Vinkmag ad

جب موت کا خوف پاگل کرنے لگا

4164ہ ایک عجیب سی گلٹی تھی۔ جب اس پر انگلی سے دباؤ ڈالا جاتا تو وہ سکڑ کو چھوٹی ہوجاتی اور دباؤ ختم کرنے پر اپنے اصل سائز میں واپس آجاتی ۔یہ ایک ایسے پلاسٹک بیگ کی طرح تھی جو کسی مائع چیز سے بھرا ہو۔ رات کو سوتے وقت مریضہ کا ہاتھ اپنی گلٹی پر پڑ جاتا تاہم انہیں اس سے کوئی تکلیف نہ ہوتی۔آہستہ آہستہ یہ پریشانی کا باعث بننے لگی۔گلٹی اور پریشانی بڑھتی رہیں اوراس سے نجات کی ہر کوشش ناکام ہورہی تھی ۔مریضہ بہت مایوس تھیں اور
موت کے خیال سے پاگل ہورہی تھیں۔بالآخر حالات نے پلٹا کھایااور ان کی زندگی میں مشکل کے بعد آسانی آگئی ۔حفیظ درویش کے قلم سے ایک سچی داستان


’’ہم نے اپنی ماں کی خوف بھری چیخ سنی اورپھر اس کے بستر کی طرف بھاگے۔ اس کے ہاتھوں ‘ تکیے اور بیڈ شیٹ پر ہر طرف خون بکھرا ہوا تھا۔‘‘
محمد نعیم‘ شفانیوز کو اپنی 60سالہ بوڑھی ماں خالدہ پروین کا احوال سنا رہے تھے۔ ان کی والدہ اس روز جب جاگیں تو انہوں نے اپنے ہر طرف خون ہی خون دیکھا۔ ان کی گردن کے دائیں طرف موجود گلٹی سے خون بہہ رہاتھا۔ یہ گلٹی گزشتہ 25سال سے تھی اور بتدریج بڑھ رہی تھی۔ اب اس کا حجم چھوٹے بچے کے سر جتنا ہوچکا تھا:
’’اتنا خون دیکھ کر میری توجان ہی نکل گئی اور میں بہت خوفزدہ ہوگئی۔‘‘ فیصل آباد کی رہنے والی اس بوڑھی خاتون نے بتایا۔
انہیں فوری طورپرفیصل آباد کے الائیڈ ہسپتال کے ایمرجنسی ڈپارٹمنٹ میں لے جایا گیااور خون روکنے کے لیے ابتدائی طبی امداد فراہم کی گئی۔ بعدازاں انہیں مشورہ دیا گیا کہ گلٹی کے علاج کے لیے شوکت خانم میموریل کینسر ہسپتال کے ڈاکٹر سے رجوع کریں۔
خالدہ جب 15سال کی تھیں تو ان کی گردن پر ایک پھنسی نمودار ہوئی ۔ ایک دن دائیں کان کے قریب ان کی جلد سوجنے لگی لیکن چونکہ درد نہیں ہوتا تھا اس لیے انہوں نے اس پر کوئی توجہ نہ دی۔ جب پھنسی تھوڑی سی اور بڑھی تو ان کے والد اسے ایک ہسپتال میں ڈاکٹر کے پاس لے گئے جس نے بتایا کہ دانہ تشویش ناک نہیں اور وقت کے ساتھ ساتھ خود ہی ٹھیک ہوجائے گا۔ اس دوران خالدہ کی شادی ہوگئی اور بعد میں دو بچے بھی ہوگئے۔ اس تمام عرصے میں انہیں کسی قسم کی تکلیف نہیں ہوئی اور وہ اپنے معمولات نارمل انداز میں انجام دیتی رہیں۔ جب انہوں نے تیسرے بچے کو جنم دیا تو سوجن تیزی سے بڑھنے لگی یہاں تک کہ وہ خاصی نمایاں ہوگئی۔
خالدہ کے مطابق ’’یہ ایک گلٹی کی طرح تھی اور بعض اوقات نبض کی طرح دھڑکتی تھی۔‘‘ ان کے بیٹے کا کہنا تھا کہ یہ ایک عجیب گلٹی تھی۔ جب اس پر انگلی سے دباؤ ڈالا جاتا تو وہ سکڑ کر چھوٹی ہوجاتی اور دباؤ ختم ہونے پر واپس اپنی جگہ پر آجاتی:’’یہ ایک پلاسٹک بیگ کی طرح تھی جو کسی مائع چیز سے بھرا ہوا ہو۔‘‘
خالدہ پروین نے بتایا کہ رات کو سوتے وقت اکثر ان کا ہاتھ اپنی گلٹی پر پڑ جاتا لیکن انہیں اس سے کوئی تکلیف نہ ہوتی۔ اب تک سب کچھ ٹھیک ٹھاک تھا سوائے اس کے کہ کبھی کبھی ان کے ناک سے خون جاری ہوجاتا۔
بڑھتی ہوئی گلٹی کے خوف سے خالدہ نے ڈاکٹر کے پاس جانے کی بجائے پیروں فقیروں اور حکیموں کا انتخاب کیا لیکن گلٹی بڑھتی رہی اور ایسا لگتا تھا کہ ہر کوشش ناکام ہورہی ہے۔ خالدہ بہت مایوس تھیں اور موت کے خیال سے پاگل ہورہی تھیں۔
شوکت خانم میموریل ہسپتال کے ڈاکٹروں نے خالدہ کو مشورہ دیا کہ وہ اسلام آباد میں شفا انٹرنیشنل ہسپتال جائے‘ اس لئے کہ وہ انہیں قریب پڑتا ہے اور علاج کے لیے بھی بہترین ہے۔
ان کا بیٹا کوئی لمحہ ضائع کیے بغیر ماں کو شفا انٹرنیشنل ہسپتال کی ایمرجنسی میں لے آیا۔ یہ اپریل 2012ء کی بات ہے۔ ایک مرتبہ پھر ان کے خون بہنے کا تدارک کیا گیا۔ سرجن یہ سن کر حیران ہو ا کہ وہ اس گلٹی کے ساتھ 20 سال گزار چکی ہے اور کسی ڈاکٹر نے گلٹی ختم کرنے پر توجہ نہیں دی۔ اس کی فوری طور پر طبی تشخیص شروع کردی گئی ۔سرجن ڈاکٹر طاہر حسین کے مطابق یہ گلٹی درحقیقت خون کی شریانوں کا ایک بڑاگچھا تھی۔ اسی وجہ سے اس میں نبض کے دھڑکنے جیسا احساس ہوتا تھا۔اسے طبی زبان میں ’’arteriovenous malfunction ‘‘کہتے ہیں جس میں خون کی شریانیں جسم کے کسی ایک حصے میں مجتمع ہوجاتی ہیں۔ اس کا آپریشن مشکل ہوتا ہے۔ اس میں ایسی پیچیدگیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو بہت سے خطرات کا باعث ہوسکتی ہیں۔ ڈاکٹرطاہر کے بقول: ’’پہلے دیکھنے والے ڈاکٹراس لیے آپریشن کرنے پر تیار نہیں ہوئے کہ انہیں خدشہ تھا کہ شریانوں سے نکلنے والے خون کو روکا نہیں جاسکے گا۔ ‘‘
شریانوں کا یہ گچھاسوجن کی وجہ تھی جس کے سبب خالدہ کی اوپری جلد دن بدن پتلی ہوتی جارہی تھی اور پھرا یک وقت ایسا آیا کہ جلدپھٹ گئی اور شریانوں میں سے خون نکلنے لگا۔ڈاکٹر طاہر نے بتایاکہ اگر وہ اس گلٹی کو آپریٹ نہ کرتے تو خالدہ کی موت واقع ہوسکتی تھی۔ یہ زندگی اور موت کا مسئلہ تھا۔ آپریشن کے لیے خالدہ کے بیٹے کی اجازت اور رضامندی ضروری تھی۔ نعیم نے شفانیوز کوبتایا :
’’ہمارے پاس اور کوئی حل نہیں تھا ۔لیکن ہم پرامید تھے اس لیے کہ ہمیں ڈاکٹروں پر اعتماد تھا۔‘‘
شفا انٹرنیشنل ہسپتال کے ڈاکٹر اس سے پہلے بھی ایسے آپریشن کرتے رہے تھے لیکن یہ آپریشن گلٹی کے بڑے سائز اور پیچیدگیوں کے باعث منفرد نوعیت کا تھا۔ خون بہنے اورہارٹ اٹیک کے خدشات موجود تھے۔ڈاکٹر طاہر کے مطابق ’’ یہ ہمارے لیے ایک بڑا چیلنج تھا ۔ اس میں کامیابی اور ناکامی کے امکانات برابر تھے۔ ‘‘
آپریشن دو مرحلوں میں کیا گیا ۔ پہلا مرحلہ سات گھنٹے اور دوسرا پانچ گھنٹے طویل تھا۔ خالدہ کو سرجری کے دوران خون لگانا پڑا کیونکہ دوران آپریشن بہت سارا خون ضائع ہوگیا۔
خوش قسمتی سے ڈاکٹر آپریشن میں کامیاب رہے۔ خالدہ کی صحت اب مستحکم تھی لیکن ایک مسئلے نے سراٹھالیا تھا۔ دوران آپریشن چہرے کی ایک عصب (nerve)کو نقصان پہنچا۔’’اس قسم کے پرخطر آپریشن میں ایسے مسائل واقع ہوتے رہتے ہیں۔ یہ عصب بعد میں بتدریج ٹھیک ہوگئی ۔ ‘‘ ڈاکٹر طاہر نے بتایا۔
نعیم نے بتایاکہ ان کی والدہ 25دن ہسپتال میں رہیں اوروہاں سے ڈسچارج ہوتے وقت اچھی صحت کی حامل تھی۔ ان کی صحت بہت تیزی سے بحال ہوئی اوروہ چار ماہ کے اندر گھریلو کام کاج کے قابل ہوگئیں۔
’’اللہ کے فضل سے میں ٹھیک اور صحت مند ہوں۔ مجھے اپنے چہرے پر موجود ایک بوجھ سے نجات مل گئی ہے۔ اب میں رات کو سکون سے سوتی ہوں۔ ‘‘ خالدہ پروین نے بتایا۔
اس میں سبق یہ ہے کہ جسم میں کوئی بھی غیر معمولی تبدیلی بلاوجہ نہیں ہوتی۔ اگر وہ لمبے عرصے تک برقرار رہے تو اسے نظرانداز نہیں کرنا چاہئے بلکہ علاج کی فکر کرنی چاہئے۔ اور اگر کوئی سنگین مرض لاحق ہو جائے تو صبر‘ حوصلے اور ثابت قدمی سے اس کا مقابلہ کرنا چاہئے۔

Vinkmag ad

Read Previous

ٹھنڈ سے بچنے کے لیے آپ کیا کرتے ہیں ؟

Read Next

نئے سال کے عزائم میں صحت کہاں

Leave a Reply

Most Popular