گرمیوں کی چھٹیوں پر ماوں کو جہاں اس بات کی خوشی ہوتی ہے کہ انہیں اپنے بچوں کو شدید گرم موسم میں سکول نہیں بھیجنا پڑے گا اور انہیں ذرا آرام کاموقع مل جائے گا‘ وہیں یہ پریشانی بھی لاحق ہونے لگتی ہے کہ اب بچے انہیں سارا دن خوب تنگ کریں گے۔اگر ان چھٹیوں کو باقاعدہ منصوبہ بندی سے گزارا جائے اور بچوں کی تمام سرگرمیوں کو ایک ٹائم ٹیبل کی شکل دے دی جائے تو والدین اور بچوں‘ دونوں کا یہ وقت بامعنی اور پرسکون انداز سے گزر سکتا ہے ۔ماہرین سے گفتگو کی روشنی میں صباحت نسیم کی ایک توجہ طلب تحریر
پاکستان کے میدانی علاقوں میں جون سے اگست تک کے مہینوں میںشدید گرمی پڑتی ہے جس کی وجہ سے بچوں کو لُو لگنے‘ ڈی ہائیڈریشن اور گیسٹروانٹرائٹس جیسی بیماریاں ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں ۔ گرمی کی شدت بڑھنے پر بعض بچوں کو سکول میں چکر آتے ہیں‘ بعض مارننگ اسمبلی میں گر جاتے ہیں اورکچھ تو بے ہوش بھی ہو جاتے ہیں۔جب لوڈشیڈنگ ہوتی ہے تو صورت حال اور بھی خراب ہو جاتی ہے ۔ ایسے میں بچے یکسوئی سے پڑھائی کا عمل جاری نہیں رکھ پاتے۔ ان تمام امور کو مدنظر رکھتے ہوئے ہر سال ان مہینوں کے دوران دو‘اڑھائی یا تین مہینوں کے لئے تعلیمی اداروں میں چھٹیاں کر دی جاتی ہیں۔
دیکھا گیا ہے کہ بچوں کی اکثریت چھٹیوں کایہ وقت بغیر کسی نظم و ضبط اور ترتیب کے گزار دیتی ہے ۔ دوسری طرف والدین بھی یہ سمجھ لیتے ہیں کہ ان کے کچھ کام کم ہو گئے ہیں اور وہ بچوں کو ان کے حال پر چھوڑ کر سکون کا سانس لیتے ہیں۔ اگر اس وقت کو ایک خاص منصوبہ بندی کے تحت بہترین اور منظم انداز میں گزارا جائے تو نہ صرف چھٹیوں کے کام سمیت تمام کام اچھی طرح سے انجام پاسکتے ہیں بلکہ بچوں میں صحت مندانہ عادات کوبھی پروان چڑھایا جا سکتا ہے۔ زیرنظر مضمون میں ان تمام امور کا احاطہ کیا جا رہا ہے جواس عرصے میں کئے جا سکتے ہیں
چھٹیوں کاکام تعطیلات گرما کے دوران بچوں کو تعلیمی حوالے سے مصروف رکھنے کے لئے چھٹیوں کاکام دے دیا جاتا ہے تاکہ جب وہ یہ عرصہ گزار کر واپس آئیں تو پڑھے ہوئے اسباق بھول نہ چکے ہوں۔ پشاور کے ایک نجی سکول کی پرنسپل روزی اسد اس کی وضاحت کچھ یوں کرتی ہیں :
”چھٹیوں کے اختتام پر پہلی سہہ ماہی کے امتحانات ہوتے ہیں جن کی تیاری کے لئے بچوں کو ہوم ورک دیا جاتا ہے تاکہ ان کا پڑھائی سے تعلق برقرار رہے اور وہ امتحان میں اچھی کارکردگی دکھاسکیں۔بچوں کی کلاس اور کورس کے مطابق انہیںکچھ تخلیقی کام مثلاً پھلوں کے چارٹ بنانایا قومی ہیروزکے بارے میں لکھنا وغیرہ بھی دئیے جاتے ہیں۔انہیں اسلامیات کے نصاب میں شامل کچھ سورتیں یاد کرنے کو دی جاتی ہیں۔اس کے علاوہ انہیں پابندی سے نماز پڑھنے کی تلقین کی جاتی ہے۔“
کچھ سکولوں میں ہوم ورک بڑے بے ڈھنگے انداز میں دیا جاتا ہے مثلاً پوری کتاب پانچ دفعہ لکھ کر لانی ہے ‘ وغیرہ وغیرہ۔ ایسا ہوم ورک دینے سے اجتناب کرنا چاہئے اوروہ ایسا ہونا چاہئے جو بچوں کی مختلف صلاحیتوں کی نشوونما کرے۔مزید برآں دیکھا گیا ہے کہ بچوں کو جب چھٹیاں ہوتی ہیں تو شروع میں وہ پورے جوش و جذبے سے کام شروع کرتے ہیں اور پھر درمیان میںاسے ادھورا چھوڑکر کھیل کود یا دیگر سرگرمیوں میں مصروف ہو جاتے ہیں ۔جب چھٹیاں ختم ہونے کو آتی ہیں تو پھر ہڑبونگ کے انداز میں اسے مکمل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس کام کو منظم انداز سے کیسے کیا جائے ؟ روزی اسد کہتی ہیں:
” چھٹیوں کا کام وقت پر ختم کرنے کے لئے ضروری ہے کہ پہلے دن سے ہی سارے کام کو چھٹیوں کے کل دنوں پر برابر تقسیم کر لیا جائے اور دن میں کم از کم دو گھنٹے لازماًپڑھا جائے ۔“
ان کا کہناہے کہ ہوم ورک کے علاوہ کچھ وقت جسمانی کھیلوں اورتخلیقی صلاحیتوں کو ابھارنے سے متعلق سرگرمیوں کے لئے بھی مختص کرنا چاہئے ۔ چھٹیوں میں بچے ٹی وی ‘کمپیوٹر‘ اور ٹیبلٹ یا موبائل فون پر گیمز کھیلنے میں بہت زیادہ وقت صرف کرتے ہیں جس کے کئی طرح کے منفی اثرات سامنے آتے ہیں۔اس سرگرمی کے لئے مخصوص وقت مقر رہونا چاہئے۔مزید برآں بچوں کو وقت پر کام ختم کرنے کے انعام کے طور پر تعلیمی اور تفریحی مقامات کی سیر ضرور کروانی چاہئے تاکہ وہ تازہ دم ہو سکیں اور ان کی معلومات میں بھی اضافہ ہو۔
جسمانی کھیلوں کا اہتمام
پڑھائی میں اچھے نمبر لینے کے دباﺅ‘ وقت نہ ملنے‘ کھیل کے میدانوں کی کمی اور ٹی وی ، کمپیوٹر اور ویڈیو گیمز کے باآسانی دستیاب ہونے کی وجہ سے بچوں میں جسمانی کھیلوں کی شرح بہت کم ہو تی جا رہی ہے ۔ اس کے نتیجے میں ان میں صحت کے کئی مسائل جنم لے رہے ہیں ۔فیملی کیئر ہسپتال گوجرخان کے میڈیکل سپیشلسٹ ڈاکٹر ظفر اقبال ملک کا کہنا ہے کہ صحت طرز زندگی کے دو بہت ہی اہم اجزاءمتوازن خوراک اور جسمانی سرگرمیاں ہیں۔ جسمانی گرمیاں بچوں کی ذہنی اور جسمانی نشو ونما کے لئے بہت ضروری ہیں۔ اس لئے والدین کو چاہئے کہ چھٹیوں کے دوران اس پہلو پر خاص توجہ دیں:
” گرمیوں کی چھٹیوں میں بچے زیادہ دیر تک اپنے والدین کے پاس ہوتے ہیں۔چونکہ انہیں سکول نہیں جانا ہوتا‘ اس لئے والدین نسبتاً زیادہ آزادی اور سہولت سے ان کے لئے کچھ سرگرمیوں یا جسمانی کھیلوں کا اہتمام کر سکتے ہیں۔ان کے لئے شدید دھوپ کے اوقات کی بجائے شام کا وقت زیادہ موزوں ہے ۔“
چھٹیوں میںصحت کا خیال
ڈاکٹر ظفر اقبال ملک کا کہنا ہے کہ چھٹیاں بچوں کو شدید گرمی سے بچانے کے لئے ہوتی ہیں لیکن بہت سے بچے شدید دھوپ میں کرکٹ کھیل رہے ہوتے ہیں۔ والدین کو چاہئے کہ شدید دھوپ میں بچوں کو باہر نہ نکلنے دیں اور اگرایسا کرنا ضروری ہو توانہیں سر ڈھانپ کر باہر بھیجیں تاکہ موسم کے برے اثرات سے محفوظ رہا جا سکے۔مزید برآں گرمی میں پسینے کی شکل میں جسم سے پانی کا اخراج زیادہ ہوتا ہے۔ اس کمی کو پورا کرنے کے لئے زیادہ سے زیادہ پانی پینا چاہئے ۔ کولا مشروبات کی بجائے سادہ پانی یا دیسی مشروبات کے استعمال کو ترجیح دینی چاہئے ۔
تیز دھوپ آنکھوں کوبھی نقصان پہنچاتی ہے۔شفا انٹر نیشنل اسلام آباد کی ماہر امراض چشم ڈاکٹر سعدیہ فاروق کا کہنا ہے:
” آنکھیں جسم کا وہ عضو ہیںجو ماحولیاتی آلودگی اور دھوپ سے براہ راست متاثر ہوتی ہیں۔بچوں کو چاہئے کہ دھوپ میں باہر جاتے ہوئے یا کھیلتے وقت ایسے گلاسز استعمال کریں جو آنکھوں کو مکمل طور پر ڈھانپ لیں۔ اس سے ان کی آنکھیں نہ صرف دھوپ بلکہ گردوغباراور جراثیم سے بھی محفوظ رہ سکیں گی۔“
نفسیاتی اور سماجی تربیت
آج کل کے طر زندگی کی ایک نمایاں بات لوگوں کی حد سے بڑھی ہوئی مصروفیت ہے ۔والدین کو اپنے کاموں سے فرصت نہیں ملتی اور بچے اپنی دنیا میں مگن رہتے ہیں۔ یوں وہ دونوں اپنے اپنے دائروں میں مصروف رہتے ہیں اوراس صورت حال نے بچوں اور ان کے والدین کے درمیان ایک اَن دیکھی خلیج حائل کر دی ہے ۔ایسے میں والدین کو اندازہ ہی نہیں ہوپاتا کہ ان کے بچے کیا سوچ رہے ہیں اور کس طرح کے خیالات اور احساسات ان کے اندرپنپ رہے ہیں۔ انہیں اس کا علم اس وقت ہوتا ہے جب ان کا بچہ اچانک کسی غیرمعمولی روئیے کا اظہار کر دیتا ہے یا باغیانہ طرزعمل اپنا لیتا ہے۔ گرمیوں کی تعطیلات والدین کو یہ موقع فراہم کرتی ہیں کہ وہ اپنے بچوں کے ساتھ زیادہ قریبی تعلقات قائم کر سکیں ۔یونیورسٹی آف مینجمنٹ اینڈ ٹیکنالوجی لاہور کی ماہر نفسیات اور کلینکل کاونسلر زوبیہ امین کے مطابق :
” والدین کوچاہئے کہ اپنے بچوں کی توانائیوں کو مثبت کاموں میں استعمال کریں ۔اس کے لئے انہیں مختلف گھریلو سرگرمیوں کا حصہ بنایا جا سکتا ہے یا ان کے ساتھ گھر کے اندر کچھ دلچسپ کھیلوں کا اہتمام کیا جاسکتا ہے ۔اس سے نہ صرف مائیں اپنے گھر کے کام با آسانی نمٹا سکیں گی بلکہ بچے بھی خوش اور مطمئن رہ سکیں گے۔“
ڈاکٹر زوبیہ نے اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ پوری اور پرسکون نیند اچھی صحت کے لئے اشد ضروری ہے۔ رات کی نیند کے وقت ان کا دماغ اور جسم پرسکون ہوتے ہیںاور وہ دن بھر کی تھکاوٹ سے چھٹکارا پاتے ہیں۔چھٹیوں میں بھی رات کو جلدی سونا اور صبح جلدی اٹھنا چاہئے ۔“
ڈنگہ(کھاریاں ) کی ایک خاتون خانہ مسز ممتاز نے اپنے بچوں کے لئے چھٹیوں کا ایک ٹائم ٹیبل ترتیب دیا ہے ۔دیگر والدین اپنی ضروریات‘ مصروفیات اور ترجیحات کے مطابق ان میں ردوبدل کر کے اپنا سکتے ہیں یا نیا ٹائم ٹیبل بنا سکتے ہیں:
ان کاکہنا ہے کہ والدین کوچاہئے کہ ان چھٹیوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے زیادہ سے زیادہ وقت بچوں کے ساتھ گزاریں‘ ان کے پسندیدہ مشغلوں میں حصہ لیں ‘ انہیں آسان الفاظ میں چھوٹے چھوٹے قصے کہانیاں سنائیں اور ان کے سوالات کے جوابات دیں۔ایسا کرنے سے بچوں کی جذباتی تربیت ہوگی‘انہیں رشتوں کی اہمیت کا پتہ چلے گا اوراپنے اردگرد کے ماحول کو سمجھنے میں بھی مدد ملے گی۔مزیدبرآں وہ اکیلے پن کا شکار بھی نہیں ہوںگے۔“
کوئٹہ کی ایک خاتون خانہ عفت درانی سے پوچھا گیا کہ چھٹیوں کے دوران ان کے بچوں کے معمولات کیا ہوتے ہیں تو انہوں نے کہا :
” چھٹیاں ہوں یا نہ ہوں میرے بچوں کا معمول تبدیل نہیں ہوتا ۔وہ اس کلچر میں اس حد تک ڈھل گئے ہیں کہ اب ہر کام مقرہ وقت پر کرنا ان کا مشغلہ ‘ رات کو جلدی سونا اور صبح جلدی جاگنا اور نماز ادا کرنا ان کے من پسند کام ہیں۔“
سعدیہ مصطفی ایک ماہر نفسیات ہیں اوراسلام آباد کے ایک تعلیمی ادارے ”اے سی ای انٹرنیشنل اکیڈمی“ میں سٹوڈنٹ کاﺅنسلر کے طور پر فرائض انجام دے رہی ہیں۔ انہوں نے شفانیوز سے گفتگو میں ایک دلچسپ واقعہ بیان کیا :
” میں نے تیسری جماعت کے ایک طالب علم سے پوچھا کہ’آپ بڑے ہو کر کیابنیں گے‘ تو اس نے جواب دیا کہ ’ آئی فون‘۔ میں نے اس کی وجہ پوچھی تو اس نے کہا کہ’ اس طرح سب میری طرف توجہ دیں گے‘ مجھے اٹھا اٹھا کر پھریں گے اور مجھے پیار بھی کریں گے۔‘ یہ صورت حال ان والدین کے لئے لمحہ فکریہ ہے جو ہر وقت سوشل میڈیا میں مگن رہتے ہیں۔“
انہوں نے کہا کہ بہت سے بچے خوشحال خاندانوں سے تعلق رکھنے کے باوجود خود کو بے بس اورتنہا محسوس کرتے ہیں۔انہوں نے والدین پر زور دیتے ہوئے کہا کہ بچے کی بہتر ذہنی اور جسمانی نشوونما کے لئے ہر حال میں اپنی مصروفیات سے کچھ وقت نکال کر بچوں کو دیں اور انہیں اپنے ساتھ ہونے کا احساس دلائیں۔ ان کے بچپن کو موبائل، انٹرنیٹ اورآن لائن گیمز کے سپرد نہ کریں ورنہ ان میں اور ربورٹ میں کوئی فرق نہ ہوگا۔
اہم نکات
٭اگر بچوں کو چھوٹی عمر سے ہی ڈسپلن کا عادی بنایا جائے تو یہ عادت عمر بھر ان کے ساتھ رہتی اور ان کے کام آتی ہے ۔والدین کو چاہئے کہ گرمیوں کی چھٹیوں کو اس مقصد کے لئے استعمال کریں۔
٭بچوں کے ساتھ گزارا گیا وقت ’کوالٹی ٹائم ‘ ہونا چاہئے یعنی وہ محسوس کریں کہ انہیں وقت دیا گیا ہے ۔اس کے بہت سے فوائد ہیں۔ مثلاً بچے اپنے مسائل ان سے کھل کر بیان کر لیتے ہیں اور کسی ہچکچاہٹ کا شکار نہیں ہوتے ۔ والدین کے لئے بھی اپنے بچوں پر نظر رکھنا اور ان میں آنے والی خرابیوں کی بروقت اصلاح کرنا آسان ہوجاتا ہے۔
٭والدین کو چاہئے کہ وہ اپنے بچوں کی صرف تعلیم پر ہی نہیں‘ ان کی بہتر ذہنی اور جسمانی نشوونما پر بھی توجہ دیں۔اس کے لئے صحت مند کھیل اور مناسب غذا کو یقینی بنائیں۔
٭عموماً دیکھا گیا ہے کہ وقت کی کمی کے باعث بچے روزانہ غسل نہیں کر پاتے۔والدین کو چاہئے کہ بچوں میں ہاتھ دھونے، غسل کرنے،ناخن کاٹنے،صبح اور رات کو دانت صاف کرنے جیسی عادتیں پختہ کریںاور گرمیوں کی تعطیلات کو اس مقصد کے لئے استعمال کریں۔
اوقات
کرنے کے کام
فجر کی اذان کے ساتھ بیدار ہوں
صبح فجر کی نماز+ ناظرہ قرآن مجید + دن کے کپڑے پہنیں + ناشتہ
صبح 6سے9
چھٹیوں کا کام +یاد کرنے والا کام
صبح 9سے دوپہر1
گھر کے مختلف کاموں یا گھر کے اندر ہی کچھ کھیلوں میں بچوں کی شمولیت
دوپہر1سے4
نماز ظہر+دوپہر کا کھانا+سوجانا
شام 5سے7
نماز عصر+شام کی واک/جسمانی کھیلوں کا اہتمام/ورزش
شام 7سے رات9
نماز مغرب +کارٹون/کمپیوٹر /ٹی وی گیمز ٹائم
رات 9بجے
نماز عشائ+کھانا+دانت برش +رات کے کپڑے پہنیں +سوجائیں