Vinkmag ad

وادی سون سکیسر

اسدامان
اس ماہ شمال نہ جنوب بلکہ موسم کی مناسبت سے وسطی پنجاب کی ایک وادی کی سیر کرتے ہیں ۔خوبصورت وادی سون سکیسر پنجاب میں موجود ان سیاحتی نگینوں میں سے ایک ہے جس سے لوگوں کی بھاری اکثریت ناآشنا ہے۔ وفاقی

دارالحکومت سے 170کلومیٹر دور ضلع خوشاب کی یہ خوبصورت وادی تقریباًساراسال ہی سیاحوں کی دلچسپی کا مرکز رہتی ہے اور انہیں خوش آمدید کہتی ہے۔
تقریباً55کلومیٹر پر پھیلی یہ وادی کئی خوبصورت جھیلوں کا مسکن اور قدرتی گھنے جنگلوں کا جھرمٹ ہے۔نوشہرہ اس وادی کا بڑاشہر ہے جہاں آپ کو گیسٹ ہائوس اور اچھے ہوٹل مل جائیں گے۔

وادی سون میں پہنچنے کا سب سے آسان راستہ موٹروے ہے۔ اگر آپ اس طرف عازم سفر ہونے کا ارادہ رکھتے ہوں تو کلرکہار انٹرچینج سے اتر کر خوشاب والی روڈ پر روانہ ہو جائیں۔ پَیل نامی گائوں سے آگے بڑھتے ہی آپ کو بڑے بڑ ے سائن بورڈ نظر آئیں گے جو چیخ چیخ کر آپ کو وادی سون سکیسر کی طرف متوجہ کر رہے ہوں گے۔خوشاب سے بھی ایک راستہ اس وادی کی طرف جاتا ہے لیکن زیادہ تر لوگ اسی یعنی پیل والے راستے کا ہی انتخاب کرتے ہیں۔

وادی سون کی سیاحتی کشش کی بڑی وجہ یہاں کی تین بڑی جھیلیں ‘اچھالی‘ کھبیکی اور جھالر ہیں جو نمکین پانی کی بڑی جھیلیں ہیں۔ اچھالی اور کھبیکی جھیلیں سڑک کے کنارے واقع ہیں جہاں محکمہ جنگلی حیات (وائلڈ لائف) کی طرف سے بنیادی سہولیات بھی فراہم کی ہیں۔ جھالر جھیل تھوڑی دور ہے لیکن دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے ۔

کھبیکی جھیل کے عقب میں واقع جنگل میں خوبصورت باغ اور آبشارواقع ہیں۔ پھلوںاور پھولوں کے لہلہاتے باغوں نے یہاں جنگل میںمنگل کا سماں باندھا ہوتا ہے۔کنہاٹی باغ‘گروپس اور فیملیز کے لئے بہت اچھی جگہ اورخوبصورت مقام ہے۔آپ یہاں کھیلیں‘ کودیں‘ چشموں میں نہائیں‘تکے بنائیںیا کڑاہی‘ ہر چیزاور ہر تفریح کا لطف کنہاٹی باغ میں دوبالا ہوجاتا ہے۔باغ سے کھبیکی جھیل تک کا راستہ ہائیکنگ کے لئے نہایت موزوں ہے لہٰذا اس قدرتی مقام پرتفریح کے ساتھ ساتھ کچھ وقت اپنی فٹنس کو بھی دیجئے۔

اس وادی میں صدیوں پرانے مندر اور قلعہ بھی موجودہے۔ دلچسپ بات یہ کہ یہاں کچھ ایسے پراسرار مقامات بھی ہیں جن تک رسائی دشوار بھی ہے اور سکیورٹی وجوہات کی بنیاد پر ممنوع بھی ۔اچھالی جھیل سے سکیسرٹاپ پر جانا خود کو مشکل میں ڈالنے کے مترادف ہے۔

جب آپ پیل گائوں سے سکیسر روڈ پر آتے ہیں تو چند کلومیٹر بعد ایک کچی سڑک جنگل میں جاتی ہے۔ یہاں ایک باغ میںآپ کو انگریز دور کا بنا ہواٹوٹا پھوٹا اورویران گیسٹ ہائوس ملے گا۔اس علاقے کا نام ’’نرسنگ پھوار‘‘ ہے۔ یہ ایک پراسرارسی جگہ ہے جہاں اب کوئی آباد نہیں۔یہاں صدیوں پرانا ایک تباہ حال مندر بھی ہے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ کسی دور میں یہاں چہل پہل ہوا کرتی تھی۔ نرسنگ پھوار سے15منٹ کی اترائی آپ کو آبشاروں کے ایک سلسلے کی طرف لے جاتی ہے۔کھوجی افراد کیلئے نرسنگ پھوار مزیدار ایڈونچر ثابت ہوگا۔

وادی سون یوں تو سارا سال ہی قابل رسائی ہوتی ہے لیکن یہاں آنے کے لئے بہترین موسم فروری سے اپریل تک کاہے ۔جن لوگوں کو پولن الرجی ہو‘ انہیں چاہئے کہ احتیاطاً اپنی ادویات ساتھ رکھیں‘ اس لئے کہ پوری وادی میں پولن کی کافی مقدار پائی جاتی ہے ۔

امید ہے کہ اس موسم میں آپ وادی سون سکیسر کی سیر کو ترجیح دیں گے۔ ایسا ضرور کیجئے اور مجھے یقین ہے کہ میری طرح آپ بھی اس سیاحتی مقام کے سحر میں مبتلا ہو جائیں گے ۔
اگلے ماہ ایک نئے مقام کی تفصیل کے ساتھ ملاقات ہوگی۔تب تک کے لئے اجازت ‘اپنا بہت خیال رکھیے گا۔

Vinkmag ad

Read Previous

جانئے کس دال میں کتنی کیلوریز

Read Next

وزن گھٹانے کے لئے کیٹو ڈائٹ کتنی مفید‘ کتنی نقصان دہ

One Comment

  • وادی سون سکیسر کے علوی اعوان فرنگیوں کے نرغے میں
    تحریر: علامہ محمد یوسف جبریل
    پاکستان کے شمال مغرب میں ایک کوہستانی علاقہ ہے جسے کوہستان نمک کہتے ہیں۔ اس کوہستانِ نمک کے مغربی حصے میں وادیوں کا ایک سلسلہ ہے جسے وادی سون کے نام سے پکارتے ہیں۔ اس وادی میں ایک قبیلہ بستا ہے جسے علوی اعوان کہتے ہیں اور علوی اعوان ان کو اس لئے کہا جاتا ہے کہ اُ ن کے جد امجد حضرت قطب شاہ سلطان محمود غزنوی کے ہمراہ ہندوستان میں آئے۔ سومنات کی فتح کے بعد سپہ سالاروں کا یہ قافلہ وادی سون خوشاب میں بس گیا اور ان مجاہدین نے یہاں پر تبلیغ اسلام کا آغاز کیا اور یہاں رشد و ہدایت کی مشعلیں روشن کیں۔ اُ ن کے لڑکے گوہر شاہ معروف بابا گورڑا یہیں وادی سون میں رہ گئے اور ان کی نسل آگے چلی۔ یہ لوگ باقی علاقے سے الگ تھلگ تھے۔ اُ ن کی زندگی قبائلی طرز کی تھی۔ مغلو ں کے دور تک کسی بادشاہ نے اس علاقے کا رخ نہیں کیا لیکن جب مغلوں کی شمع گل ہو رہی تھی تو سکھ رفتہ رفتہ سارے پنجاب پر قابض ہو گئے۔ اس زمانے میں وادی سون جیسے دور افتادہ علاقہ میں بسنے والے علوی اعوان قبیلہ کے لوگ بھی ان کی دست برد سے محفوظ نہیں رہے۔ عدل و انصاف ختم ہو گیا۔ ہر طرف بدنظمی کا دور دورہ تھا۔ اس دور میں حالت یہ تھی کہ ہر گاؤں ہر دوسرے گاؤں سے الجھا ہوا تھا۔ داؤ لگا کر قتل کر دینا عام واقعہ تھا۔ ایک گروہ دوسرے گروہ کا قلع قمع کر دیتا۔ ملی احساس یا ایسی چیز کہیں نام کو بھی موجود نہ تھی۔ان حالات میں کوئی بھی مسلمانوں پر حکمرانی کر سکتا تھا۔ مسلمان حصولِ علم کی حدیث کو یکسر فراموش کر چکے تھے اور جہالت کے اندھیروں میں بھٹکتے پھرتے تھے۔ ادھر انگریز ایک دریا کی طرح رفتہ رفتہ اپنا راستہ بناتا ہوا پنجاب کی طرف بڑھ رہا تھا۔ آخر کار انگریزوں نے سکھوں سے حکومت چھین لی اور سارا ہندوستان انگریز کے زیرِ نگین ہو گیا۔ مسلمان پہلے ہی پامال تھے۔ انگریز آیا تو مسلمانوں نے اس کے آنے کو اللہ تعالی ٰکا احسان عظیم جانا۔ انگریزوں نے آتے ہی بدنظمی کو فرو کیا اور ہر طرف امن و امان کی فضا پیدا ہو گئی۔ مسلمانوں نے انگریز کی حکومت کو غنیمت جانا۔ ایک مسلمان جب اس بات کا تصوّر کرتا ہے تو بدن کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ ایک ایسی قوم جس نے بارہ صدیوں سے بھی زیادہ عرصہ دنیا کے ایک حصے پرحکومت کی ہو اور پھر اس بری طرح سے ہمت ہار کر بیٹھ جائے، ایک ایسا المیہ ہے جو دل دہلا دینے والے حقائق کی نشان دہی کرتا ہے۔ اگرچہ انگریز نے مسلمانوں کے معاملے میں بڑی احتیاط برتی اور مسلمانوں کے مقابلے میں ہندوؤں کی حوصلہ افزائی کرنے کو سخت ترجیح دی مگر مسلمانوں کی قومی حمّیت کچھ اس بری طرح سے مر چکی تھی کہ بعض نے قرآنی آیات ’’اطیعواللہ واطیعوالرسول و اولی الامر منکم ‘‘کو جواز بنا کر انگریز کے احکام کی فرمانبرداری ایک دینی حکم تصور کیا۔ آنے والا مورخ اگر اسے ان حالات کا علم ہوا جو انگریزی دور حکومت میں مسلمانوں سے منسوب کئے جاتے ہیں تو حیرت کا اظہار کئے بغیر نہیں رہ سکے گا۔ جلال آباد کی دیواریں، بیت اللہ کا حرم، فلسطین کے درودیوار،ہرام،ایران کے مرغزار، خلافت عثمانیہ کا مقبرہ، بغداد اور نجف کے منظر، لیبیا، مراکش، تیونس اور سوڈان کے صحرا، سب مسلمانوں کی بے حسی کی داستان زبان ِحال سے کہہ رہے تھے۔ کوئی اور قوم ہوتی تو خیر اپنی بے بسی اور محکومی کی مجبوریوں کا سہارا لے سکتی تھی مگر مسلمانوں کی شان سے یہ چیز بعید تھی۔ انگریز قوم کی حکومت تو ایک عارضی شے تھی، آئی اور گذر گئی مگر ایسی خامیاں آئندہ چل کر ایک آزاد قوم کے لئے ایک مستقل خطرہ بنی رہیں۔ یہ خامیاں قومی کردار کو گھن کی طرح چاٹتی رہیں اور آج کل کسی قوم کے لئے آزادی اور خود مختاری کو برقرار رکھنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔

Leave a Reply

Most Popular