بیماری اور صحت کے درمیان کشمکش

37سالہ خاتون نے جو چند برس قبل تک اپنے اسکول میں آئی ٹی کے شعبہ کی سربراہ تھیں‘ قدرے بے بسی کے ساتھ اپنی ذہنی کیفیت کا اظہار کرتے ہوئے کہا:
’’میں نے اپنی زندگی میں 20,000 بچوں کو پڑھایا ہے۔ یوں بچوں کے ساتھ میراتعلق بہت گہرا ہے لیکن اب خود ماں بننے سے ڈرتی ہوں، ا س لئے کہ اپنی معذوری سے واقف ہوں۔ مجھے اس بات سے ڈر لگتا ہے کہ میں کسی بچے کو جنم دوں اور پھر اسے دنیا میں تنہا چھوڑ جائوں۔چنانچہ شادی ،بچوں اور ان سے جڑے خوابوں کی اب میرے لئے کوئی اہمیت نہیں ہے۔‘‘
وہ کہتی ہیں کہ مجھے ہنسنا پسند ہے اور میںہمیشہ دل کھول کر ہنسا کرتی تھی۔ کلاس میں داخل ہوتی تو سب سے پہلے مسکراتی تھی‘ اس لئے کہ میری نظر میں یہ بات چیت کے آغاز کا بہترین طریقہ ہے۔ آج بھی مسکرائوں تو سب ٹھیک لگتا ہے ۔’’ تو اب آخر ایسا کیاہوگیا؟‘‘ اس سوال کے جواب میں وہ کہتی ہیں:
’’ میرا جسم پتھر کی طرح ہوتا جارہا ہے اور درد کی شدت کی وجہ سے میرے لئے کام کرنا ممکن نہیں رہا۔ بازو میں درد مجھے ہر وقت یہ یاددلاتا رہتاہے کہ میرے ساتھ کچھ عجیب ہورہا ہے۔‘‘
ان کی کیفیت کو سمجھنا واقعی مشکل ہے۔ بظاہر وہ صحت مند اور ٹھیک ٹھاک نظرا ٓتی ہیں اور دیکھنے والے کو بالکل اندازہ نہیں ہوتا کہ وہ کسی بیماری کی شکار ہیں۔ یہ بیماری واقعی عجیب ہے جو بقول ان کے ‘باہر سے نہیں دیکھی جاسکتی بلکہ اندر ہی اندرمحسوس کی جا سکتی ہے ۔ اس صورت حال میں کسی عام شخص کو اپنی حالت کے بارے میں یقین دلانا بھی آسان نہیں ہوتا۔ ان کے کہنے پران کی سہیلیوں نے جب خاتون کے جسم پر ہاتھ پھیرا تو انہیں ایسامحسوس ہوا جیسے وہ دھات کی طرح سخت ہو‘ لیکن ظاہر ہے کہ ان کی یہ کیفیت لباس تلے چھپی رہتی ہے۔ جسم سخت ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ حرکت کرنا چاہیں تو ان کے جوڑٹھیک طرح سے کام نہیں کرسکتے۔ خود پر جبرکرکے جب وہ جوڑوں کوحرکت دیں ‘مثلاً کوئی چیز پکڑنے کی کوشش کریں تو ان کے بقول’’ایسے لگتا ہے جیسا میرا جسم ٹکڑے ٹکڑے ہورہا ہے۔‘‘
خاتون کے بقول بہت سے ڈاکٹروں سے مشاورت اور لاتعداد ٹیسٹ ہونے کے باوجود بیماری کی حتمی تشخیص میں تین سال لگے۔ ان عرصے میں وہ ہرممکن حدتک معمول کی زندگی گزارنے کی کوشش کرتی رہیں لیکن جوڑوں کے درد، مسلسل تھکاوٹ ، ہاتھوں کے منجمد ہوجانے اور جسم میں مسلسل سوئیاں چبھنے کی کیفیت کے ساتھ یہ آسان نہ تھا۔ ہرگزرتے دن کے ساتھ ان کے لیے زندگی مشکل تر ہوتی گئی۔
اس بیماری کی علامات میں جلد کی غیرمعمولی رنگت اور اس پر خراشوں کا نمودار ہونا، چہرے اور چھاتی پر چھوٹے چھوٹے سرخ دھبوں کا نمودار ہونا ، ہاتھوں اور پائوں کی انگلیوں کاسوج جانا اورپٹھوں کی کمزوری شامل ہیں۔خاتون کو یاد ہے کہ جب ان کی تبدیل ہوتی رنگت اور خراشوں کی جانب ان کی ایک دوست نے توجہ دلائی توانہوں نے اس کا علاج شروع کیا ورنہ اس سے پہلے انہوں نے اسے زیادہ سنجیدگی سے نہ لیاتھا۔انہیں کیا معلوم تھا کہ یہ ایک خطرناک بیماری ثابت ہوگی۔ جلد اور جوڑسخت ہونے کے بعد اب یہ بیماری ان کے پھیپھڑوں پر بھی اثرانداز ہورہی ہے  جس کی وجہ سے انہیں سانس لینے میںبھی دقت ہوتی ہے ۔ یہ بیماری کی ابتدائی نہیں‘ انتہائی درجے کی علامت ہے۔
ایک ترقی یافتہ اور خوشحال معاشرے میں رہنے کے باوجود‘جہاں صحت کی بہترین سہولتیں دستیاب ہوسکتی ہیں‘ ان کی مشکل یہ ہے کہ سخت جلد کی یہ بیماری  (Sclerodemra) ابھی تک ناقابل علاج ہے اور اسے بس،’’manage ‘‘ہی کیاجاسکتا ہے۔
تو کیا یہ کوئی نئی بیماری ہے؟ ’’سکلیروڈرما‘‘کی اصطلاح اگرچہ پہلی بار19ویں صدی میں استعمال کی گئی تاہم اس کی بعض علامات کا ذکر چوتھی صدی قبل از مسیح کی بعض تحریروں میں بھی ملتا ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ کوئی نئی بیماری نہیں ہے۔ میڈیکل سائنس میں ہونے والی تحقیقات اور اس بنیادپر تیزرفتار ترقی نے صحت کے معیارکواگرچہ دنیا بھرمیں بہتر بنایاہے لیکن  اس کے باوجود کتنی ہی بیماریاں ہیں جن کاعلاج ابھی تک انسان دریافت نہیں کرسکاہے۔ مذکورہ بیماری بھی ایسی ہی ایک بیماری ہے۔
مرض اورصحت کے درمیان کبھی ختم نہ ہونے والی کشمکش انسانوں کے لیے مزید غوروفکر ،جستجو اور تحقیق کاسامان ضرور فراہم کرتی ہے جس کے مثبت نتائج سامنے آتے رہے ہیں اور آتے رہیں گے ۔اس لئے امید کا دامن کبھی نہ چھوڑنا چاہئے۔

Vinkmag ad

Read Previous

ملاوٹ کیسے چیک کریں؟ اصلی دودھ کی پہچان

Read Next

سگھڑ خواتینِ خانہ کا باورچی خانہ

Most Popular