1173 دفعہ خون کا عطیہ

آسٹریلیا میں جیمزہیریسن (James Harrison) نامی ایک شخص کوسرکار کی طرف سے’’the Man with the golden arm‘‘ یعنی ’’سنہری بازو کا حامل فرد‘‘ قرار دیا گیا ۔ 27دسمبر 1936ء کو پیدا ہونے والے اس بزرگ کا بازو اس بیش قیمت دھات کانہیں بلکہ عام گوشت پوست کا ہی بنا ہوا ہے۔ اس کے باوجود انہیں اس اعزاز دئیے جانے کا سبب یہ ہے کہ مئی2011ء میں انہوں نے 1000 ویں دفعہ خون عطیہ کرنے کا ریکارڈ قائم کیا۔11مئی 2018ء کو آپ نے 1173ویں دفعہ خون دیا جو ان کی طرف سے آخری عطیہ خون ہے‘ اس لئے کہ آسٹریلوی قوانین کے مطابق 81سال کی عمر کے بعد کسی شخص سے خون کا عطیہ نہیں لیا جا سکتا۔ایک اندازے کے مطابق جیمز ہیریسن کی اس کاوش کی وجہ سے اب تک تقریباً24لاکھ بچوں اور حاملہ خاتون کی جان بچانا ممکن ہوا ہے ۔ ابھی کچھ عرصہ قبل ان کا ایک ملین ڈالر کا بیمہ زندگی ہواہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہاں ان کی زندگی کو قیمتی خیال کیا گیاہے ۔ایسے ہیروز اور عظیم شخصیات کو اعزازات لازماًدینے چاہئیں ‘ اس لئے کہ اس سے باقی لوگوں کو بھی دوسروںکے لئے کچھ کرنے کی ترغیب ملتی ہے ۔ہمیں بھی اس مثال کی پیروی کرنی چاہئے۔

جیمزابھی 14برس کے تھے کہ انہیں کسی بیماری کی وجہ سے آپریشن کرانا پڑا۔ آپریشن کی نوعیت ایسی تھی کہ اُنہیں تین گیلن کے لگ بھگ خون لگانا پڑا ۔ اگر اس کا انتظام نہ ہو پاتا تو وہ پھول شایدبن کھلے مرجھا گیا ہوتا۔ اس بیماری کی وجہ سے اُنہیں تین ماہ ہسپتال میںگزارنا پڑے ۔اس چھوٹی سی عمر میں بھی انہیں اس بات کا احساس ہوگیا کہ اوروں کے خون کی وجہ سے ہی اُن کی جان بچی۔آسٹریلیا میں خون دینے کے لئے کم از کم 18سال کی عمرکا ہونا ضروری ہے۔ اُنہوں نے اپنے ساتھ عہد کیا کہ جب وہ اس عمر کو پہنچ جائیں گے تو باقاعدگی سے خون کا عطیہ دیا کریں گے۔ تب سے وہ اپنے ساتھ کئے گئے عہد کو نباہ رہے ہیں۔
جب انہوں نے پہلی بارخون دیا تو معلوم ہو اکہ ان کے خون میں ایک بہت ہی اہم اور مفید عنصر آر ایچ امیون گلوبیولین (rh immune globulin) بھی موجو دہے۔اسے ’’رہو گیم‘‘ (RhoGAM)بھی کہاجاتا ہے۔یہ عنصر اپنی نایابی کی وجہ سے خون سے بھی زیادہ قیمتی ہے اور اسے پلازمہ سے الگ کرکے باآسانی نکالاجاسکتا ہے۔تب سے جیمز جب خون دیتے ہیں تو ڈاکٹر اس سے وہ عنصر نکال کر باقی خون انہیں لوٹادیتے ہیں۔اس طریقہ کار سے وہ ہردوہفتے بعد خون کا عطیہ دینے کے قابل ہوجاتے ہیں ۔ اگر ایسا نہ ہوتا تواُنہیں خون دینے کے لئے کئی ہفتے انتظار کرنا پڑتا‘ اس لئے کہ مکمل خون دوبارہ بننے کیلئے زیادہ وقت درکار ہوتا ہے۔

انسانوںکے خون کے چار بڑے گروپ اے،بی،اے بی اوراوہیں۔سائنسی اعتبار سے بندروں کاانسانوں کے ساتھ قریبی رشتہ ہے۔ان کی ایک قسم رہیسز (rhesus)پاکستان اور بھارت میں بھی پائی جاتی ہے۔تقریباً85فی صد انسانوں کے خون میں ایک ایسا عنصر بھی ہوتا ہے جو ان بندروں کے خون میں بھی پایا جاتاہے۔ اسی نسبت سے اسے آر ایچ فیکٹر(rh factor) کہا جاتا ہے۔ جس خون میں یہ پایا جائے، اسے پازیٹو اور جس میںنہ پایا جائے وہ نیگٹو کہلاتا ہے۔اس طرح خون کے گروپ چار کی بجائے آٹھ ہوجاتے ہیں جواے پازیٹو، اے نیگٹو،بی پازیٹو، بی نیگٹو، اے بی پازیٹو، اے بی نیگٹو،او پازیٹو اور او نیگٹوہیں۔
کسی شخص کو خون دیتے وقت ان گروپوں کو دھیان میں رکھا جاتا ہے۔ اگر کسی کو غلط خون لگا دیا جائے تو اس کے نتائج بہت بُرے نکل سکتے ہیں جن میں گردوں کا اپناکام چھوڑدیناتک شامل ہے۔اس کا سبب یہ ہے کہ ہمارے خون میں خون کے باقی گروپوں کے خلاف اینٹی باڈیزموجود ہوتی ہیں جو بیرونی گھس بیٹھیوں کے خلاف جسم کے دفاعی نظام کا اہم جزوہے۔ماں اور اس کے ہونے والے بچے کے خون کا نظام الگ الگ ہوتا ہے لیکن زچگی کے وقت بچے کا خون تھوڑی مقدار میں ماں کے خون میں شامل ہو جاتا ہے۔ اگر حاملہ خاتون کے خون کا گروپ نیگٹواور اس کے ہونے والے بچے کا پازیٹو ہو تو ماں کے خون میں اس کے خلاف اینٹی باڈیز پیدا ہوجاتی ہیں۔ اس سے پہلے بچے پر تو برے اثرات نہیں پڑتے مگر آئندہ ہونے والے حمل میں اگر رحم میں موجود بچہ پازیٹو ہو تو یہ اینٹی باڈیز اس کے خون پر حملہ آور ہو کر اس کے سرخ خلیوں کو توڑنا پھوڑنا شروع کر دیتی ہیں۔اس سے اس کی جان خطرے میں پڑسکتی ہے۔اگر یہ عمل چھوٹے پیمانے پر ہو تو بچے کو یرقان ہوجاتا ہے اوروہ پیلا پڑ جاتا ہے۔اس سے جسم میں سوجن بھی ہوسکتی ہے ۔ اگر یہ سوجن دماغ کی ہوتو اسے شدیدنقصان پہنچتا ہے جس کا کوئی علاج نہیں۔ اس کو رہیسز کی بیماری (rhesus disease) کہاجاتا ہے جس کا نیانام ایچ ڈی این (Hemolytic Disease of the Newborn) ہے۔

رہیسز کی بیماری کے سدباب کے لئے رہو گیم بذریعہ انجکشن دیاجاتا ہے۔اس کے لئے جن علامات کو مدنظر رکھا جاتا ہے‘ ان میں سر فہرست ماں کاآر ایچ نیگٹواوربچے کا پازیٹوہوناشامل ہے۔اگر کسی وجہ سے حمل ضائع ہوجائے اوربچے کے خون کا گروپ معلوم نہ ہوسکے تو بھی یہ دیا جاتا ہے۔ ماں کے پیٹ یا اس کے اردگرد کے حصے میں کسی چوٹ کی وجہ سے رحم میں موجود بچے کا خون ماں کے خون میں داخل ہوسکتا ہے ۔ ایسے میں ڈاکٹر اس کے رحم سے پانی نکال کراس کا ٹیسٹ کرتے ہیں۔ اگر ماں کے خون کا گروپ نیگٹو ہو تو اسے رہوگیم دیاجاتا ہے۔اگر رحمِ مادر میں بچہ غلط پوزیشن میں پڑا ہو اور اُسے ٹھیک کرنا ہو تو بھی یہ دیاجاتا ہے۔
جیمز ہیریسن جیسے رحم دل اورسخی لوگ کسی فرشتے سے کم نہیں۔ جیمز ان لوگوں کے لئے مشعل راہ ہیں جو صحت مند اور خون دینے کے قابل ہونے کے باوجود یہ صدقہ جاریہ کرنے سے ہچکچاتے ہیں۔

Vinkmag ad

Read Previous

اپنے تصورات درست کیجئے

Read Next

مانع حمل ادویات کب اور کیسے استعمال کریں

Leave a Reply

Most Popular