وہ دن عید کی طرح تھا

ایک سال میں دو سالگرہ

محاورتاً کہا جا تا ہے کہ خدا بچوں کی تکلیف دشمن کو بھی نہ دکھائے تاہم کبھی کبھی آزمائش کا سامنا کرنا پڑہی جاتا ہے۔ بلوچستان کے ضلع ڈیرہ بگٹی کی تحصیل سوئی سے تعلق رکھنے والا چار سالہ تنویراحمد جگر کے عارضے میں مبتلا ہوا تو اسے اور اس کے والدین کو بھی اس صورت حال سے گزرنا پڑا۔  والدین کو ہروقت یہی دھڑکا لگا رہتا کہ وہ کہیں اپنےبچے کوکھو نہ دیں۔ تنویرجگر کے عارضے میں مبتلا  کیسے ہوا اوراس سفرمیں اس اوراس کے والدین پرکیا بیتی؟ جانتے ہیں یہ کہانی ان کے والدعبد الحمید کی زبانی

یہ 2016 کی بات ہے کہ تنویرکوپہلے دست آنا شروع ہوئے اورپھرپیٹ بھی سخت رہنے لگا۔ اسے پیٹ میں اکثردردرہتا اور وزن اتنا کم ہوگیا کہ وہ سوکھ کر لکڑی ہوگیا۔ ہمارےعلاقے میں دوردورتک کوئی ہسپتا ل نہیں ہے۔اس لئے پہلے ایک ماہ یہاں کے اتائیوں اورمقامی ڈاکٹروں سےعلاج کروایا۔ جب افاقہ نہ ہوا توبیٹے کوملتان لے گیا مگراس کی حالت روزبروزخراب ہوتی گئی۔ اس کے بعد لاہورگئے تومعلوم ہوا کہ تنویرکے جگرکو نقصان پہنچ چکا ہے۔ اب اسے کچھ ادویات لینا ہوں گی تاکہ اس کی صحت بحال ہوسکے ۔اس دوران ایک سال تک میں بسوں میں تقریباً 700 کلومیٹر کا فاصلہ طے کرکے پنجاب فالواپ کے لئے آتا تھا۔ جب ڈاکٹروں کواس میں کوئی بہتری دکھائی نہ دی تو انہوں نے شفاانٹرنیشنل ہسپتال اسلام آباد جانے کا مشورہ دیا۔

تنویرکے والدبلوچستان لیویزفورس میں حوالدار کی حیثیت سے کام کرتے تھے۔ ان کے پاس بیٹے کےعلاج کے لئےوسائل کی شدید کمی تھی مگراس کے باوجود انہوں نے اس کی تکلیف دورکرنےکے لئےاپنی بساط سے بڑھ کر کوشش کی۔ ہر طرف سے مایوسی کا سامنا ہونے کے باوجود انہوں نےہمت نہ ہاری ۔

بات جگرکی پیوندکاری تک کیسے پہنچی، اس کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ وہ تقریباً 17 گھنٹے کا سفرطے کرکے شفاانٹرنیشنل پہنچے اوریہاں کے ڈاکٹروں سے ملاقات کی۔

کچھ ٹیسٹوں کے بعد انہوں نے بتایا کہ تنویرکوجگر کی پیوندکاری کی ضرورت ہے۔ جب ہم نے یہ بات سنی تو گویا ہمارے پیروں تلے سے زمین نکل گئی۔ طرح طرح کے خدشات نے ہمیں گھیرلیا، تاہم اس بات کی خوشی بھی ہوئی کہ پاکستان میں بھی یہ سرجری ہورہی ہے۔ آگاہی نہ ہونے کے باعث ہم یہی سمجھتے تھے کہ اس کا علاج صرف بیرون ملک ہوتا ہےاور میرے پاس وہاں جانے کے لئے اتنی رقم نہیں تھی۔ یہاں ڈاکٹروں کی ٹیم نے مجھے سارے طریقہ کار کے بارے میں تفصیلاً بتایا اور بیٹے کی صحت یابی کی امید دلائی تومجھےحوصلہ ہوا۔

تنویر اپنے تینوں بہن بھائیوں میں سے سب سے چھوٹا اورتمام گھر والوں کی آنکھوں کا تارا تھا۔ اسے اس حالت میں دیکھ کر سب ہی تکلیف میں تھے۔ عبد الحمید کے الفاظ میں

اپنی بے بسی کو دیکھ کر اکثررونا آتا تھا۔ کھانے کےلئے بیٹھتے تورودیتے مگراپنے بچےکے سامنےہم نے خود کوکمزور نہیں پڑنے دیا، ا س لئے کہ ہم اس کی امید نہیں توڑنا چاہتے تھے۔ تعجب اور خوشی کی بات یہ تھی کہ اس کا اپنا دل بہت مضبوط تھا۔ سرجری سے پہلےاس کے قریباً80 ٹیسٹ ہوئےمگرنہ تو وہ گھبرایا اورنہ ہی رویا ۔

مرض کی تشخیص کے بعد اگلا مرحلہ جگرکے عطیہ کا بندوبست کرنا تھا۔ ان کی اہلیہ ، وہ اوربیٹی مختلف طبی وجوہات کی بنا پرجگرعطیہ نہیں کرسکتے تھے ۔ وہ خود ہیپاٹائٹس سی کا شکارتھے، اہلیہ کا وزن زیادہ تھا اوربیٹی کی عمرکم تھی ۔اس کے بعد تنویر کے چچانےحامی بھری اورجگر عطیہ کیا۔ دیگر شرائط کے سا تھ جگرکی پیوندکاری کے لئے ضروری ہے کہ ڈونرکی عمرکم از کم 18سال ہو۔ا س کا بی ایم آئی 17سے کم اور 30 سے زیادہ نہ ہو۔

 عبد الحمید جس ادارے سے منسلک تھے انہوں نے سرجری کے تمام اخراجات اٹھائے۔ تاہم سفراوردیگراخراجات کے لئےانہیں اپنا گھراورکچھ جائیداد فروخت کرنا پڑی۔ آخر کارمئی 2019 میں تنویرکی کامیاب سرجری ہوئی۔ آج وہ ایک نارمل اورصحت مند زندگی گزار رہا ہے۔ والد کے بقول

 سرجری کا وہ دن ہمارے لئے عید کی طرح تھا۔ اس کے بعد سے ہم سال میں دومرتبہ اس کی سالگرہ مناتے ہیں۔ایک اس دن جب وہ پیداہوا اوردوسرا جب اس کی کامیاب سرجری ہوئی ۔اس روز اللہ نے اسے نئی زندگی بخشی تھی۔ ہم اس کا جتنا شکرادا کریں، کم ہے۔

یہ ہسپتال ہماری زندگی میں کسی نعمت سے کم نہیں۔ میں تمام ٹیم ممبران کو سلام پیش کرتا ہوں جنہوں نے ہماری خوشیاں واپس لوٹانے کےاس عمل میں حصہ لیا اورآخردم تک ساتھ کھڑے رہے۔اپنے اس تجربے کے بعد یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ پاکستان کا کوئی بھی ہسپتال شفا کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔ یہاں مریض کی دیکھ بھال اپنوں کی طرح کی جاتی ہے۔ عموماً ہسپتال میں مریض کے ساتھ جوبھی آتا ہے وہ خود ہی بھاگ دوڑمیں بیمارہوجاتا ہے لیکن شفا کا نظام دوسروں سے منفرد ہے۔ یہاں کسی پریشانی کا سامنا نہیں ہوا۔

ہرمشکل کے بعد آسانی ہے اورمحنت کا پھل ہمیشہ میٹھا ہوتا ہے۔ لہٰذا آزمائش کی گھڑیوں میں ہمت نہ ہاریں اورتکلیف سے نجات کے لئے ہر ممکن کوشش کریں۔ اپنی اوراپنے پیاروں کی صحت سے متعلق خود کو آگاہ رکھیں اور ضمن میں صرف اس شعبے کے ماہرین کی بات پر عمل کریں۔

liver transplant, success stories, celebrating birthday twice a year, Tanveer Ahmed 

Vinkmag ad

Read Previous

جگر کی پیوندکاری پہلے اور بعد کی احتیاطیں

Read Next

برگر: گھر کا اچھا، باہر کابرا کیوں

Leave a Reply

Most Popular