Vinkmag ad

چھوٹی سی بھول!بڑا سا روگ- کیا ہوا جب ڈاکٹر ایک ہدایت دینا بھول گیا

اکثر موروثی بیماریاں ایسی ہیں جو اگرچہ بعض خاندانوں میںپائی جاتی ہیںلیکن وہ ہر نسل میں ظاہر نہیں ہوتیں ۔تاہم ایک مریض میںمرض تین نسلوں سے موجود تھااوراس خاندان کے ایک کے علاوہ تمام افراد اس کا شکار تھے۔ اس مرض میں مریض کے دونوں گردے پیدائشی طور پر ٹھیک طرح سے بن نہیں پاتے۔ریٹائرڈ سرجن ڈاکٹر عبدالرحمٰن صاحبزادہ کی یادداشتیں

رُوتھ نامی ایک خاتون(فرضی نام)میری مریضہ تھی جسے ہائی بلڈ پریشر کی شکایت تھی۔اکثر اوقات ہمیں پتہ نہیں چلتا کہ کسی مریض کا بلڈ پریشر کیوں بڑھ گیا ہے تاہم اس خاتون نے بتایا کہ اس کی نانی اور والدہ دونوں کو اس کی شکایت تھی۔ہائی بلڈپریشر کی پیچیدگیوں کی وجہ سے اس کی نانی کا انتقال45سال کی عمر میں اور ماں کا51برس کی عمر میں ہواتھا۔روتھ کو اس کے ڈاکٹروں نے بتایا کہ اس کے دونوں گردے خراب ہیں۔اس کے علاوہ اسے کچھ معلوم نہ تھا۔
میں نے جب اس کا طبی معائنہ کیاتو یہ جان کر حیران رہ گیاکہ اُس کے دونوں گردے پیٹ کی دونوں جانب بڑی بڑی رسولیوں کی طرح پھیلے ہوئے تھے ۔مجھے اندازہ ہوگیا کہ اس خاتون کو’پی کے ڈی‘ ہے ۔ اسے ہائی بلڈ پریشر کی تکلیف اسی وجہ سے تھی ۔میں نے مزید کچھ ٹیسٹ تجویز کئے جن سے میرے خدشات کی تصدیق ہوگئی۔
رُوتھ کے دوماموں ، دوبیٹیاں اور ایک بیٹا تھا۔میرے اصرار پران سب کامعائنہ کروایاگیا۔ بیٹے کے گردوں میں اگرچہ کسی حد تک یہ بیماری موجود تھی لیکن وہ ٹھیک کام کر رہے تھے۔ تاہم یہ کہنا مشکل تھا کہ اس کے بعد کیا ہونے والاہے۔ اس کے ایک ماموں کو شدید’پی کے ڈی‘ تھاجبکہ دوسرا اس سے مکمل طور پر بچ گیا تھا۔رُوتھ کی دونوں بیٹیوں کو بھی یہی بیماری تھی لیکن چونکہ ان کی عمر کم تھی لہٰذا ان کے گردے اس وقت تک ٹھیک چل رہے تھے۔ میں نے انہیں تاکید کی وہ ڈاکٹروں کی زیر نگرانی رہیں تاکہ اگرخدانخواستہ کوئی پیچیدگی ظاہر ہو تو اُس کا بروقت علاج شروع کیاجاسکے۔
رُوتھ کے ایک بھائی کو میں فرضی نام ڈیوڈ اور دوسرے کو پیٹر سے پکاروں گا۔پیٹر دوسرے بھائی سے عمر میںتین سال چھوٹا تھا اوراب اس کی عمر46سال ہو چکی تھی۔ اس کی خوش قسمتی کہ وہ ان تین نسلوں میں شاید واحد فرد تھا جسے ’پی کے ڈی ‘نہیں تھی۔ تینوں نسلوں میں وہ سب سے زیادہ صحت مند فرد بھی تھا۔ ا س کے برعکس ڈیوڈ کا مرض اس حد تک پہنچ چکا تھا کہ اسے ڈائلیسز شروع کروادیاگیا۔بدقسمتی سے چند برس پہلے کار کے ایک حادثے میں اس کی بائیں ٹانگ کاٹ دی گئی تھی۔ اب وہ مصنوعی ٹانگ استعمال کرتا تھا اور لنگڑاکر چلتا تھا۔
ڈاکٹروں نے ڈیوڈ کو گردے کی پیوند کاری تجویز کی۔ پیٹرکے گردے بالکل صحیح تھے‘لہٰذااس نے بھائی کو اپنا گردہ عطیہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ چنانچہ اس پر معمول کے سارے ٹیسٹ کئے گئے جن سے ثابت ہوا کہ اس کے گردے کا عطیہ موزوں ہوگا۔ پیٹر اپنے بھائی کی جان بچانے کے لئے بڑی سے بڑی قربانی دینے کے لئے تیار تھا۔
بالآخر پیٹر کا گُردہ اس کے بڑے بھائی کے جسم میں لگادیاگیا۔ گردہ لینے اور دینے والے، دونوں مریضوں نے آپریشن کے بعد اچھی طرح سے صحت یابی حاصل کی۔چونکہ پیٹر کی صحت زیادہ اچھی تھی، ا س لئے وہ ہسپتال سے پانچ دن بعد ڈسچارج ہوگیاجبکہ ڈیوڈ کو ڈاکٹروں نے چند دن مزید ہسپتال میں گزارنے کی ہدایت کی۔
ڈیوڈ کی حالت بھی اچھی تھی۔ مصنوعی ٹانگ کو لگانے میں وقت زیادہ لگتا تھا اور ہسپتال میں اس کا زیادہ چلنا پھرنا بھی نہ ہوتاتھا۔ لہٰذا اس نے ٹانگ لگانے کے تردد سے بچنے کے لئے ویل چیئر استعمال کرناشروع کر دی۔ پیٹراس بات پر خوش تھا کہ اس کی قربانی ڈیوڈ کی زندگی میں نمایاںتبدیلی کا باعث بنی تھی۔ اب اس کی درازی عمر کے امکانات بڑھ گئے تھے اور اُسے خون سے زہریلا مواد ہٹانے کے لئے ہفتے میں دوسے تین بارڈائلیسز کے لئے نہیں جانا پڑ ے گا۔
آپریشن کے چھٹے دن ڈیوڈ نے واش روم کا رُخ کیا۔ اس نے اکےلے ہی اسے استعمال کیا اورخود کو صاف کیا۔ اُس کی نقاہت تیزی سے دور ہورہی تھی اور وہ اس بات پر خوش تھا کہ اکیلے وہاں تک جاکر اپنا کام کر سکا۔ اگرچہ واش روم کمرے کے ساتھ ہی تھا لیکن پھر بھی بستر سے وہاں تک اُٹھ کر جانے کے لئے کچھ قدم تو اٹھانا ہی پڑتے تھے۔ بھائی کا عطیہ کردہ گردہ پوری طرح سے اپنا کام کررہاتھا۔ اس کے مثانے میں ڈالی گئی نلکی سے ساراپیشاب پلاسٹک کے ایک تھیلے میں خاصی مقدار میں جمع ہورہاتھا جسے نرسنگ کا عملہ گاہے بگاہے خالی کررہا تھا۔
ایک دن واش روم سے فارغ ہو کر ڈیوڈ اپنے بستر پر لیٹ گیا۔ایک صحت مند آدمی کے لئے اتنا سا کام زیادہ مشکل نہیں ہوتا لیکن ڈیوڈ اس کے بعد شدیدتھکان محسوس کررہا تھا۔ اچانک اسے بائیں طرف پیٹ میں درد کی شدید ٹیسیں محسوس ہونا شروع ہوگئیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ درد کی شدت بڑھتی جارہی تھی اور اب اسے ایسے لگ رہا تھا جیسے درد پورے پیٹ میں پھیل رہاہے۔
جب درد کی شدت ناقابل برداشت ہوگئی تو اُسے اُلٹی بھی آئی۔ اس نے انٹر کام پرنرس کو بلایا اوراس سے کہا کہ اُسے درد سے نجات کے لئے انجکشن کی ضرورت ہے۔ نرس بھی حیران تھی کہ یہ تبدیلی کیونکر آئی، اس لئے کہ مریض نے پچھلے دوتین دن سے اس مقصد کے لئے انجکشن نہیں مانگے تھے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کے درد کی شدت بھی بڑھتی جارہی تھی۔ ایک اور نمایاں تبدیلی یہ آئی کہ تھیلے میں مزید پیشاب آنا بند ہوگیا۔
نرس کے دماغ میںخطرے کی گھنٹیاں بجنا شروع ہوگئیں۔ اس نے فوراً ہاﺅس آفیسر انچارج کو بلایا۔ اس نے جب یہ صورت حال دیکھی تو اس کا ماتھا ٹھنکااور پھر تھوڑی ہی دیر میں بات واضح ہو گئی۔ وہ مصنوعی ٹانگ استعمال نہ کر رہا تھا اورلنگڑا کرچلتایا ہلتا جُلتا تھا۔ اس سے اس کا پیڑو (pelvis) بہت اوپر نیچے ہوتاتھا۔
گردے کی پیوند کاری میں پیوندکردہ گردہ نس (ureter) کو مثانے میں ڈال کر ٹانکے لگائے جاتے ہیں۔ اس طرح یہ پیوند کاری نہ صرف گردوں کی بلکہ یوریٹر کی بھی ہوتی ہے۔ ڈاکٹروں سے یہ بھول ہوگئی کہ انہوں نے ڈیوڈ کو اس بات سے منع نہیں کیا کہ وہ زیادہ چلے پھرے نہیں اورخصوصاً ایسی حرکت نہ کرے جس میں اس کاپیڑوبہت اوپر نیچے ہو۔ اس کے پیڑو کا وہ حصہ جس میں مثانہ اور یوریٹر ہوتا ہے‘ پوری طرح سے مندمل نہیں ہوا تھا۔ اس کی بے احتیاطی سے یوریٹر مثانے سے اکھڑ گیا۔ اب اس میں سے پیشاب رِس کر اندر ہی اندر جمع ہورہاتھا ۔ پیشاب میں نہ صرف زہریلا مواد ہوتا ہے بلکہ اس میں ہر طرح کے بیکٹیریا اور جراثیم بھی پائے جاتے ہیں۔
ہاو¿س آفیسر نے بڑے سرجن کو یہ بُری خبر سنائی اور ایک ہی گھنٹے کے اندر اندر ڈیوڈ کو دوبارہ آپریشن تھیٹر لے جایاگیا۔ ایسے حالات میں ورم اور انفیکشن ہونے کی وجہ سے صحت یابی نہیں ہوتی لہٰذا ڈاکٹروں نے اس نس کو دوبارہ مثانے میں ڈالنے کی بجائے اس کا سرا باہر نکالا۔ اسے یوریٹرز کے ذریعے سروں کی پیوندکاری (ureterostomy)کہاجاتا ہے۔
اس واقعے کے بعد ڈیوڈ کی حالت بد سے بدترہوتی چلی گئی۔ پہلے اسے انفیکشن ہوا‘پھر خون میں زہر اور انفیکشن پھیل گیا جس کے بعد پیچیدگیوں کا لامتناہی سلسلہ شروع ہو گیا جو اس کی موت پر جا کر ختم ہوا۔ وہاں کے ڈاکٹروں اورعملے کے لئے یہ پہلا تلخ تجربہ تھا جس میں مریض کی ایک ٹانگ نہ ہونے کی وجہ سے ایک آپریشن مکمل کامیابی کے باوجود جان لیوا ثابت ہوا۔ یہ افسوس ناک سانحہ تھا جس میںخاندان کے ایک فرد کی جان گئی اور دوسرے کا قیمتی گردہ ضائع ہوگیا۔
بحیثےت ڈاکٹر، ہم لوگ خود ہی فرض کر لیتے ہیں کہ مریض چھوٹی چھوٹی باتیں جانتا یا سمجھتا ہے۔ ایسا نہیں کرنا چاہئے۔ ہر بات مریض کو نہ صرف پوری طرح سمجھانی چاہئے بلکہ اسے فارغ کرتے وقت اس بات کی تسلی کر لینی چاہئے کہ وہ اسے اچھی طرح سمجھ گیاہے۔

گردوںکی موروثی بیماری
پی کے ڈی (Polycystic Kidney Disease) میں دونوں گردے پیدائشی طور پر ٹھیک طرح سے بن نہیں پاتے۔ ان میں انگور کے دانوں یا چھالوں کی مانند فاسد مادوں کی تھیلیاں (cysts) ہوتی ہیں جن کی وجہ سے وہ خون سے مضرصحت اجزاءکو چھان کر جسم سے خارج نہیں کرپاتے ۔عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ ان کی فعالیت میں کمی آتی جاتی ہے۔ مریض جب ادھیڑ عمر کو پہنچتے ہےں تو ان کے گردے خون کو پوری طرح سے صاف نہیں کرپاتے۔نتیجتاًایسے مریضوں کے جسم میں زہریلا مواد جمع ہونے لگتا ہے اور اُن کو ڈائےلسز کی ضرورت پڑجاتی ہے جو عمر بھر کا روگ ہے۔مریض کا جسم اسے لمبے عرصے تک برداشت کرنے کی سکت نہیں رکھتا لہٰذاوہ کم عمری میں ہی انتقال کر جاتا ہے ۔
ایسے گردے اپنی بیماری کی وجہ سے خود بھی ایسا مواد مثلاًرینن (renin) وغیرہ بناتے ہیں جس کی وجہ سے مریض کو ہائی بلڈ پریشرکا مرض ہوجاتاہے ۔ اس سے مزید بُرے اثرات پیدا ہوتے ہیںجومریض کی موت کا سبب بن سکتے ہیں۔ گردوں کی پیوندکاری متعارف ہونے سے ایسے مریضوں کی زندگیاں قدرے طویل ہونے لگیں۔ گردوں کی پیوندکاری کے بعدانہیں ایسی ادویات کا استعمال لازمی طور پر جاری رکھنا ہوتا ہے جو پیوند شدہ گردے کو مریض کے مدافعتی نظام سے محفوظ رکھیں‘ ورنہ وہ ایسے گردے کو مسترد کردیتا ہے۔

Vinkmag ad

Read Previous

آپ کے صفحات

Read Next

Healthy recipes

Leave a Reply

Most Popular