آنکھ میں ٹیڑھا پن

    قدرت نے انسان کو جن نعمتوں سے نوازا ہے‘ ان میں سے ایک ہمارے تمام جسم میںنہایت نفاست سے پھیلے پٹھوں کا ایک جال بھی ہے جو نہ صرف ہمارے جسم کو مضبوط اور توانا بناتا ہے بلکہ ہمیں چلنے پھرنے،حرکت کرنے اور ارادوں کو افعال میں ڈھالنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔یہ پٹھے ہی ہیں جن کے سکڑنے اور پھیلنے کے عمل سے ہمارے جسم کے اعضاءحرکت کرتے ہیں۔آنکھ کے مختلف افعال بھی انہی پٹھوں کے ذریعے انجام پاتے ہیں اوراگر ان میں مسائل پیدا ہوجائیں تو آنکھ کی ساخت اور افعال بھی متاثر ہوتے ہیں۔
بھینگا پن کسے کہتے ہیں
اگر آنکھوں کو ایک ڈور سے بندھی پتلی سے تعبیر کیا جائے تو یہ پتلی چھ پٹھوں کی ڈور پر تماشا دکھاتی ہے۔ آنکھوں کا اوپر،نیچے،دائیں اوربائیں طرف دیکھنا انہی کی وجہ سے ممکن ہوپاتا ہے ۔ ان کے علاوہ آنکھ کے کچھ اور پٹھے بھی ہوتے ہیں جو اس کے چھپر (lid)میں موجود رہ کر آنکھوں کو جھپکنے میں مدد دیتے ہیں۔کچھ پٹھے ایسے ہیں جو زیادہ روشنی میں آنکھ کی پتلی کو سکیڑکر یا کم روشنی میں اسے پھیلا کر انسانی آنکھ کو بہتر طور پر دیکھنے میں مدد دیتے ہیں۔
دیکھنے کا عمل تمام پٹھوں کے ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کام کرنے سے ہی ممکن ہوپاتا ہے۔اگر کسی وجہ سے ان کا توازن بگڑ جائے تو ان کی حرکت میں بے قاعدگی پید ا ہوجاتی ہے۔اس سے جو مسائل پیدا ہوتے ہیں‘ ان میں سے ایک مسئلہ یہ ہے کہ آنکھ ٹھیک وقت پر سامنے کی چیز کا احاطہ نہیں کرسکتی جسے بھینگے پن سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ یہ مسئلہ ایک یا دونوں آنکھوں میں ہو سکتاہے۔
بھینگے پن کی اقسام
بھینگے پن کی دو بنیادی اقسام ہیں جن میں سے پہلی قسم میں آنکھیں بظاہرسیدھی نظر آتی ہیں لیکن تھکاوٹ،بیماری،ذہنی دباو¿ یا اپنی سوچوں میں گم ہونے کی کیفیات میں ان میں عارضی طور پر خاص قسم کا ٹیڑھا پن نمایاں ہوجاتاہے۔ طب کی اصطلاح میں اسے زاویہ نگاہ کا توازن بگڑنا (Heterophoria)کہا جاتا ہے۔ دوسری قسم نمایا ں
بھینگے پن سے متعلق ہے جس میں ایک یا دونوں آنکھوں میں ٹیڑھا پن واضح اورمستقلاً نظر آتا ہے۔اصل میں بھینگاپن (Heterotopia)
اسی کو کہا جاتا ہے۔
ان دو بڑی اقسام کو ذیلی اقسام میں بھی تقسیم کیا جاتا ہے۔ مثلاً آنکھ کے مستقلاًاندر کی طرف مڑنے کو ایسوٹروپیا (Esotropia)‘باہر کی طرف پھرے رہنے کو ایکسو ٹروپیا (Exotropia) اوپر کی جانب چڑھے رہنے کو ہائپرٹروپیا (Hypertropia) اورنیچے کی طرف ڈھلکے رہنے کو ہائپوٹروپیا (Hypotropia) کہا جاتا ہے ۔
بھینگے پن کی وجوہات
بھینگاپن کسی خاص عمر،پیشے یا جنس سے متعلق نہیں بلکہ کسی بھی فرد میں ظاہر ہو سکتاہے۔دنیا بھر میں سب سے زیادہ بھینگاپن بچوں میں پایا جاتا ہے جس کی شرح دو فی صد تک بتائی گئی ہے۔ان میں بھینگاپن پیدائشی بھی ہو سکتا ہے اور عمر کے کسی بھی حصے میں لاحق ہو سکتا ہے جسے حاصل شدہبھینگا پن (acquired strabismus) کہا جاتا ہے۔
بھینگے پن کی وجوہات میں فالج،ڈاو¿ن سینڈروم اوردماغ میں رسولی کے علاوہ آنکھوں یا سر پر چوٹ لگنا،آنکھوں میں موتیا اترنا،ایک یا دونوں آنکھوں کی بینائی کا کمزور ہونا،نظر کمزور ہونے کی وجہ سے آنکھ کا سست رہ جانا اورخاندان میں بھینگے پن کاموجود ہونا نمایاںہیں۔
بعض اوقات فرد کی آنکھ بظاہر ٹھیک ہوتی ہے لیکن اس میں مخفی طور پر بھینگے پن کا رجحان پایا جاتا ہے۔ جب تک قوت مدافعت مضبوط ہو‘ تب تک یہ چھپی رہتی ہے تاہم اس کے کمزور ہوتے ہی یہ ظاہر ہوجاتی ہے۔ حال ہی میں میرے کلینک میں آنے والے ایک نوجوان نے بتایا کہ شدید سردی میں ٹھنڈے پانی سے نہانے کے بعد اسے چیزیں دو دو نظر آنا شروع ہوگئیں۔
بھینگے پن کی علامات
بھینگے پن کی علامات درج ذیل ہیں:
٭آنکھ کا اندر یا باہر کی طرف مڑ جانا۔
٭تیز روشنی میں فرد کاٹیڑھے پن سے متاثرہ آنکھ کو فوراً بند کر لینا۔
٭پریشانی یا تھکاوٹ میں آنکھ کا اندر یا باہر کی طرف ٹیڑھا ہوجانا۔
٭چیزوں کے عکس کا دو، دو نظر آنا۔
٭آنکھوں کو حرکت دینے پر دونوں کی حرکت بے قاعدہ محسوس ہونا ۔
٭گہرائی یا اونچائی کے اندازے میں غلطی کرنا۔
مرض کا علاج
بھینگاپن آنکھ کا ایک ایسا نقص ہے جس کا علاج ماہرین مریض کی عمر،نظرکی کیفیت اوربھینگے پن کی نوعیت کے مطابق مختلف انداز سے کرتے ہیں۔ اس میں دوا کا کوئی عمل دخل نہیں ہوتا۔ معائنے کے بعد معالج مرض کی نوعیت کے مطابق نظر کی عینک ،آنکھ پر پٹی چڑھانے یا منشور (prism)کی مدد سے متاثرہ آنکھ کو سیدھا کرنے جیسے طریقوں میں سے کوئی بھی طریقہ اختیار کر سکتا ہے۔انتہائی صورتوں میں پٹھے سیدھے کرنے کے لئے ماہر امراض چشم سرجری بھی تجویز کر سکتا ہے۔
بھینگا پن کی پیچیدگیاں
بروقت علاج نہ کرانے پر مندرجہ ذیل پیچیدگیاں پیدا ہوسکتی ہیں:
٭بھینگے پن کو دور نہ کرنے کی صورت میں ٹیڑھی آنکھ کے سست رہ جانے کا اندیشہ ہوتا ہے اور اگر ایسا ہوجائے تو پھر بینائی بحال نہیں کی جاسکتی۔
٭آنکھ کو مناسب حد تک سیدھا کرنے کے لئے ایک یا ایک سے زیادہ آپریشن بھی کئے جاسکتے ہیں۔
٭بھینگا پن دور ہونے کے بعد دیکھنے میں آنکھ سیدھی لگتی ہے لیکن پھر بھی مریض گہرائی اور اونچائی کے اندازے میں غلطی کر سکتا ہے۔ اس سے مریض کو دل برداشتہ ہونے کی بجائے اس فائدے پر نظر رکھنی چاہئے جو اس سے حاصل ہوا ہے۔
٭بھینگا پن نہ صرف چہرے کی خوبصورتی کو متاثر کرتا ہے بلکہ مریض کی خود اعتمادی پر بھی برے اثرات مرتب کرتا ہے۔
کرنے کے کام
اس سلسلے میں درج ذیل امور کا خیال رکھنا چاہئے :
٭آٹھ سال سے کم عمر بچوں کا ہر چھ ماہ کے بعد ماہر امراض چشم سے معائنہ کرواناچاہئے۔
٭بزرگوں اور بچوں کو عینک کی اہمیت،اس کے استعمال کے فوائد اور استعمال نہ کرنے کے نقصانات سے مسلسل آگاہ کرتے رہنا چاہئے۔
٭آنکھوں کی حرکت میں دقت یا ہلکی سی بے قاعدگی محسوس ہونے پر ماہر امراض چشم سے معائنہ کرواناچاہئے۔

Vinkmag ad

Read Previous

Believe it or not

Read Next

دودھ کیوں نہیں قبول

Most Popular