آٹزم کے شکار بچے…پرورش کیسے کریں

    بچپن زندگی کا خوبصورت ترین مرحلہ ہے جس میں بچہ نئی چیزوںکو جاننے اور سمجھنے میں شرم یا جھجک کا مظاہرہ نہیںکرتا‘ گھر میں آئے مہمانوںکا دل اپنی معصوم شرارتوں سے موہ لیتا ہے اور لوگوں سے میل جول بڑھانے میں بالعموم پہل کرتا ہے۔اس کے برعکس کچھ بچے اپنی ہی دنیا میں مگن رہتے ہیں اور اسی میں انہیں تسکین حاصل ہوتی ہے۔اس رویے کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں جن میں سے ایک آٹزم یا اے ایس ڈی (Autism Spectrum Disorder)نامی مرض بھی ہے۔
آٹزم ان بیماریوں میں سے ایک ہے جن کا تعلق دماغ کی نشوونما سے ہے۔ اس بیماری کی صورت میں دماغ میں کچھ ایسی تبدیلیاں آتی ہیں جن کا اثراس کے ان حصوںپر پڑتا ہے جو سماجی تعلقات اور رابطے سے وابستہ ہوتے ہیں۔ یہ ایک موروثی بیماری ہے جو اگلی نسل میں منتقل ہوسکتی ہے اور آٹھ ماہ سے تین سال کی عمر میں ظاہر ہوتی ہے۔
آٹزم کی علامات
آٹزم کے شکار بچوں میں دوسروں سے نظریں نہ ملا پانے، رابطے کی صلاحیت کے فقدان، ایک ہی بات یا کام کوبار بارکرنے اور حرکات و سکنات میں ہم آہنگی نہ ہونے جیسی علامات عام دیکھنے میں آتی ہیں ۔ ا±ن میں سننے کی حس بہت زیادہ یا نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے۔
اس کی دیگر علامات درج ذیل ہیں:
٭اردگرد کے ماحول اور چیزوں میں دلچسپی نہ لینا۔
٭چھ ماہ کی عمر یا اس کے بعدبھی مسکرانے میں ناکام رہنا۔
٭آوازوںاور چہرے کے تاثرات پر ردعمل کا اظہار نو ماہ تک نہ کرنا۔
٭ایک سال کی عمر تک بھی سنے ہوئے الفاظ یا آوازوںکو نہ دہرانا۔
٭ ایک سال کی عمر میں اشارہ کرنا، ہاتھ ہلانااور چیزوںکو پکڑنا شروع نہ کرنا۔
٭16ماہ کی عمر تک کوئی ایک لفظ بھی ادا نہ کرپانا۔
٭24ماہ کی عمر تک دو لفظ ملا کر ادا نہ کرپانا۔
٭عموماً دو سال کی عمر میں بچے جملے ادا کرنا یا سنی ہوئی بات دہرانا سیکھ لیتے ہیں۔ اگر کوئی بچہ ایسا نہیں کر رہا تو یہ خطرے کی علامت ہے۔
٭عمر کے ابتدائی حصے میںزباندانی کی صلاحیت کاکم ہونا۔
٭اپنی چیزیں مثلاً کھلونے،پنسل یاکھانے کی اشیاءدوسروں سے شیئرنہ کرنا۔
اگربچے میں مندرجہ بالاعلامات موجود ہوں تو جلد ازجلد امراض بچگان کے ڈاکٹر سے رجوع کریں تاکہ معلوم ہو سکے کہ وہ کہیںآٹزم کا شکار تو نہیں۔
بچے کی دیکھ بھال
جب والدین کو پہلی دفعہ علم ہوتا ہے کہ ان کا بچہ آٹزم کا شکارہے تو دیکھا گیا ہے کہ ان میں سے اکثر ہمت ہار جاتے ہیں‘حالانکہ یہی وقت ہوتا ہے جب ہمت اورصبر سے کام لے کر وہ اپنے بچے کو باقی بچوںکی طرح اور نارمل کے قریب ترزندگی گزارنے کے قابل بنا سکتے ہیں۔ اس سلسلے میں مندرجہ ذیل امور قابل توجہ ہیں :
٭ والدین اپنے بچے کو ڈاکٹر سمیت کسی بھی فرد سے زیادہ جانتے ہیں۔ اس لیے ان کے عملی تعاون کے بغیر بچے کی حالت میں بہتری لانا ناممکن ہے۔ اس لئے گھبرانے اور دل چھوٹا کرنے کی بجائے اپنے آپ کو مطلوبہ کردار ادا کرنے کے لئے تیارکریں۔
٭اگربچے کے رویے یا حرکات میں کوئی غیرمعمولی تبدیلی محسوس کریں تو فوراً معالج سے رابطہ کریں تاکہ بروقت تشخیص اور علاج کو ممکن بنایا جا سکے۔
٭والدین کو چاہئے کہ آٹزم کے بارے میں سپیچ تھیراپسٹ اور معالج سے زیادہ سے زیادہ سوالات کریں تاکہ بچے کی دیکھ بھال کے سلسلے میں کوئی پہلو تشنہ نہ رہ جائے۔
٭آٹزم کے شکار بچوں میں مثبت تبدیلی لانے کے لیے ضروری ہے کہ ان کا دیگر بچوں سے موازنہ کرنے سے گریز کریں۔ ان کی چھوٹی سے چھوٹی کوشش اور کامیابی پر دل کھول کر داد دیں اور ان کی ہمت بڑھائیں۔
٭بچے کے ساتھ محبت اور گرم جوشی کا رویہ رکھیںاور اسے زیادہ سے زیادہ خوش رکھنے کی کوشش کریں۔ بچے ہر اچھے کام پر تعریف چاہتے ہیں‘ لہٰذا ان بچوں کے لئے خاص طور پر ضروری ہے کہ اچھے کاموں پران کی حوصلہ افزائی کی جائے۔ بچے کی صرف تعریف ہی نہ کریں بلکہ اسے کوئی انعام بھی دیں۔
٭سماجی، مذہبی اور خاندانی تقریبات میں بچے کو اپنے ساتھ لے کر جائیںاوراسے خاندان، دوستوں اور ملنے جلنے والوں سے متعارف کرائیں۔اس سے اس کا اعتماد بڑھے گا۔
٭جب وہ سکول جانے کی عمر کو پہنچے تو انہیں خصوصی سکول یاایسے عام سکول میں داخل کرائیں جہاں ایسے بچوں کی خصوصی ضرورت کا خیال رکھا جاتا ہو۔
٭والدین کو چاہیے کہ سکول انتظامیہ کے ساتھ رابطے میں رہیں تاکہ بچے کے ہر مثبت اور منفی پہلو سے آگاہ ہو سکےں۔
٭سپیچ تھیراپسٹ جو کچھ بچے کو سکھائیں‘والدین کو چاہئے کہ اسے گھر پر بھی بار بار کروائیں تاکہ اسے ان کی عادت ہوجائے۔
٭ان بچوں کی بہتر نشوونما کے لئے ضروری ہے کہ انہیں ایک شیڈول کے تحت لے کرچلیں ۔ان کے کھانے، کھیلنے، سونے اور تھیراپی کے لئے وقت مقرر ہو اور اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ بچے اس کے مطابق ہی چلیں۔ اگر والدین شیڈول میں کوئی تبدیلی لانا چاہتے ہوں تو بچے کو اس کے لئے پہلے سے تیار کریں اوراسے اس کے فوائد سے آگاہ کریں تاکہ وہ خوشدلی سے آنے والی تبدیلی کو قبول کرسکے۔
٭والدین کو چاہئے کہ وہ بچے کے اشاروں مثلاً آوازوں،چہرے کے تاثرات وغیرہ کو بخوبی سمجھیںاور اس کی ضروریات کو بروقت اور اچھی طرح سے پوری کریں تاکہ وہ پرسکون رہے۔
٭ایسے بچے بہت حساس ہوتے ہیں۔ اس لئے کوئی ایسا کام نہ کریں اور نہ کوئی ایسی چیز ان کے سامنے لائیں جو انہیں پریشان کردے۔
٭ والدین اپنے بچے کی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے معالج اور تھیراپسٹ کے ساتھ مل کر ایسامنصوبہ تشکیل دیں جو بچے کو خوش اور مطمئن رکھنے کے ساتھ ساتھ اس کی کارگردگی میں بہتری بھی لائے۔
٭ان بچوں کے ساتھ عام بچوں سے بہت زیادہ مختلف برتاﺅ اور رویہ اختیار نہ کریں ورنہ ان کے دل میں یہ بات بیٹھ جائے گی کہ ان میں کوئی مسئلہ ہے جو سنگین ہے ۔
کہا جاتا ہے کہ خدا بڑی ذمہ داریاں ہرا یرے غیرے کو نہیں بلکہ چنے ہوئے لوگوں کو دیتا ہے۔ اور جب وہ ان کوپورا کرنے کی ٹھان لیتے ہیں تو خدا نہ صرف ان کی مدد کرتا ہے بلکہ انہیں اس کا خاص انعام بھی دیتا ہے ۔ایسے بچوں کو زندگی گزارنے کے لیے روزمرہ کے کام سکھانا، انہیں نت نئے تجربات کروانا، زندگی کی دوڑمیں دوسرے بچوں کے ساتھ شریک کرنا، چھوٹی چھوٹی خوشیاں دینا،ہمت بندھانا اور حوصلہ افزائی کرنا والدین کی ذمہ داری ہے۔ تھوڑی سی محنت سے آپ انہیں کارآمد اور کامیاب انسان بننے میں مدد دے سکتی ہیں۔
مشہور سائنسدان نیوٹن اورآئن اسٹائن اور موسیقار موزرٹ کے نام کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ تاہم ان کے بارے میں جو بات عام لوگ نہیں جانتے، وہ یہ ہے کہ انہیں بھی آٹزم تھا۔ تاہم ان کے والدین نے ان کاحوصلہ بڑھایا اورخود انہوں نے بھی ہمت نہ ہاری اور بالآخردنیا میں اعلیٰ مقام کے حق دار ٹھہرے۔ اگرآپ کے گھر میں بھی آٹزم کا شکار کوئی بچہ ہے تو ہمت نہ ہارئیے، کیا خبر ان میں بھی کوئی عظیم سائنسدان یا بڑا آدمی چھپا بیٹھا ہو۔

Vinkmag ad

Read Previous

اے ڈی ایچ ڈی عدم توجہ کا عارضہ

Read Next

سکول میں بچوں کا ہراساں کرنا, ہراساں ہونا

Most Popular