Vinkmag ad

حماقتیں

غلطیاں کرنا انسان کی سرشت میں شامل ہے اور وہ اس سے کبھی نہ کبھی سرزدہو ہی جاتی ہیں‘ تاہم عقلمندی کا تقاضا یہ ہے کہ ان سے سبق سیکھا جائے ۔ڈاکٹرحضرات بھی دیگر انسانوں کی طرح ہی ہیں اور ان سے بھی خطائیں سر زد ہو سکتی ہیں تاہم انہیں خاص طور پر اور زیادہ محتاط ہونے کی ضرورت ہے‘ اس لئے کہ ان کی لغزشیں مریض کے لئے تکلیف کاباعث بنتی ہیں۔
ڈاکٹرعبدالرحمٰن صاحبزادہ کی یادداشتیں
6
دوسروں کی احمقانہ حرکتوں کا مذاق اڑانااور انہیں مزے لے لے کر بیان کرنا جبکہ اپنی ایسی ہی لغزشوں کو حتیٰ الامکان چھپانا اکثر لوگوں کی عادت ہوتی ہے ۔ انسان خطا کا پُتلا ہے اور ہر ایک سے کبھی نہ کبھی ،کوئی نہ کوئی غلطی یا بھول چُوک ہو ہی جاتی ہے ۔ ان میں سے بعض ایسی ہوتی ہیں کہ اگر عرصہ دراز کے بعد بھی یادآجائیں تو انسان شرمندگی محسوس کرتا ہے اور ان کے کچھ پہلو ایسے ہوتے ہیںکہ خود پر بے اختیار ہنسی آتی ہے۔آج میں اپنی ایک غلطی کا ذکر کرنا چاہتا ہوں جو مجھ سے اس وقت سرزدہوئی جب میں نیا نیا سرجن بنا تھا ۔
سیم (فرضی نام لیکن حقیقی کردار ) 40 سال کی عمر کا ایک شخص تھا۔ وہ بہت محنتی آدمی تھا جسے گزشتہ کئی سالوں سے پاﺅں اورٹانگ کی رگوں (varicose veins)میں تکلیف کا سامنا تھا۔اس مرض میںخون کی پتلی رگوں کے اندرموجود والوزبے کا رہو کر اپنا کام چھوڑ دیتے ہیں۔اس کی وجہ سے ٹانگوں کی رگوں میں خون کا دباﺅبڑھتا ہے جبکہ اسے دل کی جانب جانے میں زیادہ وقت لگتا ہے۔
اگر اس مرض میں مبتلا فرد دن بھر زیادہ وقت کے لئے کام کرتا رہے یااپنی ٹانگوں پر کھڑا رہے تو ان میں درد ہونے لگتا ہے۔یہ درد رات کو زیادہ محسوس ہوتا ہے جس کی وجہ سے نیند بھی خراب ہو سکتی ہے ۔ دن بھرمصروف رہنے سے شام تک ان کی ٹانگوں اور پاﺅں میں سوجن بھی ہوجاتی ہے جس کی وجہ رگوں سے پانی کا ٹشوز میں رِسنا ہے۔ اسے ورم پا (edema) کہتے ہیں۔ان لوگوں کی رگوںمیں خون جم سکتا ہے اور اگر انہیں ٹانگ پرکوئی چوٹ لگ جائے تو زخم کے بھرنے میں وقت بھی زیادہ لگتا ہے۔ اکثر اوقات ٹانگ کے نچلے تہائی حصے پر السر بن جاتا ہے جو سال ہا سال تک ٹھیک نہیں ہوتا۔ اس طرح کی پیچیدگیوں سے بچنے کے لئے تجویز کیا جاتا ہے کہ سرجری کے ذریعے ان رگوں کو ہٹادیاجائے ۔ آپریشن میں شاخوں کو کاٹ کر باندھ دیاجاتا ہے ۔ ٹانگوں میں متبادل رگیں بھی ہوتی ہیںلہٰذا ان رگوں کو کاٹنے اور ہٹانے سے انہیںنقصان نہیں پہنچتابلکہ فائدہ ہی ہوتا ہے۔
سیم کوئلے کی ایک کان میں کام کرتا تھا۔کان کنی ایک مشکل اور سخت جسمانی مشقت والا کام ہے جس میں کئی طرح کے خطرات بھی ہوتے ہیں۔مثلاً جو لوگ ان کانوں میں زیادہ عرصہ کام کرتے رہیں ‘ ان کے پھیپھڑوں میں کوئلے اور پتھروں کی دھول جم جاتی ہے۔جوانی میں تو اس کا زیادہ احساس نہیں ہوتا لیکن بڑھاپے میں ایسے افراد پھیپھڑوں کے مختلف امراض کا شکار ہوجاتے ہیں۔سیم وہاں معمول کے آٹھ گھنٹوں کی بجائے 10،10گھنٹے یا اس سے بھی زیادہ کام کرتا تھا۔ اس کا عزم تھا کہ اگر زندگی نے وفا کی تو وہ اگلے 25برس تک ان کانوں میں کام کرتا رہے گا۔
اس کے پاﺅں کی رگیں اس کے کام میں رکاوٹ بن رہی تھیں لہٰذا میری رائے میں اسے آپریشن کی لازماً ضرورت تھی ۔اس نے اس کی حامی بھرلی جس کے بعد آپریشن کے لئے تاریخ کا تعین ہوا اور پروگرام کے مطابق ہم نے سرجری کر دی ۔چونکہ اس کی ٹانگ میں بہت سی رگیں پھولی ہوئی تھیں‘ ا س لئے آپریشن تقریباً ساڑھے تین گھنٹے تک جاری رہا۔
ایسے آپریشن کے بعد پٹیاں پیر کے انگوٹھے اور انگلیوں سے لے کر جانگھ (ٹانگ کے بالائی سرے اور دھڑ کے درمیان کھوکھلا حصہ) تک باندھ دی جاتی ہیں۔ ان پٹیوں میں لچک ہوتی ہے اور یہ خاص طریقے سے باندھی جاتی ہیں تاکہ ان کا دباﺅ اتنا زیادہ نہ ہو کہ خون کی گردش ہی رک جائے۔ اتنالمبا آپریشن انسان کو کافی حد تک تھکادیتا ہے ۔میں بھی اس کے اختتام پر خاصی تھکاوٹ محسوس کررہا تھا‘ تاہم مطمئن تھا کہ سب کچھ ٹھیک طرح مکمل ہوا۔آخری مرحلے میںتھکاوٹ کی وجہ سے مجھے پٹیاں باندھنا آپریشن سے زیادہ مشکل لگ رہاتھا ۔ا س کے بعد میںساتھ والے کمرے میں سیم کی بیوی اور اس کے بچوں سے ملا اور پھر سستانے لیٹ گیا۔ کچھ دیر آرام کرنے اور ایک کپ کافی پینے کے بعد میںتازہ دم ہوکر واپس لوٹ آیا۔
میں نے شام کومعمول کے مطابق راﺅنڈ کیا اور جب سیم کے پاس آیا تو وہ غنودگی کی کیفیت میں تھا لہٰذا اس سے کچھ زیادہ بات چیت نہ ہو سکی۔ نرس نے میرے آنے سے کچھ ہی دیر پہلے اسے درد کم کرنے کے لئے انجیکشن لگایاتھا۔میں نے اس کی پٹیاں دیکھیں اورپاﺅں کی انگلیوں میں خون کی گردش چیک کی جو مجھے تسلی بخش دکھائی دی‘ یعنی پٹیاں زیادہ زور سے کسی ہوئی نہیں تھیں ۔اس کے بعد میں اُس کے کمرے سے نکل آیا۔
اگلی صبح راﺅنڈ کے وقت تک وہ پوری طرح سے جاگا ہوا تھا۔ اس نے مجھ سے پہلا سوال یہ کیا کہ اسے ہسپتال میں مزید کتنے دن رہنا پڑے گا۔میں نے اس سے کہا کہ پٹی بدلنے کے بعد ہی اس کا جواب دے سکوں گا۔جب ایک مریض ہسپتال سے ڈسچارج ہونے کے بارے میں سوال کرتا ہے یاخاتون مریضہ اپنے ہونٹوں پرلپ سٹک لگا لیتی ہے تو اس کا مطلب ہوتا ہے کہ وہ صحت یاب ہورہی ہے ۔مجھے بھی اس کے سوال پر خوشی ہوئی ۔جب مریض نے پٹی کا نام سنا تو اس نے مجھ سے کہا: ’ڈاکٹر صاحبزادہ!پٹیاں مجھے آپریشن سے زیادہ تنگ کر رہی ہیں ۔اس کا وہ حصہ زیادہ تکلیف کا سبب بن رہا ہے جو جانگھ کے قریب ہے اورجہاں پٹی ختم ہوتی ہے۔“
میںنے کہا’سیم! پہلے مجھے وہ جگہ دیکھنے دو۔‘میں نے اس کی اوڑھی ہوئی چادر ہٹادی اور پٹیوں کا معائنہ کرنے لگا۔میں نے دیکھا کہ لچکدار پٹی جلد پر ہی تھی اوراس کے اور جلد کے درمیان روئی حائل نہیں تھی۔چونکہ وہاں پٹی ختم ہورہی تھی لہٰذا مجھے خدشہ تھا کہ اگر مریض نے کروٹ بدلی یا باتھ روم تک گیا تواس کے حرکت کرنے کی وجہ سے پٹی کھل جائے گی ۔ اس لئے میں نے اس پر احتیاطاً ایک سیفٹی پن لگادی تھی ۔ اب پتہ چلا کہ میںنے وہ سیفٹی پن غلطی سے اس کی جلد میں سے گزاری ہوئی تھی اور اس میں جلد کا تقریباًچارسینٹی میٹر حصہ شامل کردیا تھا۔ مریض کے ہلنے جلنے پر وہ یقیناً شدید درد کا باعث بنتی ہوگی۔
میں نے جلدی سے سیفٹی پن نکال کر پھینک دی اور نئی صاف پٹی لگادی ۔ میں نے مناسب سمجھا کہ مریض کو اپنی اس غلطی کے بارے میں بتاﺅں اور اس سے اس تکلیف پر معافی مانگوں جو اسے میری وجہ سے سہنا پڑی ۔اس نے مجھے کھلے دل سے معاف کر دیا۔اسے سیفٹی پن نکلنے اور مجھے اس کے معاف کرنے پرسکون مل گیا۔
اگلے دن سیم گھر چلاگیااور میں کئی دنوں تک خفت محسوس کرتا رہا۔ آج سال ہا سال گزرنے کے بعد بھی مجھے اس غفلت پر خفت محسوس ہوتی ہے۔کئی لوگوں کو یہ بات شاید معمولی لگے لیکن میں اسے نہیں بھولا۔
میڈیسن ایسا شعبہ ہے جس میں غلطیاں کم سے کم ہونی چاہئیں‘ اس لئے کہ ان کا تعلق انسانی زندگی اور صحت کے ساتھ ہے ۔ اگرڈاکٹر سے غلطی ہو جائے تو اکثر صورتوں میں تو مریض کو اس کا علم ہی نہیں ہوپاتا۔ مریض کا یہ حق ہے کہ اسے اس کے بارے میں بتایا جائے ‘ اس پر معذرت کی جائے اور جس حد تک ممکن ہو‘ اس کا ازالہ کیا جائے۔

Vinkmag ad

Read Previous

گلا خراب ہوتو آپ کیا کرتے ہیں

Read Next

نیندکی روٹھی دیوی

Most Popular