دلی ہے دل والوںکی

اسدامان
سیر اور صحت کے عنوان سے اس سلسلہ مضامین میں اب تک پاکستان کے مختلف تفریحی مقامات کے دوروں کا احوال بیان کیاگیا۔ اب کی بار میںنے سوچا کہ بیرون ملک سیر کا بھی کچھ تڑکا لگایا جائے۔ اس کی ابتداء جس ملک سے کر رہا ہوں‘ وہ میرے 10 بیرون ملک دوروں میں سے سب سے اچھا اور یادگار دورہ ہے۔ یہ دورہ ہے اس ملک کا جو ہمارا جڑواں ہے ، یعنی 71 سال قبل ہمارے ساتھ ہی آزاد ہوا۔اگرچہ وہ ہمارا ازلی دشمن شمار ہوتا ہے لیکن یہ وہ دشمن نہیں جس کے بچوں کو ہم نے پڑھانا ہے، اس لئے کہ اس کے بچوں کی پڑھائی دنیا بھر میں پہلے ہی سے جانی پہچانی ہے۔ میری مراد اپنے پڑوسی ملک ہندوستان یعنی بھارت یا انڈیاسے ہے ۔

2013ء میں مجھے کچھ دستکاروں کے ساتھ ایک نمائش میں شرکت کے لئے وہاںجانے کا موقع ملا۔ اس وقت بھی دونوں ممالک میں تعلقات ایسے ہی کشیدہ تھے جیسے کہ آج کل ہیں ۔ ہماری روانگی سے تین دن پہلے انڈیا نے شوشہ چھوڑا کہ پاکستان آرمی نے ان کے پانچ جوان شہید کر کے ان کی لاشوں کی بے حرمتی کی ہے۔ اس الزام نے ماحول میں کشیدگی پیدا کر دی اور احباب نے ہمیں وہاں نہ جانے کا مشورہ دیا لیکن اس سے ہمارے پائے استقلال میں کوئی لغزش نہ آئی۔ بالآخرجس طرح لوگ حج یا عمرے پر جانے سے پہلے عزیز و اقارب سے الوداعی ملاقات کرتے ہیں، اس طرح میں نے بھی پیاروں سے الوداعی ملاقات کر لی‘ اس لئے کہ وہ کہتے تھے کہ ’’اگرجائو گے تو واپس نہیں آئو گے ۔‘‘

اگست 2013ء کے وسط میں موسم بہت خوشگوار تھا ۔ہم نو (9) افراد نے نئی دہلی کے لئے رخت سفر باندھا۔ واہگہ بارڈر پر پاکستانی حکام اور خفیہ اداروں کے اہلکاروں نے طویل تفتیش کے بعد ہمیں بارڈر پار کرنے کی اجازت دی۔ یہاں سرحد پار کرنے کے اوقات صبح 10 سے شام 4 بجے تک ہیں۔جب ہم بھارت داخل ہوئے تو وہاں کے کسٹم حکام نے ہمیں تقریباً آٹھ گھنٹے تک روکے رکھا اورہمارے سامان کی جانچ پڑتال کرتے رہے۔ آخرکار ہم نے تقریباً ایک لاکھ پاکستانی روپے بطور ’’جرمانہ‘‘ اداکر کے جان چھڑائی اور امیگریشن آفس سے بخیریت نکلنے میں کامیاب ہوئے۔
کسٹم حکام کے مناسب رویے کی وجہ سے ہماری چار بجے والی دہلی کی ٹرین شتابدی ایکسپریسShatabdi Express))بھی چھوٹ گئی۔ہم نے آٹھ گھنٹے کے انتظار میں کچھ کھایا پیا نہیں تھا لہٰذا امیگریشن آفس سے نکلتے ہی کھانے پینے کی جگہ ڈھونڈنے لگے۔ مقامی میزبان نے ہمارا پرتپاک ’’سواگت‘‘ کیا اور ہماری بھوکی نظریں اور شکلیں دیکھ کر سیدھا امرتسر کے 100 سال پرانے مشہور ہوٹل ’’چار بھراواں دا ڈھابہ‘‘ لے گیا۔ ہوٹل مالک نے جس کڑک دار آواز میں ہمیں خوش آمدید کہا، اسے سن کر ہم کچھ دیرکے لئے تو ڈر سے گئے۔ پھر اس نے ہال میں موجود تمام گاہکوں کو باآواز بلند ہمارا تعارف کروایا اور ہمیں وی آئی پی کمرے میں بٹھایا۔ امرتسری چنے‘ پالک پنیر اور امرتسری کلچوں سے ہماری تواضع کی گئی۔ اس سے بھی دلچسپ بات یہ کہ ہوٹل کے مالک نے ہم سے بل بھی نہیں لیا۔ ہم نے میزبان کے کہنے پر پانی کی بوتلیں خرید لیں کیونکہ اس کے مطابق نلکے کا پانی پینے کے لئے محفوظ نہ تھا۔ کھانے کے دوران ہی ہمارے لئے ایک منی بس کا انتظام کر دیا گیا جس نے ہمیں دہلی چھوڑنا تھا۔

کھانے کے بعد ہم امرتسر کے تاریخی ’’گولڈن ٹیمپل‘‘ گئے جسے دیکھنا میراایک خواب تھا ۔ رات کے وقت بھی وہاں دن کا سماں تھا۔ ہم نے مرکزی ٹیمپل میں دعا مانگی‘ مقامی روایات کے مطابق گولڈن جالیوں کی صفائی کی، لنگر کھایا اور لنگرخانے کے برتن دھوئے۔ جس بھی فرد کو پتا چلا کہ ہم پاکستان سے آئے ہیں، وہی بڑی محبت سے ملا۔ عام ہندوستانیوں کا ہم سے پرخلوص اور ملنسار انہ رویہ قابل دیدبھی تھا اور قابل دادبھی ۔
ایک خاص چیز آپ کو یہ بھی بتانا چاہوں گا کہ ٹیمپل میں داخلے کے وقت آپ اپنے جوتے، جیسے بھی ہوں جمع کروادیتے ہیں لیکن جب آپ انہیں واپس لیتے ہیں تو وہ آپ کو صاف، شفاف اور چمکدار ملتے ہیں۔ گولڈن ٹیمپل کے درشن کے بعد ہم تاریخی جلیانوالہ باغ دیکھنے گئے لیکن چونکہ کافی دیر ہو چکی تھی لہٰذا ہم اسے باہر سے ہی دیکھ پائے۔
اس کے بعد ہم دہلی کے لئے روانہ ہوئے۔ راستے میں چند ہوٹلوں پر چائے کی خاطر رکے اور پولیس ناکوں سے بچتے بچاتے بالآخر آٹھ گھنٹوں میں وہاں پہنچ گئے۔ہم سیدھے نمائش گاہ پہنچے اوراپنے دستکاروں کو ان کے سٹالوں پر بٹھادیا۔ اس کے بعد میں تھا،دہلی تھی اور میری آوارگی۔
دہلی یاترا کی ابتداء ہم نے حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء ؒ کے دربار پر حاضری سے کی۔ اس بہت بڑے صوفی بزرگ کے دربار پر حاضری یقیناً خوش قسمتی کی بات تھی لیکن بدقسمتی سے ہم نے وہاں کے درباروں کا حال بھی پاکستانی درباروں جیساہی پایا۔ منشیات کے عادی افراد جگہ جگہ اپنی دنیا بسائے بیٹھے تھے اور دربار کے گدی نشین کو ہم سے زیادہ ہمارے چندے سے غرض تھی ۔
اللہ تعالیٰ کے اس عظیم ولی کے ہاں حاضری کے بعد ہم اردو ادب کے بہت بڑے ولی مرزا اسد اﷲ خان غالبؔ کے مقبرے پر گئے۔ مرزاغالبؔ کو مرنے کے بعدانتہائی خاموش اور پرسکون جگہ نصیب ہوئی تھی اور مقامی انتظامیہ بھی ان کے مقبرے اور ان سے منسوب دیگر جگہوں کا بہت خیال رکھتی ہے ۔اسی شام وہاں مغل بادشاہ ہمایوں کا مقبرہ دیکھا اور’’سبز برج‘‘ نامی یادگار کا دورہ کیا۔ ہمایوں کا مقبرہ مغل فن تعمیر کا بہترین شاہکار ہے جس کی تزئین و آرائش آغا خان ثقافتی ادارہ کر رہا تھا۔
میں نے اگلا پورا دن لال قلعے کو کھنگالنے میں صرف کیا ۔ تیسرے دن دہلی کے مشہور چاندنی چوک کا رخ کیا جہاں کی گلیوں‘ بازاروں‘ مندروں اور مسجدوں کو دیکھا، نتراج کے مشہور دہی بھلے‘ ہلدی رام کی مٹھایاں، قدیمی جلیبی اور موہن لال کی قلفی کھائی ۔اس کے بعد گھر والوں اور دوستوں کے لئے ساڑھیاں ‘کپڑے اور دیگر تحفے تحائف خریدے ۔ میں چاندنی چوک اور اس سے ملحقہ بازاروں میں اتنا گھوما جتنا شاید راولپنڈی یا اپنے آبائی علاقے کے بازاروں میں بھی نہ گھوما ہوں گا۔
چوتھے دن جمعہ تھا لہٰذا میں نے نمازِجمعہ پڑھنے کے لئے دہلی کی جامع مسجد کا رخ کیا۔ کچھ لمحوں کے لئے تو مجھے یوں لگا جیسے لاہور کی بادشاہی مسجد میں گھوم رہا ہوں۔ جامع مسجد کے مینار سے لال قلعے اور دہلی شہر کے نظارے کا الگ ہی لطف ہے۔ مسجد کے سامنے موجود بازار سے حلال کھانا پیٹ بھر کے کھایا اور لکھنوئی کرتے خریدے۔
حلال کھانے کے حوالے سے دہلی میں ایک ہی نام گونجتا ہے اور وہ ہے ’’کریم ہوٹل‘‘۔’’ کریم‘‘ مغل بادشاہوں کا شاہی باورچی تھا جس کی اولاد نے بعد میں اس کے نام سے ہوٹلز کی کئی شاخیں کھول لیں۔ کریم بلاشبہ دہلی کا سب سے مشہور ہوٹل ہے۔ کھانے کے بعد ہاتھ دھونے کے لئے گرم پانی اور لیموں دیا جاتا ہے۔ اس کا ہمیں علم نہیں تھا لہٰذا ہم نے لیموں گرم پانی میں ڈالا اور اسے پی گئے۔ بعد میں جب ویٹر نے اس کا اصل مقصد بیان کیا تو ہمیں شرمندگی بھی ہوئی اور مزا بھی بہت آیا۔ بہت ہی مزاح خیز لمحہ تھا وہ۔
آنے والے دنوں میں ہم نے قطب مینار‘ صدارتی محل‘ انڈین پارلیمنٹ‘ انڈیا گیٹ‘ جنتر منتر‘ لوٹس مندر‘ دنیا کے سب بڑے مندر اکشردھام اور کئی مغل یادگاروں کا وزٹ کیا ۔اس کے علاوہ ایشیاء کے سب سے بڑے دستکار بازار ’’دہلی ہاٹ‘‘ کا دورہ کیا جہاں کے 66 سٹالوں پر پورے ہندوستان کے دستکاروں کے فن پاروں کا نظارہ کیا۔ان مقامات کے علاوہ راستوں پر آنے والے چھوٹے مندر اور مسجدیں بھی دیکھیں۔
پاکستان اور بھارت میں سرکاری سطح پراکثر کشیدگی رہتی ہے لیکن عوامی سطح پر میں نے لوگوں میں انتہا درجے کی مہمان نوازی اور اخلاص کا مشاہدہ کیا۔ بہت ہی کم لوگوں نے ہم سے سواری کا کرایہ لیا اور اکثر نے پاکستانی مہمان کے طور پر ہمیں مفت وزٹ کرائے۔سیرو تفریح کے دوران مجھے کہیں بھی یہ احساس نہیں ہوا کہ میں ایک دشمن ملک میں گھوم رہا ہوں۔ کسی انٹیلی جینس ایجنسی یا پولیس اہلکارنے مجھے روکا یا تنگ نہیںکیا۔ تمام سیاحتی مقامات پر ٹکٹ بھی ہمیںغیرملکی نہیں بلکہ لوکل دیا گیا اور کہا گیا کہ یہ نشانیاں آپ کی بھی ہیں لہٰذاآپ ہندوستان میں لوکل ہی ہیں۔
وہاں صفائی کا معیار ہمارے شہروں سے کچھ بہترہی تھا لہٰذا بیمار ہونے کا خدشہ بھی کم تھا۔11 دنوں میں مجھے صحت کے حوالے سے کوئی پریشانی نہیں ہوئی، بلکہ جو بھی الٹا سیدھا کھایا‘ وہ سب چل چل کر ہضم ہوگیا۔ واحد منفی چیز جو یہاں پاکستان کے مقابلے میں زیادہ نظر آئی، وہ پولیس کی رشوت خوری تھی ۔اگر کہا جائے کہ وہ 20 روپوں کی خاطر آپ کو صدارتی محل میں بھی داخل کروا دے گی تو مبالغہ نہیں ہوگا۔
انڈیا کی سیر میرے بیرون ممالک کے تمام دوروں سے زیادہ شاندار رہی ۔یہ ایک ایسی حسرت اور ایسا خواب تھا جو الحمدللہ پورا ہوا۔ اﷲتعالیٰ سے دعا ہے کہ دونوں ممالک میں نام نہاد جنگی ماحول ختم اور امن کی شمع روشن ہو تاکہ برصغیر کے باشندے مشترکہ تہذیبی‘ ثقافتی ‘ تاریخی اور مذہبی ورثے کی سیاحت کرکے اپنے شاندار ماضی کی جھلک دیکھ سکیں۔

Vinkmag ad

Read Previous

روسٹ چکن رولز Roast Chicken Rolls

Read Next

کولیسٹرول

Leave a Reply

Most Popular