Vinkmag ad

انسولین کی دریافت

    ذیابیطس اُن 10بڑی بیماریوں میں سے ایک ہے جو انسانوں کے لئے سب سے زیادہ جان لیوا ثابت ہوتی ہیں۔مزیدبراں یہ نابیناپن‘ گردوں کے ناکارہ ہونے ‘ دل کا دورہ پڑنے اور فالج کا ایک بڑا سبب بھی ہے ۔لوگوں کی بڑی تعداد اسے دورجدید کی بیماری سمجھتی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ذیابیطس ایک قدیم مرض ہے جس کا تذکرہ 1550قبل مسیح کے مصری مسودوں میں بھی ملتا ہے۔ 600سال قبل مسیح کے ہندوستان سے تعلق رکھنے والے مشہورطبیب سشروتا (Sushruta)نے بھی اس بیماری کا ذکر کیاہے اور تاریخی حقائق سے پتہ چلتا ہے کہ کوریا‘چین او رجاپان کے طبیبوں کو بھی اس بیماری کا علم تھا۔ اگرچہ بقراط (460ق م تا370 ق م ) کو بابائے طب سمجھا جاتا ہے لیکن حیرت انگیز طور پر اس کے ہاں اس بیماری کا کوئی ذکر نہیں ملتا۔ ماہرین کے خیال میں اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ بقراط اسے لاعلاج مرض سمجھتا تھا لہٰذا اس نے اس کا ذکر کرنا ضروری نہیں سمجھا۔ حکیم جالینوس(Gelen) نے اس بیماری کا ذکر تو کیا ہے لیکن اُس کے مطابق اس نے پوری زندگی میںاس کے صرف دومریض دیکھے تھے۔
شوگر کی علامات پر پہلی مرتبہ تفصیل سے روشنی پہلی صدی عیسوی میں ایک یونانی حکیم نے ڈالی۔ اس کے مطابق اس بیماری کے شکار فرد کو پیشاب زیادہ آتاہے۔مشہور مسلم طبیب بوعلی سینا(900ءتا1037ء) کے مطابق اس کے مریضوں کو بھوک زیادہ لگتی ہے‘ اُن کی جنسی صلاحیت پر منفی اثر پڑتا ہے اور ایسے مریضوں کواکثر خورہ(Gangrene) کا مرض بھی ہو جاتاہے جس میں جسم کے کسی حصے کا کوئی ٹشو مفلوج ہو جاتا ہے۔1889ءمیں جوزف وان میرنگ (Joseph von Mering) اور آسکرمنکووسکی (Oskar Minkowski) نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ اگر کتے کا لبلبہ نکال دیاجائے تواسے ذیابیطس ہوجاتا ہے۔دوسرے لفظوں میں پہلی دفعہ یہ بات ثابت ہوگئی کہ اس مرض کا لبلبے کے ساتھ گہرا تعلق ہے۔ اُس زمانے میں علم کیمیاءنے کچھ زیادہ ترقی نہ کی تھی لیکن اس کے باوجود اطباءاس نتیجے پر پہنچ چکے تھے کہ اس مرض کے شکار افراد کے پیشاب میں چینی پائی جاتی ہے‘ اس لئے کہ مکھیاں اور چیونٹیاں اس پر زیادہ آتی ہیں۔کچھ اطباءنے اس مشاہدے کو ناکافی سمجھتے ہوئے اسے چکھ کر تصدیق کی کہ وہ چینی کی طرح میٹھا ہے۔ قدیم ہندی اطباءنے اسے ”مادھو میہا“ یعنی شہدوالے پیشاب کانام دیا۔
1869ءمیں میڈیسن کے ایک جرمن طالب علم پال لینگرہینز(Paul Langerhans)کو لبلبے کے خوردبینی معائنے کے دوران عام خلیوں سے کچھ مختلف خلئے نظر آئے جو لبلبے میں جزیروں(Islets of Langerhans) کی شکل میں پھیلے ہوئے تھے۔1901ءمیں یوجین اوپائی (Eugene Lindsay Opie) نے دریافت کیا کہ یہ خلئے ایک خاص کیمیائی مواد پیدا کرتے ہیں جس کا اس مرض کے ساتھ گہرا تعلق ہے۔ اگر یہ کسی وجہ سے ضائع ہوجائیں تو یہ بیماری ہو جاتی ہے۔ یہاں پر ایک اور اہم محقق ڈاکٹر نکولائی پاﺅلیسکو(Nicolae Paulescu)کا تذکرہ بھی ضروری ہے جو رومانیہ کی ایک میڈیکل یونیورسٹی میں پروفیسرکے طور پر خدمات انجام دے رہاتھا۔ اس نے یہ معلوم کیا کہ اگر لبلبے کا عرق نکال کر شوگر کے مریض جانوروں کو دیاجائے تو ان کی شوگر نارمل ہونے لگتی ہے۔یہ 1916ءکی بات ہے اور یہ وہ زمانہ تھا جب یورپ پر پہلی جنگ عظیم کے بادل چھائے ہوئے تھے جس کی وجہ سے وہ اپنی تحقیقی رپورٹ شائع نہ کرسکا۔
1921ءمیں کینیڈا کے ایک محقق ڈاکٹر فریڈرک گرانٹ بینٹگ(Frederick Grant Banting) اور اس کے شاگرد چارلس بیسٹ (Charles Best)بھی اس موضوع پر تحقیق کر رہے تھے۔ ایک اور سائنسدان پروفیسر جان میکلیوڈ (John Macleod) نے انہیں تجربات کے لئے اپنی لیبارٹری استعمال کرنے کی اجازت دے رکھی تھی۔ اول الذکر سائنسدانوں نے کتوں پر تجربات کے ذریعے نہ صرف ”ڈاکٹرجوزف میرنگ“ اور” آسکرمنکووسکی“ کے مشاہدات کی تصدیق کر دی بلکہ یہ بھی معلوم کرلیا کہ اگر اُن جانوروں کو لبلبے کا قیمہ بنا کرکھلایا جائے یا اس کا عرق پلایاجائے تو ان کی شوگر نارمل ہوجاتی ہے۔ انہوںنے کتوں کے علاوہ گائے کے لبلبے بھی اپنے تجربات میں استعمال کئے۔ لبلبوں سے حاصل کردہ عرق سے الرجی ہوجاتی تھی لہٰذااُن کی ٹیم میں ایک اور سائنسدان جے بی کولپ (James Bertram Collip) کو شامل کیا گیا جس کا کام انسولین کے حامل عرق کو خالص بنانا تھا۔
انسولین کی دریافت کے کچھ ہی عرصے بعد 1922ءمیں شوگر کے ایک14سالہ مریض لیونارڈ تھامپسن (Leonard Thompson)کو ٹورانٹو جنرل ہسپتال میں نیم مردہ حالت میںلایاگیا۔ مرض اس مرحلے پر تھا کہ بظاہر اس کی موت یقینی تھی جبکہ دوسری طرف انسولین ابھی تجرباتی مرحلے سے گزررہی تھی۔ ڈاکٹروں نے والدین کی اجازت سے بچے کو انسولین کے ٹیکے لگادئیے جس سے نہ صرف اس کی جان بچ گئی بلکہ وہ مزید 13برس تک زندہ رہاحالانکہ ایسے مریض بالعموم چند ہی ماہ میں فوت ہوجایا کرتے تھے ۔ابتدا میں انسولین کے ٹیکے دن میں کئی بار لگانا پڑتے تھے‘ اس لئے کہ اس کا اثر تھوڑی دیر کے لئے رہتا تھا۔1936ءمیں انسولین کی ایک نئی قسم پروٹامائین (Protamine) دریافت ہوئی جو کئی گھنٹے زیادہ دیر تک اثرکرتی تھی۔ 1963ءمیں پہلی بار انسولین کو لیبارٹری میں تیارکیاگیا جو بہت بڑی کامیابی تھی۔ اس سے الرجی کے امکانات مزید کم ہوگئے‘ اس لئے کہ یہ خالص دواتھی۔چند سال بعد جب بائیو ٹیکنالوجی دریافت ہوئی توانسولین کی بیکٹیریا کے ذریعے لیبارٹری میں تیاری شروع کر دی گئی ۔اس دوا کو انسانی انسولین(human insulin) کہاجانے لگاجس کا مطلب یہ تھا کہ یہ دواجانوروں کے لبلبوں سے تیا ر نہیںہوئی۔
انسولین ایک اہم دریافت تھی جس پر 1923ءمیں بیٹنگ اور میکلیوڈ کو نوبل انعام دیاگیا۔انہوں نے انعامی رقم میں اپنی ٹیم کے دیگر افراد کوبھی حصہ دیا۔ دیکھا جائے تو اس سلسلے میں اولین کامیابی ڈاکٹر نکولائی پاﺅلیسکوکو حاصل ہوئی تھی لہٰذا نوبل انعام کا اصل حق دار وہی تھا لیکن جنگ عظیم نے اُنہیں اس اعزاز سے محروم کردیا۔انسولین کی مدد سے اب تک بلامبالغہ لاکھوں نہیں‘ کروڑوں انسانوں کی جانیں بچانا ممکن ہوا ہے۔ اب اگر ذیابیطس کے علاج میںکوئی پیش رفت ہوئی تو اس کاتعلق پیوند کاری سے ہوگا۔اس سلسلے میں سٹیم سیلزاور لبلبے کی پیوندکاری پر تحقیق جاری ہے۔ ہمیں امید رکھنی چاہئے کہ اس کے مثبت نتائج جلد ظاہر ہوجائیں گے۔

Vinkmag ad

Read Previous

چکنی جلد‘چند مفید گھریلو نسخے

Read Next

رمضان کی برکتیں

Most Popular