آج صبح سے یونیورسٹی میں چہل پہل تھی ۔جگہ جگہ سرخ رنگ کے بینرز آویزاں تھے جن پر ایڈز سے متعلق مختلف پیغامات تحریر کئے گئے تھے ۔اساتذہ اور طلبہ و طالبات نے بھی سرخ ربن اپنے کپڑوں پر چسپاں کر رکھے تھے ۔ یکم دسمبرکوپاکستان سمیت دنیا بھر میں ایڈز کا عالمی دن منایا جاتا ہے جس کا مقصد لوگوں میں اس خطرناک مرض کے بارے میں آگہی پھیلانا ہوتا ہے۔یہ تمام تیاریاں اسی موضوع پر منعقدہ ایک سمینار کے لئے کی گئی تھیں۔پاکستان میں نیشنل ایڈز کنٹرول پروگرام کے تحت اس د ن واک‘ سمینارز اور دیگر پروگرامات کا انعقاد کیا جاتا ہے تاکہ لوگوں کو اس مرض کی سنگینی‘ اس کے لاحق ہونے کے اسباب‘ بچائو کیلئے اقدامات اور خدانخواستہ مرض ہو جانے کی صورت میں علاج کے امکانات کے بارے میں آگاہ کیا جا سکے۔ سمینار میں مقررین نے اس کے مختلف پہلوئوں پر اظہارخیال کیا جس کی تفصیل درج ذیل ہے :
ایڈز کیا ہے
ایڈز ایک وائرس کی وجہ سے لاحق ہوتا ہے جسے ایچ آئی وی (Human Immunodeficiency Virus) کہتے ہیں۔یہ جراثیم جسم میں داخل ہو کران سفید خلیوں کو خطرناک حد تک کم کر دیتے ہیں جوبیماریوں کے خلاف مزاحمت کرتے ہیں۔ یوں اس مرض کے شکار افراد میں چھوٹی موٹی بیماریوں کے خلاف لڑنے کی صلاحیت بھی خطرناک حد تک کم ہو جاتی ہے۔
عام طور پر ایچ آئی وی سے متاثرہ افراد میں مرض کی علامات ایک سے چار سال کے عرصے میں ظاہر ہوتی ہیں۔ جن لوگوں میں مرض کے جراثیم تو موجود ہوں لیکن ابھی مرض کی علامات ظاہر نہ ہوئی ہوں‘ انہیں ’’ایچ آئی وی پازیٹو‘‘ کہا جاتا ہے۔علامات ظاہر ہونے پر فرد ایڈز (Acquired Immune Deficiency Syndrome)کا مریض قرار پاتاہے۔یہ ایچ آئی وی سے ہونے والے انفیکشن کے بعد کا آخری مرحلہ ہے جس میں مریض کے سی ڈی فور(CD4 ) خلیوں کی تعدد 200 سے کم ہو جاتی ہے۔ ایک صحت مند شخص میں ان خلیوں کی تعداد 1000 یا اس سے زیادہ ہوتی ہے۔
مرض کی علامات
جس شخص کو ایڈز ہوجائے‘ اس میں مندرجہ ذیل علامات ظاہر ہونے لگتی ہیں :
٭٭ ایک ماہ تک مسلسل بخار ۔
٭ شدید تھکن ہونا ۔
٭ ٹانگوں کے جوڑوں یا گلے میں غدود کی سوجن۔
٭جلد پربھورے رنگ کے دانے نکلناجن میں خارش بھی ہو سکتی ہے۔
٭ ایک ماہ سے زیادہ متواتر خشک کھانسی اور دم گھٹنا۔
٭ ایک ہفتہ سے زیادہ مسلسل جاری رہنے والے دست۔
٭ یادداشت کی کمزوری‘ ڈپریشن اور دوسری اعصابی بیماریاں
َ٭ مختصر عرصے میں جسم کا وزن 10فی صد سے زیادہ کم ہو جانا۔
ایچ آئی وی ٹیسٹ
یہ علامات دیگر امراض میں بھی ظاہر ہوتی ہیں لہٰذا محض علامات ظاہر ہونے پر یہ نہیں کہا جا سکتا کہ متعلقہ فرد ایچ آئی وی پازیٹو یا ایڈز کا مریض ہے ۔ اس کے لئے ایک ٹیسٹ کی ضرورت ہوتی ہے جس کے بعد فرد کے ایچ آئی وی پازیٹو کے حامل ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ کیا جاتا ہے ۔ اس لئے اگر کسی فر د میں مذکورہ بالا علامات ظاہر ہوں تو اس مرض کے امکان کو بھی سامنے رکھنا چاہئے۔
اگر کسی شخص کو ایچ آئی وی پازیٹو ہوئے تین ہفتوں سے چھ ماہ ہوئے ہوں تو اس کا ایچ آئی وی سکریننگ ٹیسٹ منفی بھی آ سکتا ہے ۔ ایسی صورت حال میں دوبارہ ٹیسٹ ضرور کروانا چاہئے۔
مرض کیسے پھیلتا ہے
اس مرض کا وائرس انسانی جسم میں خود بخود پیدا نہیںہوتابلکہ متاثرہ شخص سے دوسرے فرد میں منتقل ہوتا ہے ۔اس منتقلی کے عمومی ذرائع مندرجہ ذیل ہیں :
٭ایڈز سے متاثرہ آلات جراحی کے استعمال سے۔
٭ ایڈز سے متاثرہ ماں سے پیدا ہونے والے بچے کو۔
٭ایچ آئی وی/ ایڈز سے متاثرہ مرد سے مرد‘ مرد سے عورت اور عورت سے مرد کے جنسی تعلقات کے ذریعے ۔
٭ایچ آئی وی سے متاثرہ خون لگوانے سے ۔
٭استعمال شدہ سرنج کا بار بار استعمال۔
٭آلات جراحی و دندان سازی وغیرہ۔
٭وائرس سے متاثرہ اوزار جلد میں چبھنے سے۔
پاکستان میں یہ مرض سب سے زیادہ ان لوگوں میں ہے جو انجیکشن کے ذریعے نشہ کرتے ہیں۔ اس کے بعد غیرمحفوظ جنسی تعلقات رکھنے والوںمیں یہ مرض زیادہ پایا جاتا ہے ۔کچھ لوگوں یا مخصوص طرز زندگی رکھنے والوں میں ایڈز کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔اس لئے وہ افراد جن کے ایک سے زیادہ لوگوں کے ساتھ جنسی تعلقات ہوں‘ وہ انجیکشن کے ذریعے نشے کی لعنت میں گرفتار ہوں یا رہے ہوں‘ انہوں نے غیرمعیاری جگہ سے دانتوں کا علاج کرایایا خون لگوایا ہو‘ان کے /کی شریک حیات کو یہ مرض لاحق ہو‘ وہ یہ ٹیسٹ ضرور کروائیں جو سرکار کی طرف سے متعین مراکز اور ہسپتالوں میں بالکل مفت کیا جاتا ہے۔
احتیاطی تدابیر
اس مرض سے بچاؤ کا ایک ہی راستہ ہے اور وہ ہے پرہیز۔اس لئے ضروری ہے کہ مندرجہ ذیل احتیاطی تدابیر پر عمل کیا جائے:
٭ خون کا انتقال تب ہی کروائیں جب اس کی اشد ضرورت ہو۔جب بھی خون یا اس کے اجزاء لگوائیں ‘اس بات کا یقین کر لیں کہ وہ ایڈز اور ہیپاٹائٹس بی یا سی کے وائرس سے پاک ہیں۔
٭ زیادہ افراد کے ساتھ اورغیر محفوظ جنسی تعلقات سے بچیں۔
٭ ہمیشہ نئی ڈسپوزیبل سرنج استعمال کریں اور استعمال کے بعد سرنج ضائع کر دیں۔
چند غلط مفروضے
ایڈز سے جڑے بہت سے مفروضے سننے کو ملتے ہیں جن میں کوئی سچائی نہیںہے ۔ ان میں سے چند مندرجہ ذیل ہیں۔
٭یہ چھوت کی بیماری نہیں ہے یعنی سماجی تعلقات مثلاً ہاتھ ملانے، ساتھ کھاناکھانے،گلے ملنے اور ایک کمرے میں رہنے سے یہ نہیں لگتی۔
٭یہ مرض ایڈز کے مریض کی تیمارداری اور اس کے کپڑے یا برتن دھونے سے منتقل نہیں ہوتا۔
٭ایڈزہوا کے ذریعے،کھانسنے یا چھینکنے سے پیدا نہیں ہوتا۔
زندگی ایک نعمت ہے جس کی قدر کی جانی چاہئے ۔ان تمام عوامل اور اس طرز زندگی سے بچنا چاہئے جو اس مہلک مرض کا باعث بن سکتے ہوں۔ اگر خدانخواستہ یہ مرض ہو جائے تو اس کا ہمت سے سامنا کرنا چاہئے جس کا پہلا مرحلہ اس کی تشخیص ہے ۔اس کے بعدعلاج کا مرحلہ ہے جس میں غفلت نہیں کرنی چاہئے ۔ایڈز اگر ایک دفعہ ہو جائے تو اس کا وائرس مکمل طور پر ختم نہیں ہوتا لیکن باقاعدگی سے علاج کیا جائے تو نارمل انسان کی طرح زندگی گزارنا ممکن ہے ۔مزید برآں ایڈز بھی دیگر امراض کی طرح ایک بیماری ہے جس کے پھیلنے کی ایک سے زیادہ وجوہات ہیں۔ اس کے مریضوں سے نفرت کی بجائے محبت اور ہمدردی کا رویہ اختیار کرنا چاہئے۔
