Vinkmag ad

نیند‘ خواب اور وقت کی چال

    اگر لوگوں سے پوچھاجائے کہ زندگی کی بقاءکے لئے کون کون سی چیزیں ضروری ہیں تو ان کی غالب اکثریت ہوا‘ پانی اور غذا کا ہی تذکرہ کرے گی لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس ضمن میں ایک اور چیز”نیند“ بھی بہت اہم ہے۔ انسان اور جانورفاقوں کے باوجود لمبے عرصے تک زندہ رہ سکتے ہےں لیکن نیند کے بغیرایسا کرناممکن نہیں ۔ تحریک آزادی کے ایک ہیرو بھگت سنگھ نے 1929ءمیں قید کے دوران بھوک ہڑتال کی اور 116دن تک مکمل فاقہ کر کے عالمی ریکارڈ قائم کیا۔ اس کے برعکس نیند سے مکمل محرومی کا ریکارڈ محض 11دن اور24منٹ کا ہے جو1964ءمیں رینڈی گارڈنر (Randy Gardner ) نامی ایک طالب علم نے قائم کیا۔ اس عمل کی نگرانی سائنس دانوں نے کی۔
نوزائیدہ بچہ 24گھنٹوں کے دوران اوسطاً 16یا17گھنٹے سوتا ہے اوردیکھا گیا ہے کہ وہ بالعموم اس وقت جاگتا ہے جب اس کی ماں کے سونے کا وقت ہوتا ہے۔ پیدائش کے بعد پہلے ایک سال کے دوران اس کے ماں باپ کی 400سے 750گھنٹے کی نیند متاثر ہوتی ہے۔ عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ اس کی نیند میں بتدریج کمی واقع ہوتی جاتی ہے۔ سن بلوغت کو پہنچنے کے بعد اسے اوسطاً آٹھ یا نوگھنٹے جبکہ بزرگ افراد کو چھ سے آٹھ گھنٹے نیند کی ضرورت ہوتی ہے ۔عمر رسیدہ افراد دن کے اوقات میں وقفے وقفے سے اونگھ کر اپنی نیند پوری کرلیتے ہیں‘ اس لئے اگر وہ رات کو کم سوئیں تو انہیں کوئی مسئلہ نہیں ہوتا۔عام حالات میں ایک فرد کو بستر پر لیٹنے کے بعد10سے 15 منٹ میں سوجانا چاہیے۔اگر تکیے پر سر رکھنے کے پانچ منٹ بعد ہی نیند آجائے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ نیند کی کمی کا شکارتھے۔ جن لوگوں کی نیند پوری نہیں ہوتی‘ انہیں بھوک زیادہ لگتی ہے اوران کا وزن بھی چند پونڈ بڑھ جاتا ہے۔ 1998ءمیں محققین نے چندلوگوں کے گُھٹنوں کے پچھلی طرف تیز روشنی ڈالی جس کا پُراسرار اثر یہ ہو ا کہ ان کے سونے اور جاگنے کے اوقات بدل گئے‘ تاہم اس تبدیلی کی وجہ معلوم نہیں ہو سکی۔ ماہرین صحت کے مطابق آرام دہ‘ گہری اور پرسکون نیند کے لئے بیڈروم میں زیادہ روشنی نہیں ہونی چاہئے‘ حتیٰ کہ گھڑی کے روشن ڈائل جتنی مدھم روشنی سے بھی نیند پر منفی اثرپڑتا ہے۔ دیکھا گیا ہے کہ کھلی جگہوں پر سونے والے لوگ نیا چاند نکلنے کے بعد کئی دن تک زیادہ اچھی نیند سوتے ہیں‘ اس لئے کہ چاندنی ان کی نیند کومتاثر نہیں کرتی۔ مزید برآں اچھی نیند کے لئے کمرے کا ٹمپریچر انسانی جسم کے ٹمپریچر سے کچھ کم ہونا چاہیے۔
جانوروں کو بھی نیند کی ضرورت ہوتی ہے جس کا دورانیہ مختلف جانوروں میں مختلف ہوتا ہے ۔سب سے زیادہ لمبی نیند چمگادڑوں کی کچھ اقسام کی ہوتی ہے۔ بلیاں دن رات میں تقریباً18گھنٹے نیند کے مزے لیتی ہیں جبکہ ایک گھونگا (Snail) ایسا بھی ہے جوتین سال تک سوسکتا ہے۔ ڈولفن کے دماغ کا آدھا حصہ سوتا جبکہ باقی نصف بیدار رہتا ہے۔ ہاتھی اور گھوڑے کھڑے کھڑے سوجاتے ہیں اورخرگوش نیند کی حالت میں بھی اپنی آنکھیں کھلی رکھتے ہیں۔ تبت میں مقیم بدھ مت کے بعض مذہبی پیشوا لیٹے بغیر بیٹھے بیٹھے سوجاتے ہیں جس سے انہیں اپنی عبادت و ریاضت میں مدد ملتی ہے۔جاپان میں کئی کمپنیاں اپنے ملازمین کو ڈیوٹی کے اوقات میں سونے سے نہیں روکتیں۔ وہ اس خیال سے اتفاق نہیں کرتیں کہ اس سے وقت ضائع ہوتاہے بلکہ ان کے مطابق اس سے ملازمین کی کارکردگی پر مثبت اثر پڑتا ہے۔
نیند کے حوالے سے ایک دلچسپ واقعہ یہ ہے کہ ایک امریکی صدر نے اپنے عہدِ صدارت کا زیادہ تر حصہ سو کر گزار دیا۔ اس کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ جیمز پولک (James K. Polk) کی مدت صدات 4مارچ1849ءکو بروز اتوار دوپہر 12بجے ختم ہو رہی تھی۔ نو منتخب صدر زیچرے ٹیلر (Zachary Taylor) نے اتوار کو مذہبی وجوہات کی بنیاد پر حلف اٹھانے سے انکار کر دیا۔ یوں پیداشدہ آئینی خلا پر کرنے کے لئے ڈیوڈایچی سن(David Atchison) کو ایک دن کے لئے صدر بنا دیا گیا جس نے دن کا بڑا حصہ سوتے میں گزاردیا ۔یہ عرصہ چونکہ بہت مختصر ہے‘ اس لئے بہت سے لوگ ایچی سن کو صدرنہیں مانتے ۔
نیند اور خواب کا آپس میں گہراتعلق ہے ۔ماضی میں لوگوں کی بڑی تعداد”بلیک اینڈ وائٹ“ خواب دیکھا کرتی تھی اور صرف 15 فی صد لوگوںکے خواب رنگین ہوا کرتے تھے۔ جب سے رنگین ٹی وی متعارف ہوا ہے‘ رنگین خوابوں کی شرح بھی بڑھ گئی ہے اور اب تقریباً75 فی صدلوگ رنگین خواب دیکھتے ہیں۔ اکثر خواب بے معنی ہوتے اور پراگندہ خیالات کی غمازی کرتے ہیں لیکن ان میں سے کچھ آنے والے واقعات کی طرف اشارہ بھی کرتے ہیں۔ قرآن کریم اور بائبل میں حضرت یوسف ؑکے خواب کا ذکر ہے جس میں اس بات کی طرف کا اشارہ تھاکہ اُن کے بھائی ایک دن اُن کے سامنے سجدہ ریز ہوں گے۔ بادشاہ مصر کا خواب بھی اس کی مثال ہے جس میں شدیدقحط سالی کی طرف اشارہ تھا۔ مقتول امریکی صدر ابراہام لنکن نے اپنے قتل سے چند ہفتے قبل اس واقعے کو خواب میں بالکل اسی طرح دیکھا تھا جیسے وہ بعد میں رونما ہوا۔
1970ءکی دہائی میں ڈیوڈبوتھ(David Booth)نامی ایک فرد نے لگاتار کئی راتیں خواب میں ایک جہاز کو حادثے کا شکارہوتے دیکھا۔ جب بار بار ایسا ہوا تو اُس نے امریکی ائیر لائن اوردیگر متعلقہ اداروں سے رابطہ کرکے انہیں اپنے خواب کے بارے میں بتایا۔ بُوتھ کا خیال تھا کہ وہ لوگ اس کی بات کو سنجیدگی سے نہ لیں گے اور اس کا مذاق اُڑائیں گے لیکن اس کی توقع کے برعکس انہوں نے نہ صرف اس کی بات کو سنجیدگی سے سُنا بلکہ اس پر غوروخوض بھی کیا ۔ وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ یہ جہاز ”ڈی سی- 10“ ہو سکتا ہے، تاہم وہ اس بات کا تعین نہ کرسکے کہ یہ حادثہ کب رُونما ہوگا۔ بالآخر 25مئی1979ءکو اسی جہاز کے ساتھ شکاگو میں حادثہ پیش آیاجس میں272انسان اپنی جانوں سے ہاتھ دھوبیٹھے۔ اُڑان کے دوران بائیں طرف کا پر (wing) اکھڑ گیاجس سے جہاز کا توازن بگڑ گیا اوروہ زمین پر گرکر تباہ ہوگیا۔1970ءکی دہائی کے ایک مقبول ٹی وی پروگرام بیانک وومن(Bionic Woman)کی ہیروئن لنڈسے ویگنر (Lindsay Wagner) نے بھی اسی جہاز پر سفر کرنا تھا لیکن ائیر پورٹ پر پہنچتے ہی اس کی طبیعت خراب ہوگئی جس کے باعث اس نے سفر کا ارادہ منسوخ کردیا۔ یوں اس کی جان بچ گئی۔
ایسی بہت سی مثالیں موجود ہیں جن میں کچھ لوگوں نے بعض واقعات کو وقت سے پہلے دیکھ لیا یاان کے رونما ہونے کے کافی عرصے بعدانہیں کھلی آنکھوں سے دوبارہ دیکھا۔ فرق زمانی (time warp) قدرت کا ایک راز ہے ۔ جس دن یہ کھل گیا‘ اس دن ہمارے بہت سے تصورات بدل جائیں گے ۔

Vinkmag ad

Read Previous

مچھلی کے کباب

Read Next

بزرگوں کی صحت کے مسائل ‘ان کا حل

Most Popular