Vinkmag ad

شفانیوز کے مستقل مضمون نگار ڈاکٹر عبدالرحمٰن صاحبزادہ (مرحوم) اپنے بچوں شہناز، مہناز، فرح ناز اور عامر کی نظر میں

    ہمارے ابو 7مئی 1938کو عزیزالرحمٰن کے ہاں پیدا ہوئے۔انہوں نے جس خاندان میں آنکھ کھولی اور پرورش پائی، انکساری اس کا خصوصی وصف اور سادگی اس کا طرززندگی تھا۔ ان کے والدیعنی ہمارے دادا ایک غریب آدمی تھے جن کا گزارہ مشکل سے ہوتا تھا۔ ہمارے والد اس پر کبھی شرمندہ نہ ہوتے بلکہ فخر سے اس غربت زدہ ماحول کا تذکرہ کرتے جس میں انہوں نے پرورش پائی تھی۔ابو نے ان تھک محنت سے تعلیم حاصل کی تاکہ نہ صرف اپنے والدین کے لئے نیک نامی کا باعث بنیں بلکہ انہیں سہولیات بھی فراہم کر سکیں ۔انہوں نے پہلے اسلامیہ کالج پشاور اور پھر خیبر میڈیکل کالج میں داخلہ لیا جہاں سے آپ نے نہ صرف اچھے نمبر لئے بلکہ پہلی پوزیشن بھی حاصل کی۔اس کے بعد وہ ’’ایف آر سی پی‘‘ کے لئے لندن تشریف لے گئے جہاں ڈاکٹر شفیع ان کے بہترین دوست بنے۔اس کے بعد وہ کینیڈا کے شہر البرٹا(Alberta) منتقل ہو گئے جہاں سے ’’ایف آر سی ایس ‘‘کیا۔ یہیںان کی سب سے بڑی صاحبزادی مہناز پیدا ہوئیں۔
کچھ عرصہ کینیڈا میں پریکٹس کرنے کے بعد وہ امریکہ چلے گئے جہاں سے 1963ء میں ’’ایف اے سی ایس‘‘ کی ڈگری حاصل کی۔وہ جیسپر (ایلاباما، امریکہ) کے چند اولین سرجنز میں سے ایک تھے۔ ان کے مریض ان کی رحمدلی، شرافت اور پیشہ ورانہ اخلاق کی بہت تعریف کرتے تھے۔ جیسپر میں آدھے سے زیادہ پولیس والے ان کے مریض تھے اور انہیں ’’اعزازی ڈپٹی برائے واکر کنٹری ‘‘ کا خطاب بھی دیا گیا۔ جیسپر کے میئر نے عزت افزائی کے طور پر انہیں شہر کی چابی بھی پیش کی۔
ابو ہنس مکھ طبیعت کے مالک تھے اوروہ جس کمرے میں بیٹھے ہوتے، وہ قہقہوں اور لطیفوں سے گونج اٹھتا ۔جونہی وہ مسکراہٹ بکھیرتے اور دل کھول کر ہنستے، یوں لگتا جیسے پورا کمرہ جگمگ جگمگ کرنے لگا ہو ۔ ان کی یہ خاصیت ہم بہن بھائیوں میں سے فرح کے حصے میں آئی ہے ۔ ابو فرح ناز اور شہناز سے والہانہ محبت کرتے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ جب وہ ہسپتال سے تھکے ہارے گھر آتے تو ہم ان سے اپنے ساتھ کھیلنے کی فرمائش کرتے اور وہ ذہنی دبائو اور شدید تھکاوٹ کے باوجود کبھی انکار نہ کرتے ۔
انہوں نے ہم بہن بھائیوں کو جو کچھ دیا، اس میں سے قیمتی ترین تحفہ علم ہے۔انہوں نے ہمیں قرآن، اخلاقیات اوردوسروں کا درد محسوس کرنا سکھایا۔ انہوں نے ہمیں یہ سکھایا کہ زندگی میں جو بھی اچھے اور برے تجربات ہوں، ان پر اللہ تعالیٰ کا شکر گزار ہونا چاہئے‘ اس لئے کہ وہ ہمیں بہت کچھ سکھا کر جاتے ہیں۔انہوں نے ہمیں یہ بھی سکھایا کہ خوراک کا ایک ذرہ بھی ضائع نہیں کرنا چاہئے۔اس سلسلے میں وہ ہمیں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مثال دیا کرتے تھے جنہوں نے ہمیشہ رزق کی قدر اور عزت کی ‘ اس کی تعلیم دی اور خود سادہ زندگی بسر کی۔
1981ء میں ہمارا بھائی عامر پیدا ہوااور ہمیں وہ لمحہ اچھی طرح یاد ہے جب وہ اسے فخریہ انداز میں اٹھائے ہمارے پاس لائے۔ وہ عامر کے بارے میں فکرمند تھے اور کہتے تھے کہ کوئی اسے ڈسٹرب نہ کرے اور نہ اس کے قریب جائے‘ اس لئے کہ وہ دل میں ایک ہلکے سے نقص کے ساتھ پیدا ہوا تھا ۔مہناز کو یہ بھی یاد ہے کہ وہ کس طرح رو رو کر اور گڑگڑا کر اللہ تعالیٰ سے اس کی صحت یابی کی دعائیں مانگ رہے تھے۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مہناز، فرح ناز اور شہناز کی شادیاں ہو گئیں جس پر وہ کہا کرتے کہ ’’میں نے اپنے دل کے ٹکڑے دے دئیے ہیں۔‘‘ جب ان کے نواسے، نواسیاں ہوئیں تو بہت خوش ہوئے اور ہمیشہ ان پر اپنی محبتیں نچھاور کرنے کے لئے تیار رہتے۔ مہنا زکے دو بیٹے جبکہ فرح ناز اور شہناز کی دو، دو بیٹیاں ہیں۔ ہم میں سے کوئی جب ان سے ملنے کے لئے آنے کی بات کرتا تو وہ ہنستے ہوئے کہتے کہ’’ اگر آپ بچوںکو ساتھ نہ لائیں تو میں آپ سے نہیں ملوں گا۔‘‘
پھر ایک وقت آیا جب انہوں نے ریٹائرمنٹ لینے اور پاکستان واپسی کا فیصلہ کیا۔ وہ ایک سچے محب وطن تھے اور کہا کرتے تھے کہ وہ اپنے والدین کے ساتھ دفن ہونا پسند کریں گے۔یوں وہ 2006 ء میں پشاورآگئے۔  ان کا بھانجا شکیب ان سے اکثر ملنے آتا اور گھنٹوں ان کے ساتھ رہتا۔ہماری بہن فرح ناز اور ان کی بیٹیاں کشمالہ اور پلواشہ ان سے ملنے کو بے تاب رہتیں۔ فرح ناز ان کا مضبوط سہارا اور ان کی طاقت تھی اور انہیں جب بھی اس کی ضرورت ہوتی، وہ اسے اپنے پاس پاتے ۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کی طبیعت بگڑتی چلی گئی اور فرح انہیں ہسپتال لے جانے، ان کے ایکسرے اور بلڈ ٹیسٹ کروانے اور انہیں ڈاکٹروں کے پاس لے جانے میں پیش پیش رہتی۔ اس نے یہ ساری ذمہ داری اپنے کندھوں پر اٹھا ئی ہوئی تھی اور کبھی ہم سے یہ نہیں کہاکہ تم بھی اس میں اپناحصہ ڈالو۔18 جنوری 2018کو فرح نازنے مجھے(شہناز) فون کیا اوربتایا کہ ابوکو ہلکا ساہارٹ اٹیک ہوا ہے لہٰذا تمہیں اب آ جانا چاہئے۔ مجھے ایسے لگا جیسے میرے پائوں کے نیچے سے زمین نکل گئی ہو۔ میں نے فوراً سیٹ بک کروائی اور واپس پاکستان آگئی۔ وہ مجھے دیکھ کر بہت خوش ہوئے لیکن اس بات پر فکرمند بھی تھے کہ میں نے اپنے بچوں کو پیچھے کیوںچھوڑا ہے ۔ انہوں نے مہناز کو یاد کیا تو اس کے شوہر نے ایک لمحے کی تاخیر کئے بغیر اسے ابو کے پاس بھجوا دیا۔
ابو ہسپتال میں صرف 13 دن رہے۔ وہ ناقابل یقین حد تک صابر آدمی تھے۔ جس دن انہیں ہارٹ اٹیک ہوا، اس دن وہ بالکل پرسکون تھے۔ انہوں نے اللہ کا نام لیا اور فرح اور اس کی بیٹیوں کو اپنے دائیں ہاتھ پر اللہ کا نام لکھا ہوا دکھایا۔ انہوں نے بتایا کہ انہیں پھول اور نہریں نظرآئی ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ انہیں ایسے لگا جیسے کوئی ان کے سرہانے آکر بیٹھ گیا ہو۔ وہ اسے نہیں جانتے تھے اور ان کے بقول ان کا خیال ہے کہ وہ کوئی فرشتہ تھا۔ گزشتہ رات وہ میرے پاس سے گزرے تو میں نے ان سے پوچھا کہ کیا انہیں درد ہے؟ تو جواب میں انہوں نے کہا کہ ’’نہیں‘‘۔ میں جانتی تھی کہ وہ صبر سے کام لے رہے ہیں۔انہوں نے عامر کا پوچھا تو میں نے کہا کہ اس کا پاسپورٹ ایکسپائر ہو گیا ہے اور اس کی تجدید میں تاخیر ہو رہی ہے۔ اس پر انہیں قدرے مایوسی ہوئی۔ تب مجھے علم ہوا کہ وہ اس کا بڑی بے چینی سے انتظار کر رہے تھے لیکن ضبط کا دامن بھی نہ چھوڑ رہے تھے ۔
وہ رات کو اچانک گہری نیند سے اٹھ جاتے اور دعائیں پڑھنے لگتے۔ وہ مستقلاً استغفار کرتے رہتے اور زیر لب قرآنی آیات اور درود شریف پڑھتے رہتے۔ 30 جنوری، بروز منگل صبح کے وقت اللہ تعالیٰ نے اس سعید روح کو اپنے پاس بلا لیا۔ (انا للہ و انا الیہ راجعون)۔ ان کے ڈاکٹر حضرات انہیں ایک رحمدل، باعلم اور مہذب انسان کے طور پر یاد کرتے ہیں۔ ڈاکٹروں کے مطابق ان کے آخری الفاظ ان لوگوں کے لئے اظہار تشکر کے تھے جنہوں نے ان کا خیال رکھا۔
بچپن سے اب تک ‘ جب بھی ہم اپنے والد سے بچھڑتے تو روتے اور وہ ہمیں اور اپنے نواسوں، نواسیوں سے کہتے کہ ’’تم چاند کی طرف دیکھو اور یاد رکھو کہ وہ تمہارے  ساتھ ہی ہوتا ہے۔‘‘ 31 جنوری کو، ان کی رحلت سے اگلے دن ہم نے ’’سپر مون‘‘ دیکھاجو ڈیڑھ صدی میں صرف ایک دفعہ ظاہر ہوتا ہے۔ ہمیں اپنے ابو بہت یادآئے۔
ہر شخص کے لئے اس کا والد سب سے اہم اور خاص شخص ہوتا ہے۔ ہماری نظر میں ہمارے والد دنیا کے منکسرالمزاج ترین آدمی تھے۔ ہم خوش قسمت تھے کہ ہمیں ان جیسا شخص بحیثیت والد ملا۔ وہ اپنے بچوں سے اظہارِمحبت میں کبھی نہ شرماتے، بلکہ اس پر فخر کرتے۔ وہ ہم بہن بھائیوں میں سے ہر ایک کے ساتھ ایک خاص اور منفرد تعلق رکھتے لیکن محبت سب کے ساتھ ایک جیسی کرتے تھے ۔ انہوں نے ایک کامیاب زندگی گزاری اور اپنی راہ میں حائل ہونے والی رکاوٹوں اور مشکلات کا پوری استقامت اور دلجمعی سے مقابلہ کیا۔ انہوں نے ہمارے اندر اخلاقیات،ساکھ کی حفاظت کا احساس ، جرات اور سب سے بڑھ کر محبت پیدا کی ۔یہ بہت ہی اہم تحفہ ہے جو بہت تھوڑے لوگ کسی کو دے پاتے ہیں ۔
ان کے چلے جانے سے ہماری زندگیوں میں جو خلا پیدا ہوا ہے‘ اسے بیان کرنے کے لئے ہمارے پاس الفاظ نہیں اور یہ خلا کبھی پر نہیں ہوسکے گا لیکن ہمیں یہ تسلی ضرورہے کہ وہ اپنے رب کے پاس ہیں اورانشاء اللہ وہاں اپنے اچھے اعمال کا بہترین بدلہ ضرورپائیں گے۔اللہ تعالیٰ انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائیں اور ہمیں اس صدمے کو صبر کے ساتھ سہنے کا حوصلہ دیں ۔عامر اپنے والد کے اکلوتے بیٹے ہیں اور ان سے سیکھی ہوئی اقدار کا تذکرہ اپنے دوستوں کے ساتھ کرکے انہیں زندہ رکھے ہوئے ہیں۔ ان کے دوستوں نے ہمارے والد کو کبھی نہیں دیکھا لیکن غائبانہ طور پر ان سے بہت متاثر ہیں اور ان کا احترام کرتے ہیں۔ ابو‘ عامر کی کل کائنات تھے۔ وہ ان کے لئے بیک وقت باپ، ماں اور بہترین دوست تھے۔
ہم ایڈیٹر شفانیوز کے شکرگزار ہیں جنہوں نے ہمارے والد کو عزت و احترام دیا اور ہمیں یہ موقع فراہم کیا کہ ان صفحات میں انہیں خراج تحسین پیش کر سکیں۔ ہم اعجاز رحیم صاحب کے خاص طور پر شکرگزار ہیں جو ان کے مددگار دوست اور عمرے کے ساتھی ہیں۔ ہم ڈاکٹرمنظور احمد سے تعزیت کرتے ہیں جو 1963ء سے ان کے قابل اعتماد دوست رازداں ہیں۔ ہم ان کے نصف صدی کے ساتھی ڈاکٹر ریاض احمدکے شکرگزار ہیں جنہوں نے انہیں شفانیوز سے متعارف کرایا۔آخر میں شفا نیوز کی پوری ٹیم کا شکریہ جو ہمیشہ ان کے دل کے بہت قریب رہی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں نے انہیں شفانیوز میں لکھنے کی ترغیب دی
ڈاکٹر ریاض احمد‘پشاور
ڈاکٹر عبدالرحمٰن صاحبزادہ پرکشش شخصیت کے مالک انسان تھے جو اپنے خوبصورت اور پرسکون چہرے کے ساتھ 30 جنوری 2018 ء کی صبح اپنے عزیزو اقارب اورچاہنے والوں کو سوگوار چھوڑ کر ابدی دنیا کے سفر پر روانہ ہو گئے۔ وہ ایک عرصے سے شفانیوز انٹرنیشنل میں مخلصانہ قومی جذبے اور احساس فرض کے ساتھ قارئین کو اہم طبی معلومات دلچسپ اورآسان پیرائے میں فراہم کررہے تھے۔ اب جب وہ میگزین میں نظر نہیں آئیں گے تو ان کی کمی شدت سے محسوس ہوگی۔ڈاکٹر صاحبزادہ کے ساتھ میرا تعلق میڈیکل کالج کے زمانے سے ہے ۔ اگرچہ وہ مجھ سے تین سال سینئر تھے لیکن ان کے ساتھ ایک خاص قلبی تعلق قائم ہوگیا جو عمر بھر قائم رہا۔
مجھے یاد ہے کہ ایک موقع پر میں نے ان سے کہا کہ وہ اپنے تجربات اور مشاہدات سے دوسروں کوآگاہ کرنے کے لئے شفانیوز میں لکھنا شروع کریں۔ مجھے خوشی ہے کہ انہوں نے میری درخواست کو منظور کرتے ہوئے اپنے اور’’ڈاکٹر ابوعامرخان‘‘ کے قلمی نام سے’’سرجن کی ڈائری‘‘ اور کچھ دیگر عنوانات کے تحت بہت سے دلچسپ اور معلوماتی مضامین لکھے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ انہوں نے مجھے شاعری کے میدان میں متعارف کرایا۔ ہوا یوں کہ راولپنڈی سے ایک رسالہ ’’چہارسو‘‘ ڈاکٹر امجدحسین زیدی نمبر شائع کررہاتھا۔ ڈاکٹر صاحبزادہ نے مجھ سے فرمائش کی کہ میں مرحوم ڈاکٹر زیدی کے بارے میں ان کی انگریزی نظم کی طرز پر منظوم سوانحی بیانیہ لکھوں۔ یوں میں نے پہلی دفعہ ایک نظم لکھی جسے رسالے نے ’’قرطاس اعزاز‘‘ پر شائع کیا جسے قارئین نے بہت سراہا۔ یوں ان کے کہنے پر میں نے اس میدان میں قدم رکھا اورتب سے اب تک ’’چہارسو‘‘ میں میری ی نظم یا غزل تسلسل سے شائع ہو رہی ہے۔ مجھے ان کی یہ ترغیب ہمیشہ یاد رہے گی۔

Vinkmag ad

Read Previous

حقیقت یہ ہے۔۔۔

Read Next

فالج کا مریض گھرمیں تبدیلیاں ‘دیکھ بھال

Most Popular