Vinkmag ad

سرجری کی کہانی‘ سرجن کی زبانی

سرجری کا شعبہ آج بہت ترقی یافتہ شکل اختیار کر چکا ہے جس کی بدولت بہت سی انسانی جانیں بچانا ممکن ہوگیا ہے۔اس کی تاریخ میں بہت سے ادوار ایسے گزرے ہیں جن میں یہ سب کچھ اتنا آسان نہ تھا۔ اس کی تاریخ بہت سے دلچسپ اورعجیب و غریب حقائق کی بھی حامل ہے۔ مثال کے طور پر بعض شواہد کے مطابق علم جراحت کے آثار اس دور میں بھی پائے گئے ہیں جب ابھی دھات دریافت نہ ہوئی تھی اور انسان پتھر کے اوزار اورہتھیار استعمال کرتا تھا۔ اس دور کی ایسی انسانی کھوپڑیاں بھی دریافت ہوئی ہیں جن میں چھوٹے‘ گول اورچوکور سوراخ موجودہیں۔ ان کے بارے میں گمان ہے کہ وہ آج سے تقریباً 12ہزار سال پرانے انسانوں کی ہیں۔

ان آپریشنز کے مقاصد کے بارے میں محض قیاس آرائیاں ہی ممکن ہےں۔ تاہم یہ ثابت شدہ بات ہے کہ ایسے مریض آپریشن کے بعد بھی زندہ رہے‘ اس لئے کہ کھوپڑیوں کی ہڈیاں بعد میں مندمل بھی ہوئیں۔ بعض کھوپڑیوں پر دو یا تین مختلف طرح کے آپریشن مختلف وقتوں میں بھی ہوئے۔ اسے ترپان سے جراحی کاعمل (trephining) کہا جاتا ہے اور یہ قدیم ترین سرجری شمار ہوتی ہے ۔

برصغیرپاک و ہند میںسرجریاں

دنیا کے بعض خطوں میں یہ قدیم رسم آج بھی موجو دہے کہ اگرکسی عورت کے کردارپر شبہ ہو تواس کی ناک کاٹ دی جاتی ہے تاکہ وہ کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہ رہے۔ قارئین کو یہ پڑھ کر حیرت ہوگی کہ کٹی ہوئی ناک کو مرمت کرنے کے لئے اولین آپریشن600قبل مسیح میں برصغیر میں ہواجس کے لئے ناک کے اردگرد گالوں اور ماتھے کی جلد استعمال کی جاتی تھی۔ اس مقصد کے لئے جلد کو ہٹا کر لگانے کی بجائے اسے پیچیدہ طریقے سے آگے پیچھے کرکے نئی ناک بنادی جاتی۔

اسی طرح سفید موتئے (cataract)کا آپریشن بھی یہیں ایجاد ہوا۔اس مرض میں آنکھ کے قدرتی عدسے کی شفافیت ختم ہوجاتی ہے جس کی وجہ سے روشنی آنکھ میں داخل نہیں ہوسکتی۔ ایسے غیر شفاف عدسے کوآنکھ میں سوئی یا کانٹا چبھو کر پیچھے کی طرف ایسے گرادیاجاتا تھا جیسے وہ لیٹ گیا ہو۔اس آپریشن کو کاﺅچنگ (couching) کہاجاتا ہے۔ یہ تکنیک بھی 3000سے 3500 سال قبل یہیں سے پھیلی اور آج بھی کئی پسماندہ علاقوں میں رائج ہے۔

عہد جدید کے اولین جراح
تاریخِ طب کا مطالعہ ہمیں بتاتا ہے کہ ابتدائی دور میں سرجنز یعنی جراحوں کو بہت کم لوگ ڈاکٹر ماننے پر تیار تھے ۔ زمانہ وسطیٰ میں انہیں فن جراحت سیکھنے کے لئے حجاموں کی شاگردی اختیار کرنا پڑتی تھی اور پھرجو لوگ اس کام کو بطورپیشہ اختیار کرتے‘ انہیں حجام جراح (surgeons barber )کہاجاتا تھا۔یہودیت اور اسلام میں بچوں کے ختنے کرانے کا حکم ہے جس پر عمل صدیوں سے جاری ہے۔ ہمارے ہاں دیہات میں تو یہ کام اب بھی حجام ہی انجام دیتے ہیں۔
زمانہ وسطیٰ میں حجاموں کے فرائض میں بال کاٹنے کے علاوہ ٹوٹے ہوئے ہاتھ پاﺅں جوڑنا‘پھنسی پھوڑوں کو چیرنا‘زخموں کا علاج کرنا اورعلاج کی غرض سے خون بہانا بھی شامل تھا۔ خون بہانے کا غلط اور نقصان دہ طریقہ ہماری طب میں کئی صدیوں تک جاری رہا اورآج سے تقریباً دو سوسال پہلے اسے ختم کیاگیا ‘ تاہم اب بھی بعض جگہوں پر جونکوں کے ذریعے خون نکالا جاتا ہے۔

برطانیہ کے چار سرجن کالجز میں سے دو کی بنیاد باربر سرجنزنے ہی رکھی۔سرجری کے حوالے سے قدیم ترین کالج آر سی ایس لندن (دی رائل کالج آف سرجنز آف لندن) سب سے پہلے 1368ءمیں ایڈنبرا ( سکاٹ لینڈ) میں قائم ہوا۔’ آر سی ایس اڈنبرا‘ کے نام سے اس کا آغاز 1505ءمیں ہوا۔ بعد میں’ آر سی ایس لندن‘ کو’ آر سی ایس انگلینڈ ‘ یا صرف ’آر سی ایس لندن‘ کہا جانے لگا۔ باقی دورائل کالجز بعد میںڈبلن (Dublin)اور گلاسگو) (Glasgow میں معرض وجود میں آئے۔

فزیشن حضرات یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہوتے تھے۔ ان کے مقابلے میں سرجنز کم تعلیم یافتہ تھے لہٰذا معاشرے میں اُن کا درجہ ڈاکٹروں سے کم سمجھا جاتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ سرجنز کو مسٹر‘مس یا مسز کے القاب سے مخاطب کیاجاتا۔

زخموں پر ابلتاہواتیل چھڑکنا
زمانہ¿ قدیم میں زیادہ تر زخم حادثات مثلاً گرجانے ‘ درندوں کے کاٹنے یا جنگ کے دوران ہتھیاروں مثلاً تیر‘تلوار یا غلیل کی وجہ سے لگتے تھے۔ جب ہتھیاروں میں بارود کا استعمال شروع ہوا توزخم زیادہ خطرناک ہونے لگے ۔ابتدائی طور پر لوگوں کا خیال تھاکہ گولوں اور گولیوں کے زخم بارود کے زہریلے پن کی وجہ سے ہوتے ہیں۔ اس ”زہر“ کا توڑ یہ نکالا گیا کہ ایسے زخموں پر گرم ابلتا ہوا تیل ڈالا جائے۔ یہ نہ صرف زخموں پر نمک چھڑکنے سے کئی گنا زیادہ تکلیف دہ تھا بلکہ اس سے ان کے مندمل ہونے میں وقت بھی زیادہ لگتا اور بعض اوقات معمولی زخم بھی انفیکشن کی وجہ سے جان لیوا ثابت ہوتے تھے۔

حسن اتفاق سے ایک جنگ کے دوران تیل کی قلت پیداہوگئی تو (حجام ) سرجن ایمبروز پارے (Ambroise Paré)نے مجوراً ابلتے ہوئے تیل کی بجائے ایک مرہم استعمال کیا جو اس نے انڈے کی زردی‘گلاب کے عرق اور تارپین سے( اُبالے بغیر )تیار کیا تھا۔ اس نے جب یہ مرہم فوجیوں کے زخموں پر استعمال کیاتو اگلے روز اسے یہ دیکھ کرحیرت ہوئی کہ ان کے زخم‘ ان لوگوں کے زخموں کی نسبت زیادہ اچھی حالت میں تھے جن پر ابلتا ہوا تیل استعمال کیا گیاتھا۔مزید براں مرہم والے مریض زیادہ سکون میں بھی تھے۔ اس مشاہدے کی بنیاد پر سرجن اس نتیجے پر پہنچا کہ ابلتاہوا تیل زخموں کے لئے مضرہے۔
پیرے اس بات کا بھی قائل تھا کہ کٹی ہوئی رگوں کو جلا کر خون روکنے کی بجائے انہیں ٹانکوں سے باندھنا چاہیے۔ وہ 16ویں صدی کا سرجن تھا جبکہ ٹانکوں کا رواج اس سے صدیوں پہلے بھی موجود تھا تاہم عرب حکیموں کے اثر رسوخ کی وجہ سے ٹانکوں کی بجائے جلانے (cauterization)کی تکنیک کو ترجیح دی جاتی تھی۔

بے ہوش کئے بغیر سرجریاں
زخموں کو جلانے کا طریقہ 19ویں صدی کے وسط کی امریکہ کی خانہ جنگی کے دوران بھی جاری رہا۔ یہ وہ دور تھا جب امریکہ کی صدارت ابراہام لنکن کررہے تھے اور انستھیزیا کے لئے ہنسانے والی گیس ‘ ایتھراور کلوروفارم دریافت ہوچکے تھے۔ تاہم جنگ کے دوران دیگر چیزوں کی طرح ان ادویات کی بھی قلت تھی لہٰذا گولیوں اور توپ کے گولوں سے زخمی ہونے والے فوجی اکثر انفیکشن کے ہاتھوں یا خون زیادہ بہہ جانے کی وجہ سے جان سے ہاتھ دھوبیٹھتے تھے۔
اس وقت سب سے عام آپریشن زخمی ہاتھ یا پاﺅں کاٹنا ہوتا تھا اور دواﺅں کی قلت کی وجہ سے اکثراوقات ایسے تکلیف دہ آپریشن مریض کو بے ہوش کئے بغیر کئے جاتے تھے۔ ایسے میں اس کی رُوح فرسا چیخیں اور رحم کی بھیک پر مبنی صدائیں آپریشن روم سے دور دور تک سنائی دیتی تھیں۔ وہاں کا ماحول ایسے ہوتا جیسے کوئی قصاب گوشت کاٹ رہا ہو۔ زیادہ سے زیادہ دستیاب سہولت یہ تھی کہ مریض کو وہسکی پلا کر نشے میں دُھت کردیاجائے، تاہم شراب درد سے چھٹکارے میں کوئی مدد نہ دیتی۔

اگرچہ اس کی تصدیق مشکل ہے، تاہم کہا جاتا ہے کہ ایسے سرجن آپریشن تھیٹر میں شراب کی دوبوتلیں لے کر داخل ہوتے تھے۔ ان میں سے ایک مریض کے لئے جبکہ دوسری آپریشن کرنے والے سرجن کے لئے ہوتی تاکہ وہ اپنے اعصاب پر قابو رکھ سکے۔ اس کے علاوہ سرجن اپنے کانوں میں روئی بھی ٹھونس لیتے تھے تاکہ مریض کی دلخراش چیخیں انہیں مدھم سنائی دیں۔ معلوم نہیں کہ یہ بات کہاں تک سچ ہے، لیکن کہی جاتی ہے کہ کبھی کبھی مریض کے سر پر خاص طریقے سے ضرب لگادی جاتی جس سے وہ ہوش و حواس کھوبیٹھتا اور اس دوران اُس کا بازو یا ٹانگ کاٹ دی جاتی۔

سرجنوں کی پھرتیاں
امریکہ اور یورپ کے مختلف ممالک میں ایسے سرجن دیکھنے میں آئے جو آپریشن کو نہایت تیزی رفتاری سے کرنے کی شہرت رکھتے تھے۔ سکاٹ لینڈ کا ایک سرجن رابرٹ لسٹن(1794ءتا 1847) اس حوالے سے خاصا مشہورتھاجو30-25سکینڈ میں مریض کی ٹانگ کاٹ دیتا تھا۔ ایسے میں بعض اوقات بڑی غلطیاں بھی ہو جاتیں۔ مثلاً ایک بار جب وہ ایک مریض کی ٹانگ اس کے کولہے کے قریب سے کاٹ رہاتھا تو چاقو کے وار سے مریض کے دونوں خصیے بھی کٹ گئے۔

اسی طرح ایک بار جب وہ گھٹنے سے اوپر مریض کی ٹانگ کاٹ رہا تھا تواس کا آپریشن دیکھنے کے لئے اس کے قریب ایک آدمی بھی کھڑا تھا۔ ڈاکٹرلسٹن نے 30سکینڈ میں ٹانگ تو کاٹ دی لیکن جلدی میں چاقو کی نوک ’تماشائی‘ کے کوٹ اور کپڑوں میں سے گزر کر اس کی پیٹھ کو چھوگئی۔ مریض کی ٹانگ میں چونکہ خطرناک انفیکشن تھا لہٰذا اُسے(تماشائی ) خوف ہوا کہ یہ بیماری اسے بھی لگ جائے گی۔ چنانچہ خوف کے مارے اس کی جان نکل گئی۔ مزید براں ڈاکٹر کے اسسٹنٹ کی انگلیاں بھی سرجن کے چاقو کی زد میں آ کر کٹ گئیں جو مریض کی ٹانگ پکڑے ہوئے تھا۔ جس شخص کا آپریشن ہوا تھا‘وہ انفیکشن کی وجہ سے دو یا تین دن بعد جاں بحق ہوگیا ۔اسسٹنٹ کے ہاتھ میں بھی انفیکشن پھیل گیا جو جان لیواثابت ہوا۔یوں طب کی طویل تاریخ میں یہ ایسا منفردواقعہ ہے جس میں آپریشن تو ایک مریض کا ہوا لیکن ہلاکتیں تین افراد کی ہوئیں۔

زمانہ وسطیٰ کے ایک سرجن لیری( Larrey) نے ایک لڑائی میں زخمی ہونے والے 200 فوجی جوانوں کے ہاتھ یا پاﺅں 24 گھنٹوں کے دوران کاٹے جس سے اس کی آپریشن میں ”مہارت“ یا تیز رفتاری کا باآسانی اندازہ کیاجاسکتا ہے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب سرجن حضرات بغیر ہاتھ یا اوزار دھوئے ایک ہی کپڑے اور ایپرن وغیرہ پہنے یکے بعد دیگرے مریضوں کے آپریشن کیاکرتے تھے۔ ان کا لباس کلف لگے بغیر بھی اکڑا ہوتا تھا‘ اس لئے کہ اس پر خون اور پیپ خشک ہو کرکلف کی طرح سخت ہوجاتاتھا۔

جراثیم کی دریافت
خوردبین کی ایجاد 17ویں صدی میںہوئی جس کی مدد سے جراثیم وغیرہ کو دیکھنا ممکن ہوا ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ڈاکٹروں نے خوردبین کی اہمیت کو طویل عرصے تک نظرانداز کیا۔ جراثیم کے بارے میں ابتدائی مشاہدات زیادہ تر ان لوگوں تک محدود رہے جو غیر تعلیم یافتہ تھے لہٰذا اُنہیں کسی نے کوئی خاص اہمیت نہ دی۔اگرچہ متعدی بیماریوں کے بارے میں ڈاکٹروں کوشبہ تھا کہ یہ ایک سے دوسرے فرد کو لگتی ہیں لیکن ان میں سے اکثر کا خیال تھاکہ اس کا سبب زخموں پر آب وہو ا کے اثرات ہیں۔
کئی صدیوں تک ڈاکٹر اس تصور پر اڑے رہے کہ زخموں کے ٹھیک ہونے کے لئے ان میں سفید یا زرد پیپ کا پیداہون

ا لازمی ہے۔ اسے ”پسندیدہ پیپ“ کہاجاتااور اسے پیدا کرنے کے لئے زخموں پر مختلف مضرصحت چیزیں استعمال کی جاتی تھیں۔ بابائے طب بقراط ایسی پیپ کو مضر سمجھتا تھا۔
پیپ کی خاصیت کا انحصار اس بات پر ہے کہ زخم میں انفیکشن کن جراثیم نے پیدا کی ہے۔ عام جراثیم سے کریمی پیپ جبکہ ملے جلے جراثیم سے نرم، بدبودار اور خون ملی پیپ پیدا ہوتی ہے۔ موخرالذکر کے جراثیم زیادہ خطرناک ہوتے ہیںجن کے انفیکشن سے لوگ مربھی جاتے ہیں۔طبیبوں نے جالینوس کی ہدایات پر عمل کیا ‘ اس لئے کہ و ہ بہت بارسوخ انسان تھا۔ اس کی تعلیمات اگلے 1500 سال تک جاری رہیں۔

جب 1860ءکی دہائی میںجراثیم کا نظریہ پیش کیا گیاتو انگلستان کے سرجن لارڈلسٹر(Lord Lister)نے جراحی میں اوزاروں کو جراثیم سے پاک کرنے سے متعلق ٹیکنالوجی کو فروغ دیا۔ ویانا (آسٹریا) کے ایک ڈاکٹر نے سرجنز پر زور ڈالا کہ وہ سرجری سے پہلے رنگ کاٹ جیسے کیمیائی مادے سے ہاتھ دھویا کریں ۔ جب خون روکنے کے لئے خاص قسم کی ربڑ کی پٹی(esmarch bandage) اور دیگر ادویات کا استعمال ہونے لگاتوبہت سے لوگوںکی جانیں بچ گئیں اور سرجری کے پیشے میں تیزی سے ترقی ہوئی ۔

انستھیزیا ، ایک اہم سنگ میل
ماضی میں جب فوجیں دشمن کے شہر میں فاتحانہ داخل ہوتیں تو مظالم کی نئی تاریخیں رقم کرتیں۔ ایسے میں بعض اوقات خواتین کی چھاتیاں بھی کاٹ دی جاتیں۔ برلن کی فتح کے بعد جرمن خواتین پر ایسے مظالم بین الاقوامی اور خصوصاً روسی فوجیوں نے ڈھائے۔ ایسے ہی واقعات 1947ءمیں اس وقت بھی سامنے آئے جب ہندوستان کا بٹوارہ ہوا۔ مضمون میں اس کا تذکرہ اس لئے ہوا کہ انستھیزیا کی ایجاد سے پہلے کچھ ایسی خواتین تھیں جنہیں چھاتی کاکینسر ہوجاتا تھا۔ ایسے میں رسولی سے نجات حاصل کرنے کےلئے بے ہوش کئے بغیر ان کی چھاتیاں کاٹ دی جاتیں۔ انستھیزیا کی دریافت نے ایسی عورتوں کے لئے بہت آسانی پیدا کر دی۔

انگلستان کی ملکہ وکٹوریہ کے نوبچے تھے۔جب آخری دو بچوںکی پیدائش کا وقت آیا تو اس وقت تک کلوروفارم استعمال ہورہی تھی لہٰذا زچگی کے دوران اس کے درد زہ کو ختم کرنے کے لئے اسے کلوروفارم سُنگھائی گئی۔ اخبارات میں بھی اس کا ذکرہوا جس کی وجہ سے اس کی مقبولیت میں مزید اضافہ ہوا۔ برطانیہ کے بادشاہ ایڈورڈ ہشتم جب تاجپوشی کی تیاریوں میں مصروف تھاتو اسے اپنڈی سائٹس (appendicitis) ہوگیا۔ علاج میں تاخیر کی وجہ سے اپنڈکس پھٹ گیا۔جس سے اس کے پیٹ میں بہت بڑا پھوڑا بن گیا۔بادشاہ کو ایتھر کی بے ہوشی دی گئی اور شاہی محل میں اس کے پیٹ کے پھوڑے سے پیپ نکالی گئی۔
سرجری کے شعبے میں کامیابیوں کا سفر جاری ہے جس سے
بنی نوع انسان کو بہت فائدہ پہنچا ہے ۔ہمیںامید رکھنی چاہئے کہ یہ سفر تھمے گا نہیں بلکہ آگے کی طرف جاری وساری رہے گا۔

Vinkmag ad

Read Previous

گرمیوں کی چھٹیوں میں ہم نے دیکھا پشاور

Read Next

تربوز- رکھے آپ کو تازہ دم

Most Popular