احمد سکول سے گھر آیا تو بہت تھکا تھکا اور بیزار سا تھا۔ بدن کی حرارت بتا رہی تھی کہ اسے بخار بھی ہے‘اس لئے بنا کچھ کھائے پیئے خاموشی سے لیٹ گیا۔ کچھ طبیعت سنبھلی تو باہر کرکٹ کھیلنے چلا گیا ۔ واپسی پر پھر اسے بخار تھا جس کی شدت 104 ڈگری تھی۔وہ ساری رات بخار میں تپتا رہا۔ اگلے دن ابو نے احمد کو قریبی ہسپتال لے جانے کا فیصلہ کیا۔طبی معائنہ کے بعد یہ سمجھا گیا کہ احمد کو ملیریا ہے لہٰذا اسے جراثیم کش اینٹی بایﺅٹک ادویات دی جانے لگیں مگر افاقہ ہونے کے بجائے بخار بگڑ کر 106 ڈگری تک پہنچ گیا۔رات کو امی ابو سے احمد کی یہ حالت دیکھی نہ گئی لہٰذا وہ اسے پھر ہسپتال لے گئے۔ڈاکٹر کو ایمرجنسی میں کال کی گئی جس نے مریض کے معائنہ کے بعد ’این ایس 1‘نامی ٹیسٹ تجویز کیا۔اس کے لئے خون کا نمونہ لیا گیا اور نتیجہ پازیٹو نکلا یعنی احمد ڈینگی بخار کا شکار ہو چکا تھا۔
ڈینگی بخار ایک ایسے مچھر سے پھیلتا ہے جس کی ٹانگیں کالی اور سفید ہوتی ہیں ۔عام مچھر ٹھہرے ہوئے آلودہ پانی میں پرورش پاتا ہے جبکہ ڈینگی کا سبب بننے والا مچھر صاف پانی پر بھی پایا جاتا ہے۔ ڈینگی کی صورت میں اینٹی بائیوٹیکس کا استعمال زہر ثابت ہوتا ہے۔ احمد کے مرض کے بگڑنے کی وجہ بھی یہی ادویات بنیں جوملیریا کے خاتمے کے لئے دی گئی تھیں۔اس کے ماں باپ کے لئے یہ خبر کسی صدمے سے کم نہ تھی ۔
ہر گزرتے دن کے ساتھ احمد کی صحت بگڑتی جا رہی تھی لہٰذا اسے فوری طور پر قریبی ہسپتال میں داخل کر دیا گیا ۔آئی سی یو میں اس کے علاوہ ڈینگی بخار سے متاثرہ 10افراد اور بھی موجود تھے۔ اپنے ساتھ والے بیڈ پر مریضوں کو جان کی بازی ہارتے دیکھ کر اس کی اور اس کے گھر والوں کی پریشانی میں مسلسل اضافہ ہورہا تھا ۔اس کے والدین نہ صرف اس کے لئے بلکہ وارڈ میں موجود تمام مریضوں کی صحت کے لئے دعائیں مانگ رہے تھے۔راولپنڈی کے ایک میڈیکل سپیشلسٹ ڈاکٹر ظفراقبال نے شفا نیوز کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کہا:
”ایک عام انسان کے خون میں ’پلیٹ لیٹس‘ کی تعداد 150,000 سے 400,000 تک ہوتی ہے ،جبکہ مریض کے خون میں پہلے دن یہ تعدادکم ہوکر 80,000 رہ گئی تھی۔دوسرے دن یہ 50,000 تک آ گئی ۔‘ جوں جوں یہ تعداد کم ہوتی گئی مریض کی طبیعت بھی خراب سے خراب تر ہوتی گئی۔بالآخر کچھ اقدامات کے نتیجے میں پلیٹ لیٹس کی تعداد میں اضافہ ہونا شروع ہو ا جس سے اس کی جان بچ گئی ۔“
ڈینگی کی علامات
الائیڈ ہسپتال کے میڈیکل سپیشلسٹ اور اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر محمد اویس فضل نے شفا نیوز کو ڈینگی کی علامات بتاتے ہوئے کہاکہ ان میں بخار،ہڈھیوں اور سر میں درد ،متلی کی شکایت اور ناک اور مسوڑھون سے خون بہنا شامل ہیں ۔اس کے علاوہ کچھ مریضوں کے خون میں پلیٹ لیٹس کی کمی بھی واقع ہو سکتی ہے۔
احتیاطی تدابیر
اس بیماری سے بچنے کے لئے ضروری ہے کہ گھر کے اندر یا اس کے آس پاس پانی جمع نہ ہونے دیاجائے ۔ اس لئے گھر کے آس پاس موجود پانی کے گڑھے مٹی سے بھر دیں یا ان پر تیل چھڑک دیں تاکہ مچھر وہاں بیٹھنے نہ پائیں ۔اسی طرح گھر‘ خصوصاً باورچی خانے کو صاف رکھیں ۔اس بات کا خاص اہتمام کریں کہ مچھر گھر میں گھسنے نہ پائیں ۔اس کے لئے دروازوں اور کھڑکیوں پر جالی لگوائیں اور خاص طور پر صبح اورشام کے وقت انہیں بند رکھیں، اس لئے کہ وہ انہی اوقات میں زیادہ کمروں میں داخل ہوتے ہیں۔اگرانہیں اس طرح روکنا ممکن نہ ہو تو پھر مچھر دانیاں استعمال کریں۔
اس کے علاوہ مچھروں کے موسم اور ماحول میں ایسا لباس پہنیں جو جسم کو زیادہ سے زیادہ ڈھانپ سکے ۔بدن کے کھلے حصوں پر مچھر بھگانے والی اشیاءمثلاً لوشن وغیرہ کا استعمال کریں ۔ مچھر باریک کپڑوں میں سے بھی کاٹ سکتے ہیں لہٰذا حسبِ ضرورت کپڑوں پر بھی مچھر بھگانے والا سپرے کرنا چاہئے ۔ ان حفاظتی تدابیر کے اختیار کرنے سے بڑی حد تک مچھر کے کاٹنے اور ڈینگی بخار جیسے موذی مرض سے اپنے آپ کو بچایا جا سکتا ہے۔احتیاط کریں، اس لئے کہ ’پرہیز علاج سے بہتر ہے‘ ۔
……………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………..
ڈینگی کا پہلا حملہ
جب ڈینگی وائرس کی حامل مادہ مچھرکسی صحت مند شخص کو کاٹتی ہے تواسے وائرل انفےکشن ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے اسے تیز بخار اور سر میں درد شروع ہوجاتا ہے ۔اس مرحلے میں بخار اگرچہ شدید ہوتا ہے لےکن اس میں گھبرانے کی ضرورت نہےں ہوتی۔ اس کا وقفہ تےن سے سات دن تک ہے اوراس دوران مریض کو پےناڈول ‘ زےادہ سے زےادہ پانی پےنے ‘ آرام کرنے اور اپنے آپ کو مچھروں سے بچانے کے علاوہ کسی چےزکی ضرورت نہےںہوتی ہے ۔اگر ان باتوں پر عمل کیا جائے تو ےہ ہفتہ دس دن میں خود ہی ٹھےک بھی ہو جاتا ہے۔
ڈینگی کا دوسرا حملہ
ڈینگی بخار میں مبتلا شخص کو اگر مچھر دوبارہ کاٹ لے توصورت حال بگڑ جاتی ہے اور مرض دوسرے مرحلے میں داخل ہو جاتا ہے جسے جرےان خون والا بخار (hemorrhagic fever)کہا جاتاہے ۔اس میں مرےض کے ناک‘مسوڑھوں اوربعض اوقات پےشاب میں خون آنے لگتا ہے اور خون کی الٹےاں بھی ہو سکتی ہےں۔اس کا سبب خون بہنے سے روکنے میں مدد دےنے والے خون کے ذرات پلےٹ لےٹس کا کم ہوجانا ہے ۔
”ہسپتال میں ڈےنگی کے مرےضوں کےلئے الگ وارڈ ےا کمرے مختص کئے گئے ہےں جس کا مقصد انہےں مچھروں سے بچانا ہے ۔اےسا کرنے کی دو وجوہات ہےں۔ پہلی ےہ کہ مچھر انہےں دوبارہ کاٹ کر ڈےنگی کے مرض کو پےچےدہ نہ کر دے جبکہ دوسرا سبب ےہ ہے کہ مچھر ان سے وائرس لے کر دےگرلوگوں کومنتقل نہ کر سکیں۔
ڈینگی کا تیسرا حملہ
اگر اس مرحلے پر بھی علاج نہ ہو سکے تو پھر ڈےنگی بخار خطرناک مرحلے میں داخل ہو جاتا ہے جسے ”ڈےنگی شاک سےنڈروم (Dengue Shock Syndrome)کا نام دیا جاتا ہے ۔ اس صورت حال میں مرےض کے جسم میں خون کی بہت زےادہ کمی ہو جاتی ہے جس سے دماغ اور جگر متاثر ہو سکتا ہے اورمرےض کی موت بھی واقع ہو سکتی ہے۔اس میں مرےض کی نبض اور اس کا بلڈپرےشر بھی کم ہوجاتا ہے۔
