Vinkmag ad

کم اور زیادہ گلائی سیمک انڈیکس گندم میں مٹھاس

(ڈاکٹر عبدالرحمٰن صاحبزادہ)
گزشتہ شمارے میں ہم نے کاربزکے بطور ایندھن استعمال کے متعلق پڑھا تھا اوریہ بھی جانا تھا کہ کچھ کاربز سادہ (simple)اور کچھ پیچیدہ (complex)ہوتے ہیں۔ سادہ چینی (گلوکوز) سادہ کاربز کی شکل ہے جسے ہضم کرنے میں کسی دقت کا سامنا نہیں کرنا پڑتا اور وہ منہ میں داخل ہونے کے کچھ ہی دیر بعد خون میں شامل ہو کر بطور ایندھن استعمال میں لائی جاسکتی ہے۔ اس کے برعکس پیچیدہ کاربز زیادہ دیر میں معدے میں پہنچتے ہیں اور تھوڑی تھوڑی مقدار میں خون میں شامل ہوتے ہیں لہٰذا یہ عمل زیادہ وقت تک جاری رہتا ہے۔ میں اس کے لئے گنے سے تیارکردہ عام چینی کی مثال دوں گا جس میں دو قسم کے کاربز(گلوکوز اور فرکٹوز) برابر مقدار میں شامل ہوتے ہیں۔ ہمارا نظام انہضام ان دونوں کو پہلے الگ کر تا ہے جس میں کچھ وقت لگ جاتا ہے‘ تب جا کر یہ خون میں شامل ہوتے ہیں۔
آپ نے محسوس کیا ہوگا کہ اگر گندم کی روٹی کو منہ میں رکھ کر قدرے زیادہ دیر تک چبایا جائے تو اس کا ذائقہ بدل جاتا ہے اور اس میں مٹھاس آنا شروع ہو جائے گی۔ اس کا سبب یہ ہے کہ لعاب دہن میں موجودایک خامرہ (enzyme ) نوالے میں موجود نشاستے کو چینی میں تبدیل کر دیتا ہے۔ نشاستوں(starch) کا بھی یہی حال ہے جو مختلف اناجوں مثلاً گیہوں‘ مکئی اور جو وغیرہ کے علاوہ سبزیوں مثلاً آلوئوں میں پائے جاتے ہیں۔
اگرچہ ہضم ہونے کا عمل منہ ہی میں شروع ہو جاتا ہے لیکن غذا وہاں زیادہ دیر تک نہیں رہ پاتی اور تھوڑی ہی دیر میں خوراک کی نالی کے راستے معدے میں پہنچ جاتی ہے۔ معدے کے اندر تیزاب موجود ہوتا ہے جو مذکورہ بالا خامرے کو اس وقت تک غیر موثر کئے رکھتا ہے جب تک خوراک معدے میںرہتی ہے اوریہ دوبارہ اپنا اثراس وقت دکھاتا ہے جب نشاستہ معدے سے نکل کر چھوٹی انتڑیوں میں پہنچ جاتا ہے۔
پیچیدہ کاربز گھاس اور درختوں کے پتوں اور ٹہنیوں میں ہوتے ہیں۔ ان میں ریشے (fibers)‘سیلو لوز (cellulose)اور لکڑی وغیرہ شامل ہیں جو اتنے ثقیل ہوتے ہیں کہ انسانی معدہ انہیں باآسانی ہضم نہیں کر سکتا ‘ البتہ ریشے کو اگر اچھی طرح سے کوٹ کر خوب پکایا جائے تو وہ کسی حد تک ہضم ہونے کے قابل ہوجاتا ہے۔ تاہم سبزی خور جانور بیکٹیریا اور پھپھوندیوں وغیرہ کی مدد سے انہیں خاصی حد تک ہضم کرلیتے ہیں۔ مزیدبرآں قدرت نے ان کے نظام ہضم میں ایک فالتو حصہ ’’اوجھڑی‘‘ کی صورت میں بنایا ہے جہاں گھاس‘ ٹہنیاں اور پتے وغیرہ کافی دیر تک رکے رہتے ہیں۔ یہاں کئی طرح کے بیکٹیریا وغیرہ پل رہے ہوتے ہیں جو عمل خمیر (fermentation) کے ذریعے پیچیدہ کاربز کو توڑ پھوڑ کر سادہ کاربز میں تبدیل کر دیتے ہیں۔
آپ نے گائے بھینس‘ بکری‘ بھیڑ اور اونٹ وغیرہ کو جگالی کرتے ضرور دیکھا ہوگا۔ یہ مویشی معدے میںموجود خمیرشدہ کاربز کو جگالی کے ذریعے مزید چبا کر قابل ہضم کاربز میں تبدیل کرلیتے ہیں۔کاکروچ اور دیمک بھی اپنے نظام انہضام اور انتڑیوں میں موجود بیکٹیریا وغیرہ کی مدد سے اپنی خوراک (یعنی لکڑی وغیرہ) ہضم کرتے ہیں۔ایک خاص قسم کا کیڑا بھی لکڑی کو بہت شوق سے کھاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بعض اوقات دروازے اور لکڑی کا فرنیچران کی نذر ہو جاتا ہے۔
غذائیات کے ماہرین نے کاربز کے جلد یا دیر سے ہضم ہونے کے عمل کا بغور مطالعہ کیا اوران میں سے جو خون میں جلد اور 100فی صد پہنچ جاتے ہیں‘ انہیں 100 نمبر دئیے۔ ایسے کاربز کو ’’ہائی جی آئی‘‘ کاربز کہا جاتا ہے۔ یہاں ’’آئی جی‘‘ سے مراد گلائسیمک انڈیکس (Glycimic Index)ہے۔ دوسرے لفظوں میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ جن کاربز کا ’’جی آئی‘‘زیادہ ہوتا ہے‘ وہ انتڑیوں سے فوراً خون میں شامل ہو کراس میں شوگر کی سطح کو اچانک بڑھا دیتے ہیں ۔ اگر ’’جی آئی‘‘ صفر سے 55 ہو تو کم‘ 56 سے 69 تک ہو تودرمیانہ اور 70 سے اوپر ہوتو زیادہ شمار ہوتاہے۔
ایئرکنڈیشنرز میں یہ سہولت ہوتی ہے کہ انہیں مخصوص ٹمپریچر  پر ِفکس کیا جا سکے جس کے لئے تھرموسٹیٹ استعمال ہوتا ہے۔ جب کمرے کا درجہ حرارت اس سطح سے بڑھ جائے تو وہ خود بخود آن ہو کر کمرے کو ٹھنڈا کر کے متعین درجہ حرارت پر واپس لے آتا ہے۔ اسی طرح سردیوں میں ان کا ہیٹربھی آن ہوتا رہتا ہے۔ ہمارے جسم میں قدرت نے لبلبے کو اس ڈیوٹی پرمامور کیا ہوا ہے کہ وہ خون میں شوگر کی مقدارکو اوسطاً 70 اور 110 ملی گرام کے درمیان ہی رکھے۔ اگر وہ اس سے بڑھنے لگے تو لبلبے میں مناسب مقدار میں انسولین بننا شروع ہو جاتی ہے جو شوگر کو نارمل سطح پر لے آتی ہے۔ ایسے میں لیپٹن (leptin) نامی ہارمون کے ذریعے دماغ کو اطلاع مل جاتی ہے کہ مزید کھانے کی ضرورت نہیں اور فرد اس سے رک جاتا ہے لیکن ایسا تب ہوتا ہے جب بلڈشوگر آہستہ آہستہ بڑھتی رہے۔ اس کے برعکس ہائی ’’جی آئی‘‘ کے حامل کھانوں سے لیپٹن اپنا کردارٹھیک طرح سے ادا نہیں کر پاتی اورنتیجتاًفرد کو اچانک بہت زیادہ بھوک محسوس ہوتی ہے اور وہ اصل ضرورت سے زیادہ کھا لیتا ہے۔
آج کل کاربز کی نوعیت بدلتی جا رہی ہے۔ سستے اور بکثرت استعمال ہونے والے کاربز میں سے ایک بھٹے سے بنا ہوا شیرا (corn syrup)ہے جس کا استعمال کولامشروبات میں کافی بڑھ گیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ دنیا بھر میں کھانے پینے کی عادتیں بھی بدلتی جا رہی ہے جس کی وجہ سے موٹاپا روزبروزبڑھتا جا رہاہے۔ بعض افراد میں یہ اس قدر بڑھ جاتا ہے کہ اسے دور کرنے کے لئے آپریشن کروانا پڑتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ہائی بلڈپریشر‘ امراض قلب اور خاص طور پر شوگر یعنی ذیابیطس کی شرح میں بھی اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
انتقال پرملال
شفانیوز کے ہردلعزیز سلسلہ ہائے مضامین ’’سرجن کی ڈائری‘‘ اور’’صفحہ اول‘‘ کے مضمون نگار ڈاکٹر عبدالرحمٰن صاحبزادہ 30 جنوری 2018ء کی صبح پشاور میں حرکت قلب بند ہونے سے انتقال کر گے (اناللہ وانا الیہ راجعون)۔ آپ ’’ڈاکٹر ابوعامرخان‘‘ کا قلمی نام بھی استعمال کرتے تھے۔ شفانیوز کی ٹیم غم کی اس گھڑی میں ان کے اہل خانہ کے ساتھ ہے۔ قارئین سے درخواست ہے کہ ان کی مغفرت اور بلندی درجات کے لئے خصوصی طور پر دعا کریں۔ڈاکٹر صاحبزادہ شفانیوز کے باقاعدہ لکھنے والوں میںسے تھے گذشتہ ماہ ان کا انتقال ہوگیا۔اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند کرے ان پر ایک مضمون اس شمارے میں شامل ہے(ایڈیٹر)
——————————————-
ایک عورت‘ جو ہر وقت کھاتی رہتی
جب میں میڈیکل کالج میں پڑھتا تھا تو ایک پروفیسرصاحب نے ایک ایسی خاتون کی سچی کہانی سنائی تھی جس کا وزن450 پونڈ سے زیادہ تھا۔ وہ ہر وقت اپنے ساتھ روٹیوں سے بھرا ایک تھیلا رکھتی اور اس میں سے انہیں نکال کر کھاتی رہتی ۔یہ عمل دن رات جاری رہتا لیکن اس کے باوجود اس کی بھوک ختم نہ ہوتی ۔ اس کی وجہ سے اس کی راتوں کی نیند متاثر ہو گئی۔ یہاں تک کہ جب اس کا نوجوان بیٹا فوت ہوا تو رونے کے دوران بھی وہ روٹی چبانے پر مجبور تھی۔ ڈاکٹروں نے اس کے جسم میں ایک خاص قسم کی رسولی انسولینوما (Insulinoma)تشخیص کی جو شاذو نادرہی دیکھنے میں آتی ہے۔ اس رسولی میں انسولین ہارمون پیدا ہوتا ہے جو بھوک کااحساس پیدا کرتا ہے جس سے مریض کو کھانے کی حاجت ہوتی ہے۔یوں وہ اپنی حقیقی ضرورت سے کہیں زیادہ کھالیتا ہے جو جسم میں چربی کی شکل میں جمع ہو جاتا ہے۔ اگرچہ یہ رسولی زیادہ بڑی نہیں ہوتی لیکن اس کے مضر اثرات دور رس ہوتے ہیں۔ جب آپریشن کے ذریعے اس رسولی کو ہٹا دیا گیا تو اس کی غیرمعمولی بھوک بالکل ختم ہو گئی‘ تاہم جو موٹاپااس دوران ہو گیا تھا وہ ختم نہ ہو سکا اورعمر بھر اس کے ساتھ رہا۔

Vinkmag ad

Read Previous

صحت بخش اور خوش رنگ سلاد دسترخوان کی زینت

Read Next

حقیقت یہ ہے۔۔۔

Most Popular