مریض اور معالج کے تعلقات۔قابل غور پہلو

    اکتوبر کے آخری ہفتے میں کراچی سے کی جانے والی ایک ٹوئٹر پوسٹ کے بعد سوشل میڈیا کے ساتھ ساتھ ملک کے ٹیلی وڑن چینلز پرڈاکٹر اور مریض کے تعلقات کی حدودو قیود ے حوالے سے دھواں دار بحث و مباحثہ کا آغاز ہوگیا ہے۔ یہ ٹوئٹر پوسٹ پاکستان کی معروف شخصیت شرمین عبید چنائے نے کی تھی جس میں انہوں نے اپنی بہن کو کراچی کے ایک نجی ہسپتال کے معالج کی طرف سے فیس بک پر فرینڈ ریکوئسٹ (دوستی کی درخواست) بھیجے جانے پر شدید ناپسندیدگی اور غصے کا اظہار کیا تھا۔ شرمین عبید کے احتجاج کے بعد ہسپتال نے مذکورہ ڈاکٹر کو ملازمت سے برخواست کر دیا۔ مبینہ طور پر شرمین عبید کی بہن علاج کے سلسلے میں ہسپتال آئیں جس کے بعد ایک ڈاکٹر نے ان کو فرینڈ ریکوئسٹ بھیج دی تھی۔

شرمین عبید کے مطابق ڈاکٹر کا یہ اقدام ہراسانی کی ذیل میں آتا تھا جو پیشہ ورانہ اور اخلاقی حوالے سے ایک غلط عمل تھا۔سوشل میڈیا اور الیکٹرونک میڈیا پر اس معاملے پرنقطہ نظر منقسم ہے اور بحث میں شامل افراد شرمین عبید کے مو¿قف کے حق میں اور اس کے خلاف دلائل دے رہے ہیں۔ جبکہ بعض افراد کے خیال میں یہ ایک نان اشو ہے، یعنی ایسا معاملہ جس کو سنجیدگی سے لئے جانے یا اس پر بحث کرنے کی ضرورت نہیں۔

ہمارے خیال میں مریض اور ڈاکٹر کے تعلقات ایک سنجیدہ موضوع ہے، جس پر بات کیا جانا اس لئے ضروری ہے کہ اس کا براہ راست تعلق علاج کے معیار اور مریض کی بہتری سے ہے۔ اس پیشہ ورانہ تعلق کے مختلف پہلو ہیں جس میں ڈاکٹراور مریض دونوں کے حقوق و فرائض شامل ہیں۔ ان سب پہلوو¿ں پر ایک اداریئے میں بات کیا جانا ناممکن ہے لہٰذا ہم اپنی بات کو صرف مریض اور معالج کے درمیان ابلاغ اور اس کے مریض کے علاج پر اثرات تک محدود رکھیں گے۔ تاہم اس کے دیگر پہلوو¿ں پر ہم آئندہ شماروں میں بات کرتے رہیں گے۔

ڈاکٹر اور مریض کا تعلق اسی طرح ایک پیشہ ورانہ تعلق ہے جس طرح ایک وکیل کا مو¿کل، استاد کا طالب علم یا ایک انجینئر کا اپنے کلائنٹ سے ہوتا ہے۔ کسی بھی پیشہ ورانہ تعلق میں خدمات فراہم کرنے والے سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ خدمات لینے والے(کلائنٹ ) کی فراہم کردہ معلومات کے ضمن میں مکمل رازداری برتے گا کیونکہ یہ معلومات ایک خاص مقصد یعنی خدمات کے حصول (اور ڈاکٹر مریض کے ضمن میں علاج کے لئے) کے لئے فراہم کی گئی ہیں اور کسی بھی غیر متعلقہ شخص تک ان کا پہنچنا مریض کے لئے نقصان، تکلیف یا اذیت کا سبب بن سکتا ہے۔ اسی طرح مریض سے بھی یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ اپنے معالج پر مکمل اعتماد کرتے ہوئے تمام متعلقہ معلومات فراہم کرے گا تاکہ معالج کو اس کے علاج کے لئے بہتر فیصلہ کرنے میں ہرممکن مدد حاصل ہو سکے۔

بظاہر یہ ایک سادہ سی بات نظر آتی ہے لیکن ڈاکٹروں اور مریضوں سے بات کر کے یہ بات سامنے آتی ہے کہ دونوں کے مابین اعتماد پر مبنی دیانتدارانہ ابلاغ کی راہ میں بہت سی رکاوٹیں حائل ہیں۔ جن میں ثقافتی بندشیں، مریض اور ڈاکٹر کے حوالے سے طلب اور رسد کا عدم توازن، تربیت کا فقدان، آگہی کی کمی اور صنفی رکاوٹوں جیسے مسائل شامل ہیں۔ان مسائل پر ذرائع ابلاغ، ڈاکٹروں کے کلینک اور گھروں میں بات کئے جانے کی ضرورت ہے تاکہ ڈاکٹروں اور مریضوں کے درمیان دیانتدارنہ ابلاغ کو رواج دیا جا سکے۔ اس کے نتیجے میں علاج کے بہتر نتائج کی امید کی جا سکتی ہے۔

Vinkmag ad

Read Previous

بیری بیری

Read Next

ایک زہریلی فصل

Most Popular