Vinkmag ad

آپ کے سوالات ماہرین کے جوابات

میرا بچہ کھویا کھویا سا رہتا ہے ۔میری ایک دوست کہہ رہی تھی کہ اسے آٹزم ہے۔ یہ بتائیے کہ اس کی ابتدائی علامات کیا ہیں ؟
طاہرہ اطہر،مری
٭٭آٹزم (Autism)کی تعریف ایسی کیفیت کے طور پر کی جاتی ہے جس میں متاثرہ شخص اپنی ذات میں گم رہتا ہے‘ حقیقی دنیا سے کٹ جاتا ہے اور خیالات کی دنیا میں کھویا رہتا ہے۔ اس کے شکار بچوں کو چیزوں کو سمجھنے اورانہیں بیان کرنے میں دشواری محسوس ہوتی ہے۔ آٹزم کے حامل بچوں کی زندگی کے ابتدائی مہینوں یعنی دو سال تک اس کی تشخیص واضح طور پر نہیں ہو سکتی اور تقریباًچھے سال کی عمر تک اس کی علامات ظاہر ہونے لگتی ہیں۔ اگر بچہ مندرجہ ذیل پانچ کام نہ کر پائے تو آٹزم کی تشخیص کیلئے کچھ کرنے کی ضرورت ہوتی ہے:
٭اگر بچہ 12ماہ کی عمر تک مختلف آوازیں نہ نکالے۔
٭12ماہ کی عمر تک اشارہ کرنا،ہاتھ ہلانااور پکڑنا شروع نہ کرے۔
٭16ماہ کی عمر تک ایک لفظ بھی ادا نہ کرے۔
٭24ماہ کی عمر تک دو لفظ ملا کر ادا نہ کرے۔
٭عمر کے ابتدائی حصے میںزبان دانی یا سماجی تعلقات میں کمی۔
(ڈاکٹرعلی ہاشمی‘کنگ ایڈورڈ کالج‘لاہور)
٭ بریسزکون سے دانتوں پر اور کتنی اقسام کے استعمال کئے جاتے ہیں؟    عاصفہ جبیں‘گوجرہ
٭٭بریسز اوپری جبڑے کے آگے والے 12 اور تمام نچلے دانتوں پر لگائے جاتے ہیں۔ روایتی بریسز تقریباً تمام دانتوں کو گرفت میں لے لیتے ہےں‘ تاہم کچھ مریض ایسے بھی آتے ہیں جو دانتوں کی مخصوص ضرورت کے مطابق علاج کرانا چاہتے ہیں۔مثال کے طور پر اوپر والے دو دانتوں کے درمیان فاصلہ زیادہ ہونے کی صورت میں پچھلے دانتوں پر بریسز لگانے کی ضرورت نہیں رہتی۔ ایسے میں یہ محض اوپر والے چھ دانتوں پر لگائے جاتے ہیں۔
بریسز چار قسم کے ہوتے ہیں۔سب سے پہلے دھاتی بریسز ہیں جن کا بریکٹ باہر کی طرف لگا ہوتا ہے۔ سیرامک بریسزروایتی میٹل بریسز کی مانند ہی ہوتے ہیںتاہم ان کا بریکٹ شفاف ”سیرامک “میٹل سے بنا ہوتا ہے جس کے باعث ےہ دانتوں پر لگے ہوئے زیادہ واضح نہیں ہوتے۔ ان کا کام اور کارکردگی میٹل بریسز کی مانند ہی ہے لیکن اس کے شفاف اور غیر واضح ہونے کی خصوصیت کے باعث بالغ افراد انہیں لگانا زیادہ پسند کرتے ہیں۔ اس کے بعد چھپے ہوئے بریسزیعنی لنگوئل (lingual) ہیں۔ ےہ وہی میٹل والے بریسز ہیں جو باہر کی طرف لگتے ہیں لیکن ان کی فٹنگ دانتوں کے پیچھے ہوتی ہے۔ اس طرح سامنے سے دیکھنے پر بریسز واضح نہیں ہوتے۔ وہ افراد جو دانت سیدھے کروانا چاہتے ہوں لیکن بریسز لگوانے میں انہیں شرم محسوس ہوتی ہو‘ ان کے لئے ےہ بہترین انتخاب ہے۔ تاہم پاکستان میں ان کی دستیابی بہت محدود سطح پر ہے ۔اگر ایک دانت تھوڑا ٹیڑھا ہو یا دو ایک ساتھ اگنے والے دانتوں میں فاصلہ قدرے زیادہ ہو تو کمپیوٹر پر تیار کردہ سمت درست کرنے والے بریسز (invisalign alignes) کا استعمال کیا جاتا ہے۔
(ڈاکٹر امتیاز احمد‘ماہر دنداں‘شفا انٹرنیشنل ہسپتال‘اسلام آباد)
٭شفانیوز سے ہی پتا چلا کہ آنکھوں کچھ ورزشیں بھی ہوتی ہیں۔ یہ بتایئے کہ کون سی ورزشیں انہیں بہتر بنانے میں مدد دیتی ہیں؟
مدیحہ انور‘لاہور
٭٭آنکھوں کے پٹھوں کو مضبوط بنانے میں کچھ ورزشیں بہت مفید ہیں۔ پہلی ورزش یہ ہے کہ اپنی آنکھوں کے ڈیلوں کو اوپرنیچے‘ دائیں اوربائیں دن میں پانچ سے سات مرتبہ گھمائیں۔ آپ اسے دائیں سے بائیں اور بائیں سے دائیں ایسے بھی گھما سکتے ہیں کہ ’کراس‘ کی شکل بن جائے۔ دوسری ورزش یہ ہے کہ آپ ایک پین یا پنسل لیں اور اسے اپنی آنکھوں کے اتنے قریب لائیں کہ وہ آپ کو دو دکھائی دینے لگیں ۔اب آنکھوں کو بند کریں اور پھر کھول کرمزید قریب کریں۔ اس سے آنکھوںکے پٹھے طاقت ور ہوں گے اور آپ کی قریب کی نظر بہتر ہوگی۔
(ڈاکٹرسعدیہ فاروق‘ماہرِامراض چشم‘شفاانٹرنیشنل ہسپتال‘اسلام آباد)
٭ میرا بیٹا تقریباً ایک ماہ کا ہے۔آج کل وہ کچھ بیمار سا ہے جس کی وجہ سے ڈاکٹر نے اسے اینٹی بائیوٹکس دیے ہیں۔میں نے سنا ہے کہ اتنے چھوٹے بچے کو اینٹی بائیوٹکس دینا ٹھیک نہیں ہے۔ کیا ایسا ہی ہے؟     عدیلہ بی بی‘اسلام آباد
٭٭ جن بچوں کو انفیکشن ہو ‘انہیں بعض اوقات اینٹی بائیو ٹکس دینا پڑتی ہیں۔ یہ پہلے دن سے لے کر عمر کے کسی بھی حصے میںدی جا سکتی ہیں‘تاہم اس کے لیے ضروری ہے کہ پہلے یہ یقین ہو کہ بچے کو انفیکشن ہے بھی یا نہیں۔ اس کے لیے ہم کچھ ٹیسٹ تجویز کرتے ہیں اور اس کے بعد فیصلہ کیا جاتا ہے کہ بچے کے لیے کس قسم کی ادویات ضروری ہیں۔ تاہم اسے غیرضروری طور پر اینٹی بائیوٹکس ہر گز نہیں دینی چاہئیں۔
(ڈاکٹر سکندر حیات‘چلڈرن ہسپتال‘لاہور)
٭گوشت کھانا تو صحت کے لئے مفید ہے ۔ پھر ڈاکٹر اس سے منع کیوں کرتے ہیں؟
اکبر اللہ صادق‘گجرات
٭٭خون کی نالیوں کی بیماریوں کا ایک بہت بڑا سبب مرغن غذائیں‘ زیادہ کھانااورورزش کی کمی ہے۔ لوگوں کا معیار زندگی بہتر ہونے سے گاڑیوں کی تعداد بڑھی ہے جن کی وجہ سے پیدل چلنا کم ہو گیا ہے۔ دوسری طرف خوراک میںنہاریاں‘ پراٹھے اور قورمے پہلے کی طرح شامل ہیں۔ اس کا نتیجہ جسم میں اضافی چکنائی کی صورت میں نکلتا ہے۔ اگر آپ نے اس توانائی کو استعمال کر لیا تو ٹھیک، ورنہ یہ نالیوں میں جمنے لگتی ہے۔آج سے تقریباً35سال قبل جب میں نے کیرئیر شروع کیا تو ہمارے پاس 60سال کی عمر میں لوگ بائی پاس کیلئے آتے تھے۔اس وقت ہم حیران ہوتے تھے کہ اس عمر میں اس کی کیا ضرورت ہے۔ اب تو25سے 30سال کی عمر میں بھی لوگ آنے لگے ہیں۔ ہم طرز زندگی میں منفی تبدیلیوں کا خمیازہ بھگت رہے ہیں۔ گوشت اللہ تعالیٰ کی نعمت ہے اور اسے ضرور استعمال کریں لیکن ساتھ ساتھ سبزیاں اور دالیں وغیرہ بھی کھائیں۔ ایک خوبصورت حدیث ہے کہ اپنے دسترخوان کو سبزیوں سے سجاﺅ۔ جب مہمان آتے ہیں تو ہمارے دسترخوان پر زیادہ تر گوشت‘میٹھا اور باقی سب کچھ ہوتا ہے لیکن سبزی یا پھلوں کا نام و نشان نہیں ہوتا۔نیزہم گوشت بھی اعتدال سے نہیں کھاتے اوراس کا جو حصہ پسند ہو‘اسی پر اصرار کرتے ہیں‘ حالانکہ اس کا ہر حصہ بدل بدل کر کھانا چاہئے۔
(ڈاکٹر عارف الرحمان خان‘ایگزیکٹو ڈائریکٹر‘نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیو ویسکولر ڈیزیز کراچی)
٭بعض لوگوں کو اپنے بارے میں شبہ ہوتا ہے کہ وہ موٹے ہیں حالانکہ یہ ان کا وہم ہوتا ہے جبکہ کچھ لوگ حقیقت میں موٹے ہوتے ہیں لیکن وہ اس سے آگاہ نہیں ہوتے ۔ آسان لفظوں میں بتائیے کہ موٹاپا ہے کیا؟                طارق‘پشاور
٭٭موٹاپا اےک اےسی اصطلاح ہے جسے ہمارے ہاں ہراس شخص کےلئے بے درےغ استعمال کر لےا جاتا ہے جو دےکھنے مےں ذرابھاری بھرکم لگے۔ ےہ کوئی درست پیمانہ نہےں‘ اس لئے کہ ہر شخص کےلئے موزوں وزن اس کے قد کے لحاظ سے مختلف ہوتا ہے۔ تکنےکی زبان مےں ماہرےن اسے ”باڈی ماس انڈےکس“ ےا بی اےم آئی کہتے ہےں جسے معلوم کرنے کےلئے فرد کے وزن کو اس کے قدسے تقسےم کےا جاتا ہے۔ ےہ فارمولا ابتداً انشورنس کمپنےوں نے تےار کےا تھا جس کا مقصد ےہ تھا کہ انشورنس کرانے والے فرد کی صحت کولاحق ممکنہ خطرات کی بنےاد پر اس کا پرےمےم طے کےا جا سکے۔ دوسرے لفظوں مےں وہ اس بات سے آگاہ تھے کہ قد کے حوالے سے وزن کا مناسب حد مےں رہنا ضروری ہے اور اگر وہ اس سے تجاوز کر جائے تو انسانی صحت کےلئے نقصان ےا خطرے کا باعث بن سکتا ہے۔ بی ایم آئی کی بنیاد پرہی فیصلہ کیا جا سکتا ہے کہ کوئی فرد کتنا موٹا ہے اور کتنا خطرے کی زد میں ہے۔
(ڈاکٹر عارف ملک‘شفا انٹرنیشنل ہسپتال‘اسلام آباد)
٭دمہ سے بچاو¿ کے لئے کیا اقدامات کیے جا سکتے ہیں؟         عاصم‘فیصل آباد
٭٭سب سے پہلی بات تو ےہ ہے کہ جس شے سے الرجی ہو‘ اس سے دور رہا جائے۔ مثال کے طور پر اگر پولن الرجی کی وجہ سے دمہ ہو تو اس موسم میں کھڑکیاں وغیرہ بند رکھی جائیں۔ اگر دھول مٹی کی الرجی ہو تو قالین اور درو دیوار کو صاف رکھا جائے اور گھر سے باہر جاتے ہوئے منہ اور ناک پر رومال رکھا جائے یا ماسک لگایا جائے۔ کچھ بچوں کو سگریٹ کے دھوئیں کی وجہ سے کھانسی اور سانس لینے میں مسئلہ ہو تا ہے لہٰذا انہیں اس سے بچایا جائے۔ اگر اس طرح کی کچھ اور احتیاطیں اختیار کر لی جائےں تو بہت سے مسائل سے بچا جا سکتا ہے۔
(ڈاکٹر طلحہ محمود‘ایسوسی ایٹ پروفیسر پلمونولوجی“شیخ زید ہسپتال لاہور)

Vinkmag ad

Read Previous

پیشاب کی نالی میں انفیکشن

Read Next

فیشئل کہاں سے کرائیں

Most Popular