کٹاس راج مندر
کٹاس میںموجود مندر ہندوئوں کی قدیم ترین عبادت گاہوں میں سے ایک ہے جس کا ذکر ان کی الہامی سمجھی جانے والی کتب میں بھی موجود ہے ۔یہ مندر کتنا پرانا ہے‘ اس کے بارے میں مختلف لوگوں کی مختلف رائے ہے‘ تاہم یہ 1500سے 2000سال سے کم قدیم نہیں۔
موٹروے کلر کہا رانٹر چینچ سے اتر کر محض 15سے20منٹ کی مسافت پر کٹاس راج کی وسیع تعمیرات آپ کو خوش آمدید کہتی ہیں۔ پانی کا ایک بڑا تالاب مندر کی خوبصورتی کو چارچاند لگادیتا ہے۔ ہندو دیومالائی داستانوں کے مطابق یہ تالاب شیودیوتا کے اپنی بیوی ستی کے انتقال پر آنسوئوں سے بناتھا ۔ہندو مذہب کی مقدس کتاب مہا بھارت میں بھی اس کا ذکر ہے جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش سے تین سو سال قبل لکھی گئی۔مندر کے ساتھ ہی کئی ہوٹل اور یوتھ ہوسٹل بھی ہے جہاں بوجہ مجبوری رات کو قیام بھی کیاجاسکتا ہے۔
کھنڈوا جھیل
موٹروے کلر کہارانٹرچینج سے محض 10منٹ کی ڈرائیو پر جلیبی چوک واقع ہے۔ وہاں سے دائیں جانب پاکستان سیمنٹ فیکٹری کا راستہ ہے جس پر کھنڈوا نام کا گائوں آتا ہے۔ یہاں موجودجھیل خوبصورتی میں اپنی مثال آپ ہے۔
کھنڈوا گائوں سے تین یاچارکلومیٹر کی ہائیکنگ پر سبز جھیل واقع ہے۔گرمی کے توڑ کے لئے اس جھیل سے اچھی جگہ شاید ہی کوئی ہو۔فیملی کے لئے بھی بہت مناسب جگہ ہے‘ تاہم وہاں جاتے وقت کھانے پینے کا سامان اپنے ساتھ لے کرجانا پڑتا ہے۔یہ جھیل کب اور کیسے تخلیق ہوئی‘ کسی کو نہیں معلوم لیکن قدرتی خوبصورتی کا شاہکارہے یہ جھیل!

نیلا واہن
کلر کہار سے خوشاب روڈ کی طرف ہوجائیں تو بوچھال گائوں سے چند کلومیٹر بعد آپ کو ’’چشمہ آب شفا‘‘کا بورڈ نظر آئے گا۔ یہاں آپ کو ایک وادی دکھائی دے گی جس کے آنگن میں آبشاروں اور چھوٹی جھیلوں کا ایک سلسلہ ہے۔ ایک ساتھ اتنی آبشاریں شاید آپ نے کہیں نہیں دیکھی ہوں گی۔فیملی کے لئے یہ جگہ تھوڑی مشکل ہوسکتی ہے کیونکہ اترائی کا مرحلہ تو باآسانی طے ہوجاتا ہے لیکن چڑھائی کے وقت اگر خواتین ساتھ ہوں تو پھر آپ مسائل کا شکار ہو سکتے ہیں۔اِدھر بھی کھانے پینے کا سامان آپ کو ساتھ لے جانا پڑتا ہے۔
ان آبشاروں کے ساتھ کچھ گھنے جنگل بھی ہیں جن میں سانپ‘ بچھو اور جنگلی سور بھی پائے جاتے ہیں۔ لہٰذا زیادہ ایڈوانچر کرنے کی ضرورت نہیں۔اگر آپ کو تیرنا نہیں آتا تو گہرے چشموں اور جھیلوں سے دور رہیں‘ ورنہ تفریح خدانخواستہ زحمت کی شکل اختیار کر سکتی ہے۔
ملوٹ قلعہ
ملوٹ کا قلعہ ہندوئوں کے دور کی ایک یادگاری تعمیر ہے جہاں سے وہ سالٹ رینج کے قریب میدانوں پر حملہ آوروں پر نظر رکھتے تھے۔ کلر کہار سے جلیبی چوک اور پھر وہاں سے ملوٹ گائوں کا راستہ آپ کو اس پوشیدہ گوہر تک لے جائے گا۔قلعہ کی تعمیر تقریباً 1000سال پہلے ہوئی۔ آج یہ کافی مخدوش حالت میں ہے‘ تاہم یہاں آنے کا ایک فائدہ یہ ہے کہ آپ اس قلعہ سے موٹروے اور پنڈ دادنخان کے میدانوں کا تاحد نظر نظارہ کرسکتے ہیں۔ مغرب کی چائے کا جو مزہ یہاں ہے‘ وہ شاید آپ کو مُنال اسلام آبادیا ملوٹ کے علاوہ کہیں نہیں ملے گا۔کلرکہار سے اس کا فاصلہ تقریباً 12کلو میٹر ہے۔
کیوسک قلعہ
چوآسیدن شاہ سے بشارت گائوں کی طرف جاتی سڑک پر لہر سلطان پور گائوں آتا ہے۔وہاں سے دائیں جانب ایک روڈ ہے جس کا نام ’’Highway to Heaven‘‘ یعنی جنت کا راستہ ہے۔یہ بل کھاتی سڑک آپ کو کیوسک گائوں لے جاتی ہے جو ایک بڑے ٹیلے پر واقع ہے۔اس ٹیلے کو ایک بہت بڑے قلعے نے گھیر رکھا ہے جسے 11ویں صدی میں ایک مقامی راجہ جودھ نے تعمیر کروایاتھا۔ راجہ جنجوعہ خاندان سے تعلق رکھتا تھا۔
ٹیلے کے پیچھے خوبصورت وادیوں کا سلسلہ ہے جو ہائیکنگ اورٹریکنگ کے شوقین افراد کے لئے نہایت موزوں ہے۔آپ اپنا کھانا ساتھ لے جائیں اور قلعہ سے اوپر مندر کے سائے میں چھوٹی بڑی پہاڑیوں کے نظارے کے ساتھ اس کا لطف دوبالا کریں۔قلعے کی دیوار کی لمبائی تقریباً400فٹ ہے‘ تاہم اس سمیت قلعے کی موجودہ حالت کافی خراب ہے۔
چھوٹے ڈیم
ان تاریخی مقامات کے ساتھ ساتھ چکوال میں بہت سے چھوٹے چھوٹے ڈیم بھی ہیں جن کی جھیلیں تفریح کا مناسب موقع فراہم کرتی ہیں۔ان میں دھرابی ڈیم جھیل‘جاتلہ ڈیم‘ ڈھوک ٹالیاں ڈیم‘ کھوکھوزیر ڈیم اور کھائی ڈیم قابل ذکر ہیں۔تمام ڈیموں پر ریسٹ ہائوس اور کشتی رانی کی سہولیات دستیاب ہیں۔برسات کے موسم میں ان ڈیموں پر جانے کا لطف ہی الگ ہے۔
ضروری نہیں کہ قدرتی خوبصورتی کو شمالی علاقہ جات میں ہی تلاش کیا جائے‘ میدانی اور بارانی علاقے بھی ان نعمتوں میںاپنی مثال آپ ہیں۔ اگر آپ معمول سے ذرا ہٹ کر چیزوں کو دیکھنے کے شوقین ہیں تو ان جگہوں کا وزٹ لازماً کیجئے۔اور ہاں! واپسی پرچھپڑبازار چکوال سے یہاں کی خاص سوغات ’’ریوڑی‘‘ لینا مت بھولئے گا۔
نوٹ: کلرکہار کو چونکہ اکثر لوگ جانتے ہیں‘ اس لئے اس کا ذکر قصداً چھوڑ دیاگیا ہے۔

Vinkmag ad

Read Previous

پر سکون نیند،مگر کیسے

Read Next

شادی اور حمل تاخیر کی پیچیدگیاں

Leave a Reply

Most Popular