بچوں کی صحت    

بچوں کی صحت

مسز میجر جاوید میری بہت اچھی فرینڈ ہیں۔ ایک دن ہم آپس میں بیٹھی باتیں کر رہی تھیں کہ انہوں نے اپنے بچے کا ذکر بڑے ہی دکھ بھرے انداز میں چھیڑ دیا۔ کہنے لگیں:
”میں صحن میں پڑی چارپائی پر بیٹھی‘سردیوں کی دھوپ کا مزہ لے رہی تھی جبکہ بچے میرے پاس ہی کھیل رہے تھے۔ اچانک چھ سالہ علی میرے پاس آکر بولا:”ماما جی! اللہ میاں سے کہیں کہ مجھے دوبارہ پید ا کرکے احمد جیسا بنادیں تاکہ میں بھی اس کی طرح چھلانگیں لگا سکوں۔“
”کیوں، اس نے ایسا کیوں کہا؟“مےں نے پوچھا:
”میں اس وقت اونگھ رہی تھی‘اس کی بات پر چونک کر بیٹھ گئی۔ اس کے اس جملے پر میرا دل دھک سے رہ گیاتھا۔ میں نے لپک کراسے گود میں بھرلیا اور جی بھر کر پیار کیا۔ والدین بعض اوقات بچوں کی کسی بات پر ایسے لاجواب ہوجاتے ہیں کہ ان کے پاس لفظ ہی ختم ہوجاتے ہیں۔میرے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہواتھا اور مجھے بھی ایک لمحے کے لئے ایسے لگا جیسے میں گونگی ہوگئی ہوں۔“ اس نے میری بات کا جواب دینے کی بجائے اپنی بات مکمل کی اور پھر بولی:
”اللہ نے مجھے دو چاند سے بیٹے دئیے‘ تاہم ان میں سے ایک چاند یعنی چھوٹے بچے کی ریڑھ کی ہڈی میں خم (Scoliosis) تھا۔ہمیں یہ بات اس کی پیدائش کے کچھ عرصے بعد معلوم ہوئی ۔ جس دن مجھے اس کا علم ہوا ‘اس دن تو مجھے ایسے لگاجیسے میرا دل ہی بند ہوگیا ہو۔میں بہت روئی‘بارباراپنے ہاتھوں پر اس امید پر چٹکی کاٹی کہ یہ خواب ثابت ہو۔اسی دوران میرے ابو بھی مجھ سے ملنے آگئے۔ مجھے روتادھوتا دیکھ کر پریشان تو ہوئے مگر ناراض بھی بہت ہوئے۔کہنے لگے ’کہ بیٹا !میں نے آپ کی ایسی تربیت تو نہیں کی تھی کہ آزمائش پڑنے پر صبرکرنے اور حوصلہ دکھانے کی بجائے رونا شروع کردو۔‘ ان کی بات سنتے ہی میرے آنسو خشک ہوگئے اور میں اچانک خاموش ہوگئی۔انہوںنے پاس بٹھا کر بڑے پیار سے مجھے کہاکہ ’ بیٹا جی! آزمائش تو آگئی۔ اسے گزارنا توہے‘ خواہ رو کر گزارو یا ہنس کر۔ بہتریہی ہے کہ اسے حوصلے سے گزارو۔‘مجھے آج بھی وہ جملہ یاد ہے جو اُس وقت انہوں نے مجھ سے کہاتھا:”It is better to become a symbol of inspiration than a symbol of pity.” یعنی دوسروں کے لئے حوصلے کی علامت بن جانا‘ اس شخص سے کہیں بہتر ہے جس پر سب ترس کھا رہے ہوں۔‘ اس کے بعد اس معاملے پر میں کبھی نہیں روئی۔
”اچھا پھر؟آپ نے پہلے کبھی اس موضوع پر بات نہیں کی ؟“ میں نے حیرت سے پوچھا۔
اس نے بتایا کہ وہ جب اس خاص کیفیت سے نکل آئی تو اس کے لئے اگلا مرحلہ یہ جاننا تھا کہ ”ریڑھ کی ہڈی کی خمیدگی“ کا مرض اصل میں ہے کیااور اس کا علاج کیا ہے؟وہ لاہور سے تعلق رکھنے والے ایک ماہر امراض ہڈی و جوڑ (Orthopedic Surgeon)ڈاکٹر افضل احمد کے پاس گئے۔انہوں نے بچے کا تفصیلی معائنہ کیا اورپھر کہنے لگے:
”ہرنارمل انسان کی کمرمیں ایک قدرتی خم (curve) ہوتا ہے جو توازن برقرار رکھنے اورچلنے پھرنے میں ہماری مدد کرتا ہے۔ اس مرض میں یہ ہڈی ایک طرف کو مڑی ہوتی ہے۔ ایسا ہر 100میں سے3افراد کے ساتھ ہوتاہے۔“
ڈاکٹر محمد علی شاہ کا تعلق ڈیرہ اسماعیل خان سے ہے اور وہ ماہرامراض ہڈی وجوڑہیں ۔ان کا کہنا ہے کہ اس مرض کی جانچ کے لئے ڈاکٹرحضرات ہڈیوں کا معائنہ کرنے کے علاوہ ایکسرے بھی کرتے ہیں اور شدید علامات کی صورت میں سی ٹی سکین یا ایم آر آئی بھی کیا جاسکتا ہے۔
ان کا کہناہے کہ اکثرصورتوں میں یہ جھکاﺅ معمولی نوعیت کا ہوتا ہے جس میں علاج کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی‘ تاہم ہرچار سے چھ ماہ کے بعد اس کا چیک اپ ضروری ہے تاکہ اس بات کا جائزہ لیا جا سکے کہ یہ خم کہیں زیادہ بڑھ تو نہیں رہا‘ اس لئے کہ شدید صورتوں میں یہ پھیپھڑوں یا دل کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔
ڈاکٹرشاہ کا یہ بھی کہناہے کہ ریڑھ کی ہڈی میں خم دو طرح کا ہوتا ہے۔ ان میں سے ایک کی شکل انگریزی حرف سی (C) جبکہ دوسرے کی ایس(S) جیسی ہوتی ہے۔ موخرالذکر کو ”ڈبل کٹر“ بھی کہتے ہیں اور یہ زیادہ نقصان کا باعث ہے۔
بچوں میں اس کے مسائل پر گفتگو کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ جب ان کی ہڈیوں کی نشوونما ایک خاص حد تک پہنچنے کے بعد رُک جاتی ہے تو خم کی شدت میں بھی کمی آجاتی ہے۔ بڑھوتری کے سالوںمیں ڈاکٹر حضرات عموما ًبریسز( braces) کا مشورہ دیتے ہیں جو خم کو بڑھنے سے تو روکتے ہیں لیکن اسے ٹھیک نہیں کرتے۔ انہیں ہر وقت پہنے رکھنا ضروری ہوتا ہے۔ ہڈیوں کی بڑھوتری کی عمر کے بعد ان کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ اگرخم بہت زیادہ ہو توآپریشن بھی تجویزکیاجاسکتا ہے۔
مسز جاوید تھوڑی دیر خاموش رہیں‘ پھر کہنے لگیں:
”امیداورناامیدی کی کشمکش کے دوران گزرتی زندگی جیسی ہوتی ہے‘ ویسی ہی میری بھی ہے۔اب میرا علی 13سال کا ہوگیا ہے۔ وہ اب کافی بہتر ہے‘مگر اس کے احساسات کیا ہےں‘ یہ مجھے اس کی ڈائری پڑھ کر معلوم ہوا۔ آپ بھی پڑھیں۔“ اس نے ہاتھ میں پکڑی ڈائری میری طرف بڑھا دی۔ میں نے وہ صفحہ پڑھنا شروع جو اس نے مجھے نکال کر دیاتھا۔
”جب دریا مڑتا ہے تو خوبصورت دِکھتا ہے۔ پانی وہاں جاتا ہے جہاں اس کا بہاﺅ اس کو لے جاتا ہے۔ اس(پانی) میں طمانیت اور سکون ہے۔میرا جسم بھی اسی جانب کو جاتا ہے جہاں اس کی بڑی (ریڑھ کی)ہڈی اسے لے جاتی ہے۔ تو پھر میرے وجودمیں توازن اور خوبصورتی کیوں نہیں؟ یہ بُری کیوں دِکھتی ہے؟۔ میں ساری عمر کے لئے اس موڑ میں قیدکیوںہوگیا ہوں۔“
”کیا یہ اس کی اپنی تحریر ہے؟“ میں نے حیرت سے پوچھا جس پر اس نے اثبات میں سر ہلا یا۔ میں نے آگے پڑھنا شروع کیا:
”لوگ اچھے اچھے مناظر دیکھتے ہیں اورپھر ان کی تصویر کو اپنے ذہن میں ایسے محفوظ کر لیتے ہیں کہ وہ نیند میں آکر بھی انہیں محظوظ کر جاتی ہے۔ ڈاکٹرجب میری کمر کو دیکھتے ہیں تو اسے ایکسرے کی شکل میں محفوظ کر لیتے ہیں، لیکن یہ تصویر مجھے مزید اداس کر جاتی ہے۔مجھے اپنی ٹیڑھی کمر پرلوگوں کے کمنٹس سن کربہت دکھ ہوتا ہے۔ وہ دریا کے موڑ کو توقبول کرلیتے ہیں مگر انسان کی ہڈی کے جھکاو¿پر ہنستے ہیں۔ اور جو لوگ ایسا نہیں کرتے‘ وہ مجھ پر صرف ترس کھاتے ہیں جو مجھے بالکل اچھا نہیں لگتا…“
میں نے ڈائری بند کردی اور اس سے کہا:
”ہماری سوچیں اور استعداد محدود ہے جبکہ ایک ذات ہے جس کی طاقتیں لامحدود ہیں اور وہ ہم سے بہت محبت کرتی ہے۔ اس ذات سے دعا ہے کہ وہ آپ کے لئے آسانیاں پیدا کرے ۔“
ان جملوں کے بعد میں نے موضوع بدل دیا۔ میں اسے یہ تاثر نہیں دینا چاہتی تھی کہ میں اس پر ترس کھارہی ہوں۔


  • اقسام اور علامات    اس مرض کی بنیادی علامات درج ذیل ہیں:٭کندھوں کا برابر نہ ہونا۔

    ٭کندھوں کا زیادہ نمایاں ہونا

    ٭غیر ہموار کمر یا پھر کمر کا ایک طرف جھکاہوا ہونا۔

    ریڑھ کی ہڈی میں خم کی مندرجہ ذیل اقسام ہیں:

    ٭پیدائشی(Congenital):یہ پیدائشی ہے اور ہڈیوں کی ابنارمیلٹی کے باعث ہوتا ہے۔

    ٭اعصابی وعضلاتی(Neuromuscular): یہ اعصاب (nerves) یا پٹھوں (muscles) میں مسائل کی وجہ سے ہوتا ہے ۔

    ٭تنزل پذیر(degenerative):    یہ اس بیماری کی سب سے عام قسم ہے جو زیادہ ترموروثی ہے۔لڑکوں میں اس کی شرح زیادہ پائی جاتی ہے۔

Vinkmag ad

Read Previous

ایسی ہار‘ ایسی جیت

Read Next

دھند اور دھوئیں کا مرکب ”دھندھواں“ کیا‘ کیوں‘ کیسے

Most Popular